تحریر : شاہ بانو میر
گھڑی نامی یہ ایجاد اس وقت دِکھا رہی ہے٬ ویسے تو صفر کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں٬ لیکن حضرتِ انسان نے اس صفر کو اُس وقت ہیرو بنا دیا جب کسی بھی بامقصد عدد کے آگے کی بجائے پیچھے لگانا سِکھا دیا٬ یوں اس بے ضرر ہندسے کی اوقات اپنی حیثیت میں توکچھ نہیں ٬ لیکن کسی باوزن ہندسے کے ساتھ ملتے ہی یہ ایک دم بھاری بھرکم ہو کر انسان کو ککھ پتی سے لکھ پتی کروڑ پتی بنا دیتا ہے اور یہ کامیابی کا گراف اسی بے وقعت صفر کی بڑہتی ہوئی تعداد سے مسلسل انسان کی زیرو سے ہیرو بناتا چلا جاتا ہے٬ اس وقت بظاہر یہ چار ہندسے برابری کی سطح پے ہیں٬ ان کے آگے کوئی بامقصد حیثیت کا حامل عدد موجود نہیں لیکن جیسے ہی گھڑی نے 4 بار 0000 کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی دنیا کے ہر ملک میں خوشی کے جیسے شادیانے بجنے لگے٬ مہذب متمول ممالک میں آتش بازی کے حیرت انگیز مناظر ٬ کہیں کلبز میں نائٹ فنکشنز ٬ کہیں منچلوں کی من موجی حرکتوں سے عاجز لوگوں کی شکایت پر پولیس کی بھاگم دوڑ ٬ کہیں ہلا گلا اور انہی ممالک میں پاکستان جیسے مُلک میں زخموں سے چور چور شہری ہر غم فکر کو کچھ عارضی لمحوں کو مستعار لیتے ہوئے خوش دکھائی دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ٬ میں باہر کا شور بھی سُن رہی ہوں٬ اور اندر سے اٹھتی کراہوں کو بھی محسوس کر رہی ہوں
بچے اس جدید مُلک میں رہ کر کوشش کرتے ہیں کہ جب بیٹھیں تو کوئی ہلکی پھلکی گفتگو ہو گھریلو نوعیت کی کئی اہم باتیں وہ کرنا چاہتے ہیں٬ لیکن میرے چہرے پے چھائی گہری سنجیدگی انہیں متنبہ کر دیتی ہے کہ آج کوئی خوشی نہیں کوئی شرارت نہیں ٬ اور وہ غیر محسوس طریقے سے اٹھتے ہیں اور اپنے اپنے رومز میں پناہ لے لیتے ہیں٬ میں دل ہی دل میں خود کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہوں٬ کہ آخر میں ہی کیوں؟ ساری دنیا فراموش کر بیٹھی تو میں کیوں نہیں بھول سکتی؟ لیکن دل کے کسی کونے سے صدا آتی ہے کہ نہیں سب نہیں بھولے ذرا کی ذرا جا کر کواڑ تو کھولو اُن گھروں کے جن کے معصوم فرشتے ہنستے مُسکراتے اپنی اپنی ماؤں کی صبح اٹھنے سے لے کر ناشتہ کرنے تک اور پھر بس یا وین یا گاڑی کے چلنے تک دوڑ لگوا کر نڈھال کرواتے ہوئے سکول کی جانب روانہ ہوئے ٬ بکھری ہوئی اشیاء کو سمیٹتے ہوئے ہر ماں جس نے خود کھانا بنانا تھا یا بنوانا تھا اپنے لاڈلوں کو دوپہر میں کیا بنا کر دے گی٬
اسی سوچ میں گُم چیزیں سمیٹ رہی تھی کہ اچانک کہیں سے کسی کے گھر میں فون کی چنگھاڑ سنائی دی اور ماں جب فون اٹھاتی ہے تو چیخوں سے پورا گھر لرز اٹھتا ہے٬ گھر سے ہر ماں کا سکول تک کا سفر اور ہسپتال شناخت تک کے عمل سے وہ کس عذاب سے گزری ہوگی یہ صرف اسکا خُدا جانتا ہوگا٬ یا وہ خود٬ چہروں کو پہچان کے لئے چھوڑ کر ان معصوموں کے دماغوں کو کسی سیال مادے کی طرح گولیوں سے سروں کو چھلنی کر کے جیسے نکالا گیا ہوگا٬ وہ معصوم کس کس طرح تڑپے ہوں گے٬ کیسے ماں کو پُکارا ہوگا٬ کیا فریاد کی ہوگی ٬ آج اُن گھروں کے درو دیوار ماتم کناں ہیں ٬ ہم سب تو چند روز میڈیا پے چلتی متحرک تصاویر سے اس دلدوز حادثے کے غم کو محسوس کر کے ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے کاموں میں گُم ہو گئے٬ اور دو ہفتے بعد ہی نئے سال کے چار زیرو ہمیں اچھلنے کودنے پر آمادہ کر گئے ٬
سوچو اُن ماؤں کو وہ تو جیتے جی مر گئیں زندہ لاشیں بن گئیں ٬ ٰفوجیوں کی بیویاں ہیں شوہروں کی لاش وصول کرنے کے لئے بڑا جگر بڑا حوصلہ رکھنے والی قوم کی مائیں ٬ لیکن اپنے ننھے فرشتوں کی ادھیڑی ہوئی لاشیں کبھی وصول کرنی ہوں گی یہ تو خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا ہوگا٬ ان کے گھروں کے درو دیوار گہری خامشی کا مسکن بن کر نوحہ بین کرتے ہوئۓسُنا رہے ہیں کہ اس مُلک کے باسیوں کو آج بھی اس ملک کی قدر اور اہمیت کا احساس نہیں کہ جس ملک کی پاک سرزمین کے لئے پاک فوج کے جوان تو لہو دیتے آئے تھے اب ان کی نئی نسل نے بھی اس کی آبیاری اپنے خون سے کر دی٬ کچھ حادثات ایسے روح فرسا ہوتے ہیں کہ دنیا جیسے لرز کر رہ جاتی ہے٬ یہ حادثہ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے٬ عرصہ دراز تک دنیا میں اس کا تزکرہ ہوتا رہے گا٬
لیکن ہم اتنے سفاّک ہو گئے ہیں٬ کہ دو ہفتے قبل ہوئے اس حادثے کو بھولنے کے ساتھ ہی چند روز پہلے لگی کراچی کی ظالمانہ آگ کو بھی تہہ خاک سُلا کر اور اس کے بعد گزشتہ دن لگی انار کلی کی آگ کو بھول کر پوری قوم اور ہمارا محترم میڈیا آج پاکستان کی سڑکوں کا احاطہ کئے ہزاروں نوجوانوں کو دکھا کر بتا رہا ہے کہ دیکھو ہم کس قدر بے حس ہوگئے ٬ آج پاکستان سب کا سانجھا نہیں “” جیسے مومن کا جسم جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پوری امُت وہ درد محسوس کرتی ہے”” آج یہ عالم ہے کہ جو مر گیا دکھ اس کے بچوں کا ہے والدین کا ہے٬ ہم سب شکر ادا کرتے ہیں کہ موج مستی منانے کو ابھی ہم اور ہمارے عزیز محفوظ ہیں لہٰذا خوب انجوائے کرو٬ یہی وہ احمقانہ رویّے ہیں جنہوں نے دشمنوں کو تقویت دے کر بہت دور سے لاکر ہمارے بہت قریب گھروں کے آس پڑوس میں لا بسایا ٬ سوچو ہم کب پکڑے جائیں گے کچھ علم نہیں کچھ پتہ نہیں ہوش میں آؤ پاکستان ہم اس وقت اس لمحے اُن ماؤں کی دلخراش چیخوں کو یاد کر لیتے اور اس بار کا یہ نیا سال ہنگاموں کی روشنیوں کی آتشزدگیوں کی نذر کرنے کی بجائے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اُن بچوں کے نام خاموشی کو کچھ منٹ کے لئے اپنا کر آغاز کرتے اور دُعا کرتے کہ اے ہمارے عظیم و کریم ربّ تیری رحمتوں کی انتہاء نہیں بے شک ہم اپنے اعمال کی پاداش آج یہ اُجڑا پاکستان دیکھ رہے ہیں٬
اے پیارے ربّ تو تو ستر ماؤں سے زیادہ مُحبت کرنے والا ہے ٬ مالک !! اب بس کر دے ٬ رحم فرما دے ہم پر ہماری اولاد پر٬ امتِ محمدیﷺ پر٬ اور بچا لے اس ملک کو ہماری نسل زندگی کی مکمل خوبصورتی ایمان کی حلاوت کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے دے ٬ پاکستان کو آباد اور کامیاب بنا دے مالک ٬ اے ہمارے سچے پاک ربّ اب معاف کر دے اور سچے دل سے کی گئی ہماری توبہ قبول کر کے ہم سب کو محفوظ زندگی عطا فرما٬ یا اللہ ہم سب کو ایک دوسرے کا غم محسوس کرنے بنا٬ ان بچوں کے والدین کو صبر عطا فرما دے جو نئے سال پر اپنے پیاروں کو کھو چکے بے شک تو ہی رنج کے بعد راحت عطا کرنے والا رحیم رّب ہے نئے سال کو اس ملک اس قوم اور پوری دنیا کے لئے باعثِ امن بنا اور پاکستان کے لیۓ بطورِ خاص کامیابی اور سکون کا سال مقرر کر دے آمین
تحریر : شاہ بانو میر