تحریر: لقمان اسد
جس طرح خاندانی طور پر امراء طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاں دولت انتی قابل فخر شے نہیں ہوتی کہ جس کے بل وہ پر اپنے آپ کو آسمانی مخلوق تصور کریں اور معاشرہ کے دوسرے کم دولت والے افراد سے خودکو الگ تھلگ حیثیت میں ڈھلے ہوئے انسانوں کا کوئی رنگ پیش کرتے دکھائی دیں، اسی طرح مذہب سے روایتی انداز اور روایتی طور پر جڑے ہوئے لوگوں کو مسئلہ بھی کبھی یہ نہیں ہوتا کہ وہ فرقہ واریت میں بٹے دکھائی دینے پر اپنے لیے کوئی قابل فخر کردار تصور کریں بلکہ ان کے ہاں مذہب ایک ایسا ورثہ ٹھہرتا ہے کہ جس پر کار بند رہنا وہ ایک عظیم مقصد تصور کرتے ہیں اور اس میں اپنے لیے تاحیات اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کیلئے فلاح کا مقصود ان کیلئے فرض اولین کا درجہ رکھتا ہے ہمارے ہاں جبکہ دونوں طرح کے معاملات کا رنگ انتہائی بھیانک صورتوں میں فروغ پاتا رہا ہے اور ہنوز یہ بدترین سلسلہ پوری شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
رفتہ رفتہ ہم بطور قوم یامن حیث القوم ان دونوں بیماریوں میں اس طرح مبتلا ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس کی آخری سٹیج انتہائی ذلت آمیز، وحشتناک اور ایک لاعلاج مرض کا روپ ہے۔صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ہم ابھی تک بطور مسلمان مذہب سے ہم آہنگ اور نہ ہی مذہب کی روح کے حقیقی تصور سے ہمیں آشنائی نصیب ہوسکی ہے۔جس طرح ہمارے ہاں دولت کے حصول کو ایک لت کے طور پر لیا جاتارہا ہے بعینہِ مذہب کے ساتھ بھی ہمارے رویہ اسی طرز کا رہا ہے جس طرح نودلیتے ہمارے معاشرے کیلئے برائی کی ایک جڑ ثابت ہوئے ہیں اور وہ کسی عام یا کسی غریب انسان کو خدا کی مخلوق ماننے سے یکسر منکر ہیں عین اسی طرح مذہبی پیشوائوں کا وطیرہ بھی تقریباً یہی ہے کہ وہ ایک طرف مذہب کو فرقوں میں تقسیم کرنے کے عمل میں اپنی بقاء کو لازم تصور کیے ہوئے ہیں دوسری طرف ان کے نزدیک باقی کے فرقوں کے متعلق وہی انداز فکر ہمیشہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ عدم برداشت سے اپنے ذہنوں کو معمور کیے ہوئے اپنے فرقہ کے علاوہ کے لوگوں کو اللہ کی پیدا کردہ مخلوق تسلیم کرنے سے گویا انکاری ہیں۔
ان ممالک پر نظر دوڑائیں اور وہاں کے معروضی حالات کا تجزیہ کریں کہ جہاں سے ہمارے جیسے دور دراز کے خطوں میں مذہب پہنچا تو وہاں ان ممالک میں نہ تو اسقدرمذہبی عنادنظر آتا ہے،نہ مذہبی تفریق،نہ فرقہ بندیاں اور نہ ہی مذہب کے نام پر اس قدر اندرونی خلفشار کہ جس طرح ہمارے یہاں مذہب کی آڑ میں عجیب غریب کاروبار مختلف قسم کی اور مختلف ناموں کی تنظیمیں۔کوئی دفاعِ مذہب کے نام پر اپنی دوکان کھولے ہوئے کوئی فروغِ مذہب کے نام پر اپنا کاروبار چمکاتا نظر آتا ہے تو کوئی مذہبی قانون کے نفاذ کی خاطر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں سرگرداں۔جہاں سے مذہب آیا وہاں قانونی طور پر یعنی ایک نظام کے طور پر مذہب کا نفاذ رائج کرکے ان مملکتوں کے سربراہان نے ہمیشہ کیلئے فرقہ پرستی کے دروازے بند کردیے اور انہوں نے یہ انداز فکر اپنائی جب نظام کو مذہب کے تابع کردیا جائے گا تو آخری حد یہی ہے کسی مذہب کے تحفظ کی کہ اسے عملاً قانونی انداز میں مملکت پر نافذ کردیا جائے پھر اس مملکت میں رہنے والا ہرشخص اس مذہب کے اصولوں کی حدود میں رہ کر اپنی زندگی گزارے تاآنکہ کل کوئی شخص یا طبقہ چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو وہ مذہب کی آڑ میں اپنی مملکت کو رٹ کو باآسانی کوئی حیلہ بہانہ بناکر یا من گھڑت جواز گھڑکے چیلنج نہ کرسکے ۔کہنے کو تو ہم اور ہمارے حکمران انتہائی فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد”کلمہ طیبہ” ہے۔ دو قومی نظریہ کی تشریح بھی ہم انہی الفاظ میں آج تک کرتے ہیں کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ مذہب رکھنے والی الگ الگ قومیں تھیں اس لیے ہمارے لیے اپنے مذہبی نظام کے تحت زندگی گزارنے کیلئے ضروری قرار پایا ہم بطور مسلمان،ہندوئوں سے الگ اپنی خود مختار سٹیٹ قائم کریں کہ جس میں مکمل آزادی کے ساتھ اسلامی نظام کے تحت اور اپنی مذہبی روایات کے اندررہ کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگیوں کی بقاء کو یقینی بنائیں اور اپنے مذہبی وقار اور تشخص کی الگ پہچان کو بھی۔مگر 67برس مکمل گزر جانے کے باوجود ہم آج تک الگ طور پر اپنے مذہبی تشخص کو یقینی نہ بنا سکے۔
ماسوائے اس کے کہ مذہبی کاروبار کو فرقہ واریت کے انداز میں فروغ دیتے ہوئے انتہائی بے دردی سے ایک خونی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔جس طرح صدیوں پہلے ہم اپنے لیے مذہب کو دور دراز سے اپنی طرف کھینچ لانے میں عافیت محسوس کرتے تھے آج بھی ہم اسی جگہ کھڑے ہوکر باہر کے ممالک سے آنیوالی ہر فکر کو اپنے لیے باسعادت عمل خیال کرتے ہیں۔ جبکہ ہمیں مذہب امپورٹ کرنے والوں میں اب ہمیں اپنی اپنی ضرورتوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے۔
اس بحث سے مُراد کسی ایک مخصوص مکتب فکر یا کسی ایک مذہبی فرقے کے طرز عمل کو تنقید کا مرکز قرار دیتا ہرگز نہیں لیکن بالآخر ہم سب کو چاہے وہ ہمارے مذہبی راہنما ہوں، چاہے سیاسی راہنمائوں یا کسی بھی اعلی عہدے پر فائز بیوروکریٹ کبھی اس پہلوں پر سوچنا چاہیے بلکہ سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ ہم کس قدر ایک بے ڈھنگی چال میں پھنسے ہوئے ہیں او ابھی آگے کی طرف بھی اسی بے ڈھنگ سے انداز میں گھرتے چلے جارہے ہیں تو آخر ہمارا انجام کیا ہوگا؟ کیا اسی میں ہم سب پاکستان میں رہنے والوں اور ہمارے وطن کی عافیت نہیں کہ ہم نے جن مقاصد کے تحت یہ وطن عزیز حاصل کیا تھا آج ہم تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر انہی مقاصد کے حصول کیلئے عملی طور پر متحد ہوکر اقدامات اٹھائیں ؟آج ہی یہ فیصلہ کہ وہ دوقومی نظریہ جسکا تصور علامہ محمد اقبال نے پیش کیا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے عملی جدوجہد کی تھی آج 67برس بعد ہی سہی اسکا عملی نفاذ یقینی بنائیں تاکہ ملک میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے اختتام پذیر ہو۔
تحریر: لقمان اسد