تحریر: محمد عثمان طفیل
”اصطلاحات” خالی پیالوں کی مانند ہوتی ہیں اور ان میں معنی ہم خود ڈالتے ہیں۔ چونکہ اکثر لوگ تصویر کا صرف ظاہری رخ ہی دیکھ پاتے ہیں اس لیے وہ ظاہری معنی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں حالانکہ تصویر کا ایک دوسرا اور روشن پہلو بھی ہوتا ہے جس پر نظر پڑتے ہی ظاہری مطالب و مفاہیم بے وُقعت ہوجاتے ہیں اور یہی روشن پہلو اس اصطلاح کا اصل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک اصطلاح ”غزوہ” ہے جسے مستشرقین کے پھیلائے ہوئے زہریلے پروپیگنڈے کی بدولت ”جنگ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں ”جنگ” کا نام آتے ہی ہر شخص کے ذہن میں بہت سے مناظر ابھرنے لگتے ہیں۔ غصے اور نفرت و عداوت سے بھرے لوگ… خون ریزی… کٹی پھٹی لاشیں… ادھ موئے زخمی… ہر سو پھیلی خون کی بو… شکست خوردہ فوج کی بھگدڑ… فاتحین کا مفتوحین سے غیرانسانی سلوک… تاراج بستیاں… لٹتی عصمتیں … بلکتے بچے… سسکتے بوڑھے…اور نہ جانے کیا کچھ…۔
لیکن کیا کسی غزوے کا نام آنے پر بھی یہ سب کچھ ذہن میں آتا ہے…؟؟
محترم قارئین! اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اس کے ہر رکن سے معاشرے میں ”قیام امن” کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ چاہے معاملہ نماز پنجگانہ کا ہو یا استحکام معیشت کے ایک اہم سبب ”زکوٰة” کا… بات رمضان کے روزوں کی کی جائے یا حج کی… اسلام کے ہر عمل سے ایک خاص اطمینان جھلکتا ہے… حتیٰ کہ ”جہاد فی سبیل اللہ” کا مقصد بھی ‘امن و امان” کے قیام سے ہی متعلق ہے۔ اسلام چونکہ ”دین فطرت” ہے اور فطری طور پر ہر شخص لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، گالم گلوچ اور دنگا و فساد سے دوری چاہتا ہے۔ اسلام بھی اپنے ماننے والوں کو اسی بات کی تعلیم دیتا ہے۔ البتہ معاشروں کی فتنوں سے تطہیر اور دنیا پر اسلام جیسے پُر امن دین کے نفاذ کے لیے ”جہاد فی سبیل اللہ” جیسے عمل کو جاری کیاگیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض اوقات ڈاکٹر کو بھی جسم کے کسی حصے پر نشتر زنی کر کے اس میں موجود نقصان دہ مادے کو نکالنا اور صاف کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور ڈاکٹر کے اس عمل کو جسم کے خلاف زیادتی یا ظلم تصور نہیں کرے گا۔ ایسے ہی معاشروں سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے بھی اس مقدس عمل کو کرنا پڑتا ہے۔
گو کہ ہر عام مسلمان لفظ ”جنگ” سے خود کو کوسوں دور رکھنا چاہتا ہے اور کسی جنگ میں شمولیت تو دور کی بات وہ اس کا تذکرہ سننا بھی پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”جنگ” ہر دور میں انسانی معاشروں کا حصہ رہی ہے۔ اس کے مقاصد اور طریقہ کار چاہے ہر دور میں بدلتے رہے ہیں لیکن تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو کہ جب دنیا کا کوئی نہ کوئی خطہ اس لفظ ”جنگ” کے ”اول الذکر تصور” کی لپیٹ میںنہ ہو۔ تاہم انسانی تاریخ میں ایک دور ایسا ضرور گزرا ہے جس نے اس لفظ کو اک نئے مفہوم سے نوازا۔ یہ غزوات النبیۖ کادور تھا جن کا مقصد لوگوں کو اپنی طاقت سے خوفزدہ کرنا، ان کے مال و دولت پر قبضہ کرنا، انسانی بستیوں کو تہ تیغ کرنا یا عزت و آبرو کی حرمت کو پامال کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ ان غزوات کے ذریعے معاشروں کے امن کو بحال کیا جاتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب انسان صحیح معنوں میں ”انسانیت” کا سبق سیکھ رہاتھا۔ معاشرے ”اخلاقی اقدار” سے مزیّن جبکہ اقوام دینِ فطرت کو اپنا رہی تھیں۔
اسلام کے ”حکم جہاد” پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عمدہ عمل ہی تھا جس نے جنگوں کے متعلق انسانی تصور کو یک لخت تبدیل کردیا اور انسانی معاشروں کی بقا کے لیے تلوار اٹھانے کا عمل جاری ہوا۔آئیے! سیرت النبیۖ کے اس روشن پہلو پر نظر دوڑائیں اور ساتھ یہ جائزہ بھی لیں کہ جب ایسی فتوحات غیر مسلموں کو ملیں تو انہوں نے مفتوحین سے کیسا سلوک روا رکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، نبوت سے قبل بھی بے شمار روشن پہلوؤں کا مرقع تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم خو، بردبار، خوش اخلاق، ہر کسی کے کام آنے والے اور صادق وامین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً تیرہ سال تک اہل مکہ اور گردوبیش کے لوگوں کو اسلام جیسے پُر امن دین کی دعوت دی۔ پھر جب مکہ والوں نے ظلم و زیادتی کی ہر حد پار کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔مدینہ پہنچ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین فطرت کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا اہتمام کیا جو ہر قسم کے ظلم و جبر سے پاک اور لڑائی جھگڑوں سے دور ہو۔ سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر کا آغاز کیا تاکہ نماز باجماعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہوسکے۔دوسری طرف کفار مکہ کو مسلمانوں کا یہ اطمینان و سکون ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
وہ مسلسل تگ و دو میں تھے کہ پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو ایذا پہنچا سکیں۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی کو اس کی حیثیت کی بنا پر ایک خط لکھا جس میں مدینہ پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے، اسے نکال دیجئے یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر حملہ کر کے آپ کے تمام مردان جنگی کو قتل کردیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔” (ابو داؤد: باب خبر النضیر) یہ خط ملتے ہی عبداللہ بن ابی جو پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بھرا بیٹھا تھا، نے اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا اور واقعتا جنگ کے لیے تیاری شروع کردی۔ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوئی تو آپۖ موقعے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خود اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے۔ تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو، قریش اس سے زیادہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ کیا تم اپنے بھائیوں اور بیٹوں سے خود لڑنا چاہتے ہو؟” یہ سننا تھا کہ لوگ بکھر گئے یعنی رسول اللہۖ نے کمال حکمت سے باہم کشت وخون کا راستہ روک دیا۔ (ابوداؤد)
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر اسلام جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کو پسند کرنے والا دین ہوتا تو یہ معاملہ باہم افہام و تفہیم سے سلجھانے کی بجائے تلوار کے ذریعے حل کیا جاتا۔ مگر پیغمبر امنۖ نے قطعاً گوارا نہ کیا کہ اسلامی معاشرے میں کسی بھی طرح لڑائی جھگڑے کا موقع بنے۔ قریش نے جب یہ دیکھا کہ اس طرح دال نہیں گلی تو اولاً انہوں نے مسلمانوں کے مسجد حرام میں داخلے پر پابندی لگا دی اور دوم مہاجرین کو دھمکی آمیز خط بھیجا کہ ”تم مغرور نہ ہو کہ مکہ سے بچ کر نکل آئے ہو، ہم مدینہ میں پہنچ کر تمہارا خاتمہ کردیں گے۔” (رحمة للعالمینe: 116/1) ان دھمکیوں سے مدینہ کے باسی مزید محتاط ہوگئے اور ہمہ وقت ہتھیار بند رہنے لگے۔ خود رسول اللہۖ راتوں کو جاگا کرتے اور ان کے لیے صحابہ کرامy پہرہ دیا کرتے تھے۔ ان حالات میں ناگزیر تھا کہ مسلمان بھی کوئی نہ کوئی جوابی کارروائی کرتے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی۔فرمایا: أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْر۔ (الحج:39)
”جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔”
مندرجہ بالا آیت سے بھی اسلام کے فطری مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ اس آیت سے چند باتیں با آسانی سمجھ آتی ہیں۔ 1۔ پہلی بات تو یہ پتہ چلتی ہے کہ جنگ کی ابتدا مسلمان نہیں کر رہے بلکہ اس کی ابتدا کافروں نے کی ہے اور بڑے ہی لمبے عرصے پر مشتمل صبر کے بعد مسلمانوں کو یہ اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ 2۔مسلمان مظلوم ہیں (ظالم نہیں)کیونکہ وہ اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔ 3۔اللہ کا یہ اصول ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کرتا ہے تاکہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہوسکے۔
4۔ اسی طرح پھر اگلی آیت میں فرمایا:الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ ِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَع وَصَلَوَات وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ ِنَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزِیْز۔ (الحج:40)
”وہ جنھیں ان کے گھروں سے کسی حق کے بغیر نکالا گیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کے بعض کو بعض کے ذریعے نہ ہٹاتا تو ضرور ڈھا دیے جاتے (راہبوں کے) جھونپڑے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوںکے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ یقینا بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔”
اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1۔ مسلمانوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک اللہ کو اپنا رب مانتے تھے۔ یعنی معاشرتی طور پر ان سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا اور نہ وہ کسی ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ جس کی پاداش میں ان پر حملہ آور ہوا جاتا۔ 2۔اللہ تعالیٰ اس عمل جہاد کے ذریعے ظالم لوگوں کو مظلوم لوگوں سے دور ہٹاتا رہتا ہے تاکہ عبادت گاہیں قائم رہ سکیں اور اللہ کا ذکر ہوتا رہے۔ 3۔ مسلمانوں کا جہاد کے لیے اٹھنا صرف مسجدوں کی حفاظت کا سبب نہیں بنے گا بلکہ اس کے ذریعے اسلامی معاشرے میں بستے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی امن و سلامتی سے اپنی عبادت کرسکیں گے اور ان کے عبادت خانے بھی محفوظ رہیں گے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلامی خلافت و حکومت میں دیگر اقلیتیں، اپنی حکومتوں کی نسبت زیادہ محفوظ رہیں، چاہے آپ یورپ کی تاریخ کا جائزہ لے لیں یا برصغیر کی۔
جہاد کی اجازت کے بعد اللہ نے ایک اور آیت میں اس حکم کی وضاحت فرمائی:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ ِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ(البقرہ:190)
”اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان سے لڑو، مگر زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔”
اس آیت مبارکہ میں بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پہل مسلمانوں نے نہیں کی بلکہ کفار نے کی تھی اور اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو بھی ان سے لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی مگر ساتھ یہ تنبیہہ بھی کردی کہ اسلام کے دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی زیادتی نہ کرنا۔ یعنی یہ نہ ہو کہ کل کو تمہاری قوت زیادہ ہو یا تمہیں اللہ کافروں پر غلبہ عطا کردے تو تم اعتدال اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو اور ان پر بے جا زیادتیاں کرنے لگو۔
مندرجہ بالا تمام آیات اسلام کے اس عظیم عمل میں مسلمانوں کو اعتدال کی راہ اپنانے اور زیادتی سے بچنے کی تلقین کر رہی ہیں تاکہ کوئی بھی مستشرق جہاد جیسے بلند مرتبہ عمل کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ نہ کرسکے۔
بہرحال ان آیات کے نزول اور جہاد کی اجازت ملنے کے بعد رسول اللہۖ نے اس کی حکمت عملی تیار کی اور چونکہ اس وقت مد مقابل کفار مکہ یعنی قریش تھے تو اولاًان کی تجارتی راہ داری غیر محفوظ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دوئم ا اردگرد کے تمام قبائل سے معاہدے کیے جانے لگے تاکہ کسی بھی متوقع لڑائی میں قبائل کفار کا ساتھ نہ دیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف دستے تشکیل دیے گئے جو مدینہ کے گرد ونواح میں گشت کیا کرتے تھے۔ یوں غزوات اور سرایہ کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ ان سرایا اور غزوات کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سیرت کی شہرہ آفاق کتاب ”رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” کے مؤلف ”قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوریa” کے مطابق ان کی کل تعداد 82ہے جن میں سے 19غزوات ہیں۔ان تمام مہمات کے حوالے سے نبی کریمۖ اور صحابہ کرامy چند بنیادی باتوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔
1۔ جب تک لڑنا ناگزیر نہ ہوتا، تب تک لڑائی سے ہر طور بچنے کی کوشش کی جاتی۔ 2۔ چند استثنائی صورتوں کے علاوہ حملہ کرنے میں پہل نہ کی جاتی بلکہ دشمن کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی۔ 3۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جاتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرو۔
(مشکوٰة: کتاب الجھاد: باب القتال فی الجھاد)
4۔درختوں، کھیتوں اور عمارتوں کو تہ تیغ نہ کیا جاتا۔ اس حوالے سے بھی آپۖنے فرمایا: ”درخت نہ کاٹنا، نہ باغ کے نزدیک جانا اور عمارتوں کو نہ ڈھانا۔” 5۔ناحق خون نہ بہایا جاتا اور جو کوئی لڑائی نہ کرنا چاہتا یعنی ہتھیار ڈال دیتا، اسے امان دی جاتی۔ 6۔قیدیوں سے غیرانسانی سلوک روا نہ رکھا جاتا اور انہیں جلد فدیہ لے کر یا ویسے ہی چھوڑ دیاجاتا۔ 7۔لڑائی کا مقصد اللہ کے نام کو بلند کرنا اور فتنہ وفساد کا خاتمہ تھا نہ کہ دنیوی مال و متاع یا شہرت و ناموری کا حصول۔ 8۔صلح کو ہمیشہ لڑائی پر مقدم رکھا جاتا۔ 9۔کوشش ہوتی کہ کم سے کم انسانی جانوں کا ضیاع ہو اور دشمن پر رعب و دبدبہ قائم کر کے جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیاجاتا۔ 10۔چند مخصوص موقعوں کے علاوہ مفتوحین کا پیچھا نہ کیا جاتا بلکہ انہیں موقع دیاجاتا کہ وہ اسلام کی حقانیت کو سمجھ سکیں۔ ان بنیادی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامy نے ان فوجی مہمات میں حصہ لیا اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ جنگ صرف ”وحشت و درندگی” کا نام نہیں بلکہ اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر اس لفظ کا مفہوم بدلہ جاسکتا ہے۔
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوریa کی تحقیق کے مطابق ان 82 مہمات میں جو لوگ شہید، زخمی یا قتل ہوئے ان کی تعداد درج ذیل ہے:
نام فریق
قیدی
زخمی
مقتول
میزان
مسلمان
1
127
259
387
غیر مسلم
6564
–
759
7323
میزان
1018
7710
اس جدول میں صرف زخمیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ قیدیوں اور مقتولین کی تعداد ان شاء اللہ ٹھیک ہے۔ اگر صرف ایسے غزوات النبیe کی بات کی جائے جن میں طرفین کی اموات ہوئیں تو ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
نمبر شمار
نام غزوہ
شہدائے اسلام
مقتولین کفار
1
غزوۂ بدر
22
70
2
غزوۂ احد
70
30
3
غزوۂ احزاب
6
10
4
غزوۂ بنوقریظہ
4
400
5
غزوۂ خیبر
18
93
6
فتح مکہ
2
12
7
غزوۂ حنین
6
71
8
غزوۂ طائف
12
نامعلوم
140
686
یہ تحقیق قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوریa کی ہے۔ اس میں اختلاف موجود ہے لیکن وہ بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ شہدائے اسلام کی تعداد میں تو انیس بیس کا فرق ہے جبکہ مقتولین کفار کی تعداد میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ناقابل یقین حد تک ایک ایسی حقیقت ہے جو اہل مغرب کے جہاد مخالف تمام پروپیگنڈوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ہر دور کے مستشرقین نے اسلام کے اس اہم فریضے کو ”دہشت گردی” جیسے القابات سے نوازا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اتنے کم جانی نقصانات کے ساتھ اپنے پیغام کو انتہائی وسیع رقبے تک پھیلانے کی مثال نہ اس سے قبل ملی نہ بعد میں۔ آپe کا موازنہ دیگر نامور فاتحین کے ساتھ کیا جائے تو پھر بھی اہل مغرب کے مہذب ہونے کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے تین فاتحین کے بارے میں چند حقائق پیش خدمت ہیں۔
سکندر اعظم(323-356ق م) دنیا کا یہ فاتح یونان کی ایک ریاست مقدونیہ کے بادشاہ فلپ کا بیٹا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد 323ق م میں تخت پر آبیٹھا اور آس پاس کے چھوٹے ملکوں پہ حملے کرنا شروع کیے۔356ق م میں اس کی موت نے اسے اچک لیا۔ اس کی موت کے بعد صرف چند سالوں میں ہی اس سارے خطے سے یونانیوں کا نام و نشان مٹ گیا۔
چنگیز خان(1769ء تا1821ئ) اس کا اصل نام تیموجن تھا۔ چنگیز لقب تھا جس کے معنی ہیں کامل سپاہی۔ دریائے اولون کے کنارے ایک خیمے میں پیدا ہوا۔ تیرہ برس کا تھا کہ جب باپ ایک لڑائی میں مارا گیا اور اسے قبیلے کا سردار بنادیاگیا۔ سردار بنتے ہی اس نے اپنی ذہانت اور فوجی چالوں سے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ کچھ ہی مدت بعد اپنے باپ کا بدلہ لیا اور تمام منگول قبائل پر ذاتی تسلط قائم کر کے اردگرد لشکر کشی شروع کردی۔ اس کی فوج انتہائی بے رحم اور سفاک تھی۔ 1237ء میں جب اسے موت آئی تو اس کی سلطنت ایک طرف دریائے دالگا سے بحرالکاہل تک اور دوسری طرف سائی بیریا سے خلیج فارس تک پھیل چکی تھی مگر اس کی موت کے بعد سب کچھ ختم ہوتاگیا۔
نپولین بونا پارٹ(1769ء تا1821ئ) یہ فرانسیسی جرنیل اور بادشاہ تھا۔ انقلاب فرانس کے دوران سب سے پہلے کامیابی تولان کے محاصرے میں توپ خانے کی مدد سے لی۔ اس نے اٹلی میں جمہوری فوج کے کماندان کی حیثیت سے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ 1797ء میں پیرس آگیا اور حکومت کا تختہ الٹ کر خود قونصل اول بن گیا۔ 18مئی1804ء کو اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کیا۔ 1805ء میں آسٹریا اور 1806ء میں جرمنی کو شکست دی۔ پھر 1812ء میں روس پر حملہ کیا مگر شکست کھا کر ایسا پلٹا کے ساری فوج بکھر گئی اور 1813ئمیں یروشیا اور آسٹریا نے روس کے ساتھ مل کر اسے شکست دی۔
مندرجہ بالا تینوں فاتحین کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ان میں سے نہ کوئی یتیم تھا اور نہ ہی جنگ و جدل سے کوسوں دور، سب ابتدائے لڑکپن اور جوانی میں یا توسردار بن گئے یا جرنیل۔ پھر یہ سب بے شمار جنگی وسائل، وسیع فوج اور لا محدود اختیارات کے حامل تھے۔ انہوں نے مفتوحہ علاقوں کی عوام کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کیا کہ جس کی مثالیں سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان سب فتوحات کے باوجود ان کی زندگی میں یا مرنے کے فوراً بعد ان کی اطاعت گزاری ماضی کا حصہ بن گئی اور بہت جلد تمام مفتوحہ علاقے ان کے نائب سرداروں کی گرفت سے نکل گئے۔ جبکہ محمد رسول اللہۖ اور آپۖ کے اطاعت گزارساتھیوں نے علاقوں کی بجائے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا اور علاقے خود بخوداہل اسلام کے زیر نگیں ہوتے چلے گئے۔ اس فرق کی سب سے بنیادی وجہ لڑائی کے مقاصد کا فرق تھا۔ اس وقت سے آج تک کفار و مشرکین دوسروں کو اپنا غلام بنانے اور ان کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے جنگیں کرتے آئے ہیں مگر اسلام نے تو جنگوں کے مقاصد ہی تبدیل کر کے رکھ دیے یعنی اللہ کے نظام کا دنیا میں نفاذ اور باطل نظاموں کا خاتمہ۔
ایک دور تھاکہ جب صلیب کے پجاریوں نے بھی ”مذہبی جنگوں” کا آغاز کیا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ صلیبی جنگیں ”مذہب” کے نام پر ایک دھبہ تھیں۔
1096ء کے موسم گرما میں صلیبی فوجوں نے ارض مقدس کا رخ کیا اور 1098ء تک بیت المقدس فتح کرلیا۔ فتح کے بعد کشت و خون کا ایسا بازار گرم ہوا کہ عورتوں، بچوں بوڑھوں سمیت کسی کونہ بخشا گیا حتیٰ کہ ایک مسلمان بھی زندہ نہ چھوڑا گیا۔ (صلیبی جنگوں کی کہانی صفحہ:273) یہ وہی بیت المقدس تھا کہ جب مسلمانوں نے اسے فتح کیا تو عیسائیوں کا ایک قطرہ خون بھی نہ بہا بلکہ سیدنا عمر فاروقt نے تو کلیسا میں نماز بھی نہ ادا کی کہ کہیں کلیسا کو مسجد بنانے کی ریت نہ پڑ جائے۔
ان صلیبی جنگوں میں عہد شکنی کی ایسی ایسی مثالیں رقم ہوئیں کہ جو عیسائیت کے ٹھیکیداروں کی ”انسان دوستی” کا پول کھولتی ہیں۔ پہلی صلیبی جنگ میں طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کائونٹ بوہیمانڈ کو معاہدۂ امن کا پیغام بھیجا مگر اس نے عیسائی ہونے کی شرط کے ساتھ معاہدہ قبول کرنے کی بات کی۔ پھر کائونٹ امان دینے کے باوجود پورے شہر کے مرد و زن کو موت کے گھاٹ اتارتا رہا۔ شہر کا کوئی کونہ بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ رہا اور جن کو امان دی گئی تھی ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر کے انہیں مروا دیا گیا یا غلام بنا کر انطاکیہ بھیج دیا۔ (پہلی صلیبی جنگ صفحہ:79)
یہ معاملہ تو پھر مسلمانوں کے ساتھ تھا، یورپ کی مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس کو ہلاک کیا ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جان ڈیوڈپورٹ نے اپنی کتاب ”اپالوجی آف محمدمسلم اینڈ قرآن” میں (عیسائی) مذہبی عدالتوں کے احکامات سے ہلاک شدگان کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ بتائی ہے اور یہ سب قاتل و مقتول عیسائی تھے۔ صرف سلطنت سپین میں تین لاکھ چالیس ہزار عیسائیوں کو قتل کیاگیا تھا۔ یہ صرف عیسائیوں کا معاملہ نہیں ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے ہندو بھی اس لحاظ سے کسی سے کم نہیں رہے۔ ”جنگ مہا بھارت ”میں ہندوؤں کے دو بڑے خاندان ”کورو اور پانڈو” شریک تھے اور اس جنگ میں بھی مقتولین کی تعداد کروڑوں تک جاپہنچتی ہے۔
(تاریخ پاک و ہند از ایم شمس الدین صفحہ:7) جنگ عظیم اول اور دوم (ان جنگوں کو عظیم کہنا بھی درست نہیں کیونکہ ان کا عظمت سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں البتہ یہاں عظیم بمعنی بہت بڑی کے استعمال کیا جاسکتا ہے)تو ابھی پچھلی صدی کی بات ہے۔ پہلی بڑی جنگ 6ممالک کے درمیان شروع ہوئی تھی جو بڑھتے بڑھتے 14ممالک تک پھیل گئی۔ یہ جنگ متواتر 4سال چلتی رہی جس میں 8528315افراد ہلاک اور 8543919افراد قیدی و گمشدہ ہوئے۔ دوسری بڑی جنگ متواتر 6سال چلی جس میں 28ممالک نے حصہ لیا اور مرنے والے 14942962لوگ تھے جبکہ گمشدہ و قیدی کی صحیح تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ پھر یہ جنگیں تو شاید ماضی کا حصہ لگیں۔ ”مہذب” دنیا کے موجودہ ”جگے” یعنی امریکہ کی جانب سے برپا کی گئی حالیہ جنگوں کی مثال ہی لے لیں۔ عراق میں نیوکلئیر ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر حملہ کیا گیا اور 7لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ امریکہ نے ہر قسم کا جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا اور وہاں سے دفع ہوجانے کی باوجود اس کی نحوست ابھی بھی اندرونی خانہ جنگی کی صورت میں عراق میں موجود ہے۔ کچھ یہی صورتحال افغانیوں پر ظلم و ستم کی جس میں 10لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور امریکہ ابھی بھی وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کے درپے ہے تاکہ مسلمانوں کے مابین اندرونی انتشار کو ہوا دی جاسکے۔
کفار و مشرکین اور اہل یہود کی اس متشدد تاریخ کے باوجود ستم یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امن عالم کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹے پروپیگنڈے کو مان کر مسلم دنیا بھی اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو ”دہشت گرد” قرار دیتی ہے۔ ”اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا” کے فلسفے کو اس حد تک منفی انداز میں پھیلایاگیا کہ ہر مسلمان شرمندہ شرمندہ ساوضاحتیں دیتا پھرتا ہے۔ حالانکہ غزوات النبیۖ کے مقتولین کی تعداد سے ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے تلوار کے ذریعے صرف معاشروں کا گند صاف کیا اور ہر شخص کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دوبدو لڑائی کے بنا ہی سوچ و بچار کے ذریعے حق و باطل کی تمیز کر سکے۔ تاریخ اسلام میں ”جبراً مسلمان” ہونے والے کسی ایک شخص کا تذکرہ بھی ثابت نہیں ہوسکتا لیکن جبراً عیسائی، ہندو یا بدھ بنانے کی تاریخ اس قدر طویل ہے کہ جس پر انتہائی ضخیم کتابیں لکھیں جاچکی ہیں۔ درج بالا تمام حقائق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام تمام مذاہب سے زیادہ ”امن و سلامتی” کا دین ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ عملی طور پر ”رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” ہے اور رہتی دنیا تک آپۖ کی سیرت مطہرہ کی روشن کرنیں دنیا کے تمام اندھیر معاشروں کو پرنور کرنے کا سبب بنتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ
تحریر: محمد عثمان طفیل