تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
دہشت گردوں نے آج پاکستان میں ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے سیاسی قیادتیں بھی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ہر بڑا سیاست دان اپنے دامن پر دھبے آنے سے پہلے ہی دھو دینا چاہتا ہے اور دوسری جانب ملک غیر اعلانیہ طور پر سول مارشل لاءکے نرغے کا شکار د کھائی دے رہا ہے۔کوئی اس سول مارشل لاءکے لئے زبان نہ کھولے ورنہ اُسے گونگا ہونا پڑ جائے گا۔چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ہمارے خیال میں ملک کے اقتدار اعلیٰ پر سیاسی کے بجائے فوجی رٹ واضح دکھائی دیتی ہے ۔دوسری جانب ہمارا فوجی جوان ملک کیلئے نا صرف سرحدوں پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہا ہے بلکہ دورنِ خانہ بھی وہ دہشت گردی سے پوری قوت کے ساتھ نبرد آزما ہے۔
اس وقت ملک میں ن لیگ کی حکومت انتہائی کمزور حکومت کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔کوئی ادارہ حکومت کی گرفت میں ہے ہی نہیں۔اس کمزور صورتِ حال میں آج ملک میں ایک عجیب غریب بحث چل نکلی ہے ۔نہ ملک میں مارشل لاءہے اور نہ ہی بظاہرکوئی فوجی اس ملک پر قابض ہے۔مگر حکمران خوف کے ایک خول میں مقید دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں (سول) عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت ملک میں فوجی عدالتیں قائم کرنے پر مصر ہے۔جبکہ ہمارا آئین بھی سول حکومتوں کو فوجی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ ” میں اس بات کی ذاتی طور پرذمہ داری لیتا ہوں کہ ملٹریٍ کورٹس کا غلط استعمال نہیں ہوگا“ مگر کیا یہ ہمارے عدالتی نظام پرجنرل راحیل شریف کا عدم اعتماد کا اظہار نہیں ہے؟ملٹری کورٹس کو ہر مارشل لاءدور میں لوگوں نے دیکھا ہے اور ان کے کارناموں سے بھی ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔جنہوں نے اپنے مخالفیں پر وہ نا انصافیاں مسلط کی تھیں اور لوگوں کو سرِ عام کوڑوں کی سزائیں دی گئیں جو ہماری تایخ کا حصہ ہیں۔
ایک اخبار میں یہ خبر لگی ہے جس میں کہ فوجی عدالتوں کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ حکومت 22 ،ویں ترمیم لانے کی تیاریاں کر رہی ہے جس کے تحت کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں پورے ملک میں قائم ہوں گی۔فوجی عدالت کی سربراہی فوجی حکام کریں گے تاہم ان کے ساتھ متعلقہ ہائی کورٹس کے عدالتی افسروں کو معاونت کے لئے تعینات کیا جائے گا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی جنتا ان عدالتی افسروں کی معانت کو قبول کر لے گی؟اس ضمن میں ایک ما ہرِ قانون خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ عدالتی منصب پر کسی بھی انتظامی افسر سول یا ملٹری افسرکی کی تقرری آئین کی خود مختاری کے واضح خلاف ہوگی۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے کسی بھی جزو یا عنصر کے خلاف نہ کوئی آئنی تر میم ہو سکتی ہے اور نہ ہی قانون سازی ہو سکتی ہے۔خواجہ حارث نے انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ،جو مقدمات میں تاخیر اور سزا کو ناممکن بنا دیتے ہیں اور شہادتوں کو محفوظ نہیںبنایا جاتا،جائے واردات کی حفاظت نہیں کی جاتی،اور تفتیش کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔واقعہ کے فوراََ بعد گولیوں کے خول فارانسک ڈپارٹمنٹ کے حوالے کئے جائیںاور بر آمدگی کے فوراََ بعد گن بھی اس محکمے کے سپرد کر دی جانی چاہئے۔اگر گولیوں کے خول اور گن تاخیر سے فارسک ڈپارٹمنٹ کو دی گئی تو انہیں ثبوت تسلیم نہیں کیا جاتاہے۔ نامکمل ثبوتوں کی بناءپر عدالتیں ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں۔
اس خبر نے پاکستان میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ملک میں ایک بار پھر فوجی عدالتیںلگانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام کا تجربہ نا کام رہا ہے؟یا انہیں ہمیشہ مصلحت پسندی کےلئے استعمال کیا گیا یا اس سسٹم کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہی نہیں گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہٹار گیٹیڈ آپریشن میں پولس اور رینجرز نے 6935 ،مشتبہ افراد کو گرفتار کیا مگردہشت گردی کے قانون کے تحت گواہوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔مگر حکومت کی جانب سے یہ ذمہ داری شائد پوری نہیں کی جا رہی ہے۔جس کی وجہ سے بڑ ے بڑے کریمنل آسانی کے ساتھ رہائی کا پروانہ لے نکلتے ہیں اور پھر موقعہ ہاتھ آتے ہی بدیس سدھار جاتے ہیں ۔
آئینی ما ہرین نے فوجی عدالتوں کے قیام کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔آئینی ترمیم کے باوجود فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکتا ہے۔فوجی عدالتوں کے قیام کی وجہ سے آئین میں دیئے گئے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔اس سلسلے میں سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کا کہنا ہے کہ ”فوجی عدالتوں کا قیام متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ اس کی ہر گز اجازت نہیں دے گی۔ حکومت کو فوجی عدالتوں کے قیام سے زیادہ موجودہ انصاف کے نظام کو بہتر کرنا چاہئے“اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سپُریم کورٹ ماضی میں بھی ملٹری کورٹس کے قیام کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔نواز شریف نے اپنے حکومت کے دوسرے دورانئے میں بھی یہ کوشش کی تھی جو عدالتِ عالیہ نے ناکام بنا دی تھی۔اب یہی کوشش ایک مرتبہ پھر کی جا رہی ہے جو ہم سجھتے ہیں کسی صورت بھی کامیاب نہ ہو سکے گی۔سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجہہ الدین احمد کا بھی کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ایسا کرنا بنیادی حقوق پر حملے کے مترادف ہوگا۔لیکن حکومت آرٹیکل 245 ،کا سہارا لے سکتی ہے۔اُن کا مزید یہ کہنا تھا کہ فاٹا میں فوج کی موجودگی کی وجہ سے وہاں فوجی ٹریبیونلز کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔لیکن قدرے پر امن علاقوں میں یہ ممکن نہیںہے ۔
حکومت اپنی نا کامیوں کا ملبہ عوام کے حقوق غصب کر کے ان پر ڈٓلنا چاہتی ہے۔ حکو مت نے پولیس کو اس معاملے میں دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال پھینکا ہے ۔پولس کی اصلاح اور تربیت اور جدید ساز و سامان کی فراہمی کے بلند بانگ دعوے تو کئے۔ مگر ان دعووں کو عملی شکل دینے کی کبھی نوبت ہی نہیں آ ئی شائد تمام صوبائی حکومتیں اس معاملے میںمخلص نہیں ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا عفریت شہروں میں کم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔خاص طور پر کراچی اس دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے۔
اس وقت کا جو ماحول بنا ہے اور جنرلز جس طرح جمہوریت پرحاوی ہو رہے ہیں وہ قوم کے لئے کوئی اچھی نوید نہیں ہے۔حکومتِ پاکستان کا ہر ملازم چاہے وہ جس بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو وہ وزیر اعظم کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا ہے۔مگر حالات یہ بتا رہے ہیں کہ سرکاری ملاز مین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے ۔ لہٰذاوہ مسلسل لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو ڈکٹیشن دے رہے ہیں،اور حکومتی کمزوریوں کے پیشِ نظر وزیر اعظم بھی لگتا یوں کہ ہے کہ اُن سے خائف ہیں ۔جس کی وجہ سے مل جل کر معاملات چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تاکہ جمہوریت کی بساط بر قرار رہ سکے۔
فوجی عدالتوں کے بارے میںمارشل کی بڑی مخالف جماعت ِ اسلامی بھی آج یہ کہنے پر مجبور ہے کہ فوجی عدالتوں پر تحفظات تو تھے مگر اس کے سوائے کوئی راستہ نہیں ہے؟؟؟پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹ کی اعلیٰ قیادت بھی فوجی عدالتوں کے قیام پر متفق ہو چکی ہے۔وہ جماعتیں جو ماضی میں مارشل لاءکا دست و بازو رہی ہیں انہوں نے تو فوجی عدالتوں کے قیام پر بے پناہ اعتماد اور خوشی کا اظہا کیا ہے۔عمران خان نے بھی بصد خوشی فوجی عدالتوں کے قیام کو ما نا ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ریٹائرڈ بوٹ بردار کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ایم کیو ایم جو دل سے فوجی اقتدار کی حامی ہے اس نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کر دی ہے حالانکہکراچی آپریشن پر ان کے تحفظات موجود ہیں۔ جمیعتِ علماءاسلام ف کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ہم اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ،ہاں اگر آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش ہو تو غور کرسکتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے اس سلسلے میںوزیر طلاعات نے بڑی عجیب منطق پیش کی ہے جس میں فوجی عدالتوں کو اسپیشل کورٹس کا نام دے کر کہتے ہیں کہ یہ فوجی عدالتیں نہیں بلکہ آئینی عدالتیں ہیں۔اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com