تحریر: عقیل احمدخان لودھی
تاریخ انسانیت میں مختلف قبیلوں اور معاشروں کے لوگ جداگانہ طرز زندگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے معمولی معمولی باتوں پر دست وگریباں ہوتے رہے ہیں۔ کبھی گھوڑا آگے دوڑانے کی بات پر قتل وغارت تو کبھی حسب نسب کی برتری پر ایسے طوفان بپا کئے جاتے کہ ایک دوسرے کی نسلوں کے نشان تک مٹادیئے جاتے۔ انسانیت کے وجود کو برقرار رکھنے والے آداب زندگی، تصوراتِ تہذیب اور آدابِ معاشرت اس بری طرح مسخ ہوچکے تھے کہ وحشت بربریت اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ کفر و الحاد اور ظلم و جہالت کی تاریکی نے عالم انسانیت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ خطہ عرب کی حالت تو پستی کی گہرائیوں میں دفن ہوتی جارہی تھی۔ جاہلیت پر گھمنڈ کیا جاتا نفس پرستی اور ہوس کو بلندیوں کی سطح پر پہنچا دیا گیا تھا ہر غلط کام پر فخر محسوس کیا جاتا۔
غلاموں، عورتوں اور پسے ہوئے طبقوں کو انتہائی تحقیر آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جاتابے حیائی عام ہوچکی تھی سود در سود کے چکر میں خاندانوں کے خاندان غلام در غلام بنا لئے جاتے۔شراب نوشی ، زناء جیسے قبیح افعال میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ کی جاتی۔اچھائی اور برائی میں تمیز ختم کردی گئی۔صرف عرب ہی نہیں پوری دنیا ظلم و جبر کا منظر پیش کر رہی تھی۔غربا، مساکین، یتماء کا حق کھانے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہ کی جاتی۔ انسانی حقوق کا ہر تصورحکمرانوں کی انا کی گرد میں گم ہو چکا تھابعثت نبویۖ سے قبل ایران اور روم خود کو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد متصور کرکے دنیا کے محکوم طبقات پر اپنی حاکمیت چلارہے تھے پسے ہوئے طبقوں کو جانوروں سے بدترین زندگیاں گزارنے ہر مجبور کردیا گیا تھا
جبر کے اس دور میں پسے ہوئے محکوم طبقات پراپنے احکامات مسلط کئے جاتے اورانسانیت کی بے توقیری کرتے ہوئے محنت کرنے والے اصل حقداروں کو ان کا حق دینے کی بجائے دوسر وں کی محنت پر عیاشیاں کی جاتیں اور محکوم طبقات اور ریاستوں کو مزید دبایا جارہا تھا۔ ایرانی،رومی حکمران طبقات شاہانہ زندگی گزار رہے تھے، خوشامدیوں کے ٹولے ان حکمرانوں سے استفادہ حاصل کرتے ہنر مند افراد بھی حکمرانوں کی دہلیز پر کھنچے چلے آ رہے تھے۔ یہ اہلِ کمال بھی اپنا کمال ان حکمرانوں کی پر آسائش زندگیوں کو مزید پر آسائش بنانے کے لئے استعمال کرتے۔ شاہی خزانے سے انعام پاتے اور حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے عشرت کدے سجاتے، عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا۔اہل کتاب بھی اصل تعلیمات سے کوسوں دور تحریف شدہ مذاہب اور من مرضیوں کی زندگیاں گزاررہے تھے۔ اخلاق و کردار کا کہیں نشان تک باقی نہیں تھا۔
انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا تھا۔ہر طرف جہالت وگمراہی کی حکمرانی تھی ایسے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی کامل رہنمائی کیلئے انسانوں میں ہی سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب آخری نبی حضرت محمد مصطفیۖ (آپ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام) کو بھیجا آپ کا تعلق قریش کے معزز قبیلہ بنو ہاشم سے تھا۔روایات کے مطابق آپ ۖ کا یوم پیدائش 12 ربیع الاول بمطابق 22 اپریل 571 ء ہے۔ آپ کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتش کدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں مگر12 ربیع الاول پر ہی زیادہ اتفاق ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔۔آپۖ عرب معاشرہ میں چالیس سال تک رہ کر ان کے روایتی طور طریقوں ہر طرح کی برائیوں سے دور رہ کر اپنی حیات پاک کی ایک مثال بن چکے تھے ۔ کفار اپنے عزیز واقارب اور والدین سے زیادہ آپ پر اعتبار اور اعتماد کرتے تھے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لئے مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔
یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے اور اقراء سے آپ ۖ کی نبوت کا آغاز ہوا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور سرپینچوںنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لئے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ہی کعبہ کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال تک شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ ‘اللہ’ کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب کفار کے مظالم اور مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔نبوت کے تیرہویں سال آپ ۖ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے ، جاتے ہوئے لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کیلئے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا گئے۔مدینہ میں آپ کا شاندار استقبال کیا گیا۔
مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن کر مواخات مدینہ کی عظیم مثال قائم ہوئی۔ نبی پاک ۖ کو نبوت کے اعلان کے بعد سے ناقابل بیان حد تک تکالیف کا سامنا رہا مگکفار آپ صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کو(نعوذ با ﷲ)قتل کرنے کے ارادے سے آئے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ کفار نے آپ صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کا پیچھا کیا۔ غار ثور میں اللہ نے آپ صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی اور کفار غار کے دامن تک جاکر ناکام لوٹ آئے۔ آپۖ نے اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر اپنا مشن جاری رکھا۔کفار سے جنگیں ہوئیں غزوات ہوئے مسلمانوں کو اﷲ کی مدد سے فتح ہوئی کئی کفار کو قیدی بنا لیا گیا مگر آپ ۖ نے ہرمیدان میں ایک شاندار مثال قائم کی آپۖ نے اﷲ کی رضا کی خاطر دشمنوں کو معاف کردیا۔
آپ ۖ کے بہترین طرز عمل سے انسان تو انسان جانوروں،چرند پرند اور ہر طرح کی دیگر مخلوق نے بھی راحت محسوس کی۔ آپ کی آمد سے دنیا کاوتیرہ بدل گیا ہر طرف رحم اور رحمت ابھر ابھر کر سامنے آئے ،محکوم اور پسے ہوئے طبقات کو برابری کا حق دیا گیابچوں، خواتین،بزرگوں ،غلاموںکے احترام کا وہ نظام وضح کیا جس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے جوق در جوق لوگ اسلام کے دائرہ اثر میں داخل ہوئے اور اسلامی تعلیمات ، آپۖ کے اسوہ حسنہ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی ہزاروں خاندان بغیر کسی دبائو کے دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ آپ ۖ کے صحابہ کرام جاں نثار ساتھیوںنے دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیااور تاریخ شاہد ہے کہ بہت ہی کم عرصہ میں اﷲ کا دین دنیا کے دوردراز کے کونوں میں پھیل گیا اور مسلمانوں نے دنیا کے بڑے علاقوں پر اﷲ کے نظام کو نافذ کیا آج ہم آپ ٔ سے محبت اور عقیدت کے اظہار کیلئے ایک مخصوص دن جشن عید میلاد النبی ۖ تو مناتے ہیں
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری غفلت ، لاپرواہیوں اور دین سے دوری کی وجہ سے ہمارا معاشرہ دور عرب جیسی جہالتوںمیں غرق ہوتا جارہا ہے آج پھر غریبوں ،مساکین اور یتیموں کے حق غصب کئے جارہے ہیں معمولی باتوں پر تنازعات بنا لئے جاتے ہیں صبر اور شکر ہم میں باقی نہیں۔۔ افسوس کہ آج بھی دو ر جہالت کی طرح حاکم اور محکوم کے طبقاتی نظریہ کو پروان چڑھایا جارہا ہے حکومتی سطح سے ہی عوام کا استحصال شروع ہوتا ہے سودی نظام پر اﷲ کی طرف سے واضح لعنت کے باوجود اسے پروان چڑھایا جارہا ہے حکمران سودی پروگراموں کی بھرپور تشہیر اور اپنی بڑی کامیابی تصور کرتے ہیںزناء اور شراب جیسے قبیح افعال میں ندامت محسوس نہیں کی جاتی۔ ایک طبقہ کامقصد عوام پر حکومت کرنا تو دوسرے کا نسل در نسل حکمران طبقے کی خدمت بجا لا نے میں کوشاں ہے۔حالانکہ یہ دن ہمیںخوشی کے اظہار کیساتھ آپ ۖ کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کے حقیقی عہد کے طور پر منانا چاہیئے کہ اتباع سنت کی پیروی میں ہی نجات کامل کا راز مضمر ہے ۔ رسول صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک ایک پہلو مسلمانوں کے لئے راہ نجات ہے۔
آپ صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ زندگی میں ہی مسلمانوں اور ساری دنیا کے انسانوں کی کامیابی ہے ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے دور رہ کر اپنا طرز زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہوگا حقیقی جشن اسی روز ہو گا جب ہمارے اعمال اور نیتیں دین اسلام کی تعلیمات سے مطابقت پا جائیں گی۔ آپ ٔ پر کروڑوں بار درود وسلام۔
تحریر: عقیل احمدخان لودھی