تحریر: لقمان اسد
اہم ایسے گناہ گار وسیاہ کار کیا رسالمتآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرسکتے ہیں ؟ہم کیا مدح سراء ہیں اور کیا ہماری مدح سرائی؟حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کی وہ مقدس ترین اور بلند مرتبت ہستی کہ جنہیں ہماری مدح سرائی کی نہ طلب،نہ آرزو اور نہ ضرورت یہ ہم گناہ گاروں کی ضرورت، اُمنگ، آرزوں، امید، خواہش کہ عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہوکر ہم بدکار و روسیاہ بھی ربّ تعالی کی رحمت کو بخش کے حقدار ٹھہریں۔یہ تو ایک تصور ہے یا ایک رُخ ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق محبت کا جب کہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عشق محمد کے ماسوا اس پوری کائنات میں کرہِ ارض پر کچھ بھی نہیں دھرا۔کائنات کا ہرحسن وہاں سے آغاز کرتا دکھائی دیتا ہے جہاں سے ہم سید الانبیاء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے محبت کا آغاز کرتے ہیں۔آقائے دوجہاںسرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس سے جسے عشق نہیں اس نے کیا کھویا کیا پایا؟نا وہ کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہوسکا،نہ اس کی زندگی میں کوئی رونق آسکی،نہ اس کے حصے میں کوئی رُشد وہدایت ٹھہریں،نہ روشنی کی ہلکی سی کرن وہ کہیں دیکھ پایا۔
اس کے نصیب میں تو محض گھاٹا ہی گھاٹا لکھاگیا،تاریکی ہی تاریکی لکھی گئی، جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیض یاب نہ ہوپایا اس کی تو قسمت کے گویا در ہی مارے گئے کہ رب تعالی کی رحمتوں کے دروازے اس کیلئے کبھی بھی وا نہ ہوپائیں گے۔جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار نہیں نہ اس کا دل زندہ، نہ دماغ روشن اور منور اور نہ ہی اس کا کوئی کردار۔حضرت آمنہ کے دُریتیم، جناب عبداللہ کے لاڈلے، جناب حسن وحسین کے نانا سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف فرما نہ ہوئے تھے تب اس دنیا میں ہر طرف ظلم ہی ظلم تھا، فساد ہی فساد تھا، جاہلیت ہی جاہلیت تھی،کہرام ہی کہرام چار سوبپاتھا،انسانیت پابندِ جاہلیت تھی، کمزور کیلئے انصاف ناپید تھا ،فرعونیت کے بدترین ہتھکنڈوں کے آگے ایک عام انسان کا وجود عدم وجود کے برابر تھا،کرہ ارض پر ظالم سے احتساب کا کوئی قانونی تک نہ تھااور حوا کی بیٹی کو زندہ درگو کردیا جاتا تھا لیکن جب اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے مایہ ناز محسن سارے جہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف فرماہوتے ہیں تو کہیں ایران کے آتش کدے بجھ کر ہمیشہ کیلئے ویران ہوجاتے ہیں،کہیں قیصر وکسریٰ کے محل لرزہ براندام ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں خطہ عرب کے ان اناپرست سرداروں کا غرور خاک ہوا اور ان کی صفوں میں صف ماتم بچھتی ہے کہ جن کے دبدبے،جن کی بادشاہت کا سنہری اصول ان سرداروں کی نذر میں صرف اور صرف انسانیت پر ظلم تھا اور جن کی حاکمیت کی پہلا نقطہ،ضابطہ اور پہلا نظریہ ہی ناانصافی اور یکسر ناانصافی پر مبنی تھا۔ سیدہ آمنہ کیلئے لالۖ آئے تو رب کی رحمتوں کے نزول کا لامتناہی اور ناتمام سلسلہ شروع ہوا،سیدہ آمنہ کے دُریتیم آئے تو سیاہی کو روشنی کے سورج سے منور ہونا نصیب ہوا۔
ظالموں کے دن گنے گئے۔خطہِ عرب کے وہ بڑے بڑے وڈیرے،بڑے چوہدری،وہ بڑے بڑے نواب جو اپنے آپ کو ہر قانون کی گرفت سے مبرا اور آزاد تصور کرتے ہیں،یہ خیال کرتے کہ کوئی دن ایسا نہ آئیگا جب اُن کی بادشاہت کو یا اُن کی حکومت کی رِٹ کو کوئی چیلنج کرسکے گا مگر پھر چشم فلک نے دیکھا، قرآن مقدس کے مقدس صفحات شاہد ہیں اور تاریخ بھی کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں صرف چیلنج ہی نہ کیا بلکہ اُن کے کفریہ نظام کو ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔انسانیت کو ایک نیاڈھنگ عطا کیا۔مظلوم کی حفاظت کا انتظام کیا ایسا قانون عمل میں لائے کہ رہتی دنیا تک ظالم اُس قانون کے آگے پرمارنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔بے سہاروں،غریبوں،مظلوموں،لاچاروں اور بے کسوں کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں تشریف لائے تو سر پر باپ کا سایہِ شفقت نہ تھا کہ آپ کے والد ماجد جناب حضرت عبداللہ اپنے عظیم فرزندۖ کی پیدائش سے قبل ہی خالق حقیقی سے جاملے تھے۔اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے شکم میں تھے تو کئی عجیب منظر میں نے دیکھے کبھی میں پانی بھرنے کی غرض سے جب کسی کنوئیں پر آٹھہرتی تواس کنوئیں کا پانی خود بخود اونچا ہوجاتا تو میں باآسانی پانی بھرلیتی۔دھوپ میں کھبی کسی طرف سفر کو جاتی تو بادل کے ٹکڑے میرے سر پر سایہ کیے رکھتے۔راستوں کے کنارے کھڑے اشجار میری قدم بوسی کیلئے جھک جاتے۔سیدہ آمنہ بیان کرتی ہیں کہ جب اس شان والے بچے کی پیدائش ہوئی تو میرے گھر سے روشنی ایسا نور بلند ہوا کہ جس نور کا دائرہ آسمان تک پھیلا ہوا تھا۔
جب جس زمانے میں پیغمبر آخرالزماںۖ کی ولادت باسعادت ہوئی تو خطہِ عرب میں ایک رسم روایت یہ تھی کہ مختلف عورتیں جو دائی ہوتی تھیں وہ پیدا ہونے والے بچوں کو اپنی گود لیاں کرتیں اور کچھ عرصہ تک بچے کی پرورش اُن کی ذمہ داری ٹھہرتی۔ہمارے پیارے رسولۖ جس دائی اماں کے حصہ میں آئے ان کا نام نامی سیدہ حلیمہ سعدیہ ہے۔ سیدہ سعدیہ حلیمہ بتلاتی ہیں کہ جب میں اُس دن اپنی اونٹنی پر مکہ کی طرف کی رواں تھی تو میری اونٹنی جو کمزور لاغر تھی وہ دوسری دائیوں کی اونٹنیوں سے پیچھے رہ گئی تھی جو مکہ کی طرف میرے آگے رواں تھیں۔میں پریشان ہورہی تھی کہ آج شاید میرے حصے میں کوئی بچہ نہ آئے لیکن قسمت کی بات تو دیکھیے سیدہ حلیمہ سعدیہ کو کیا خبر تھی کہ آج تو اُن کا نصیب ہی ایسا جاگا ہے کہ وہ خود حیران وششدر رہ جائینگی کہ آج جس مقدس ومحترم بچہ کی پرورش کا ذمہ وہ اٹھانے جارہی ہیں وہ تو کائنات کا ایسا نرالی شان والا بچہ ہے کہ اُن کے برابر کا نصیب رکھنے والا تو آج تک کرہ ارض پر کبھی پیدا ہی نہیں ہوا سیدہ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ جب میں سیدہ آمنہ کے لالۖ کو گود میں لیکر اونٹنی پر سوار ہوئی تو وہی کمزور و لاغر اونٹنی اس برق رفتاری سے چلی جارہی تھی کہ سب انٹنیوں کو اُس نے پیچھے چھوڑدیا سیدہ سعدیہ حلیمہ فرماتی ہیں کہ میں نے بچے کو دیکھتے ہیں یہ محسوس کرلیا کہ آج تو میری قسمت ہی جاگ گئی کہ میری آنکھوں نے ایسا حسین وجمیل بچہ آج تک نہ دیکھا تھا۔نبوت کے دعویٰ سے قبل ہی سید الکونینۖ کی شہرت انتہائی دیانتدار اور صادق وامین کے طور پر پورے عرب میں ہوچکی تھی۔پورے عرب کے لوگ آپۖ بے حد اعتماد کرتے۔ اپنی امانتیں آپۖ کے سپرد کرتے۔جو بات آپۖ ارشاد فرماتے اس پر کوئی بھی شبہ نہ کرتا۔حضرت محمدۖ جب نبوت کا اعلان فرمایا تو عرب سردار آپۖ کے خلاف ہوگئے اور عام لوگوں کو آپۖ کے خلاف بھڑکانے لگے۔ابو جہل جیسے سرداروں نے آپۖ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ واگزاشت نہ چھوڑا کبھی طائف کے پہاڑ پر آپۖ کے معصوم جسم پر پتھر برسائے گئے۔
کبھی شعیب ابی طالب کی گھاٹی میں آپۖ کو قید کی صعوبت میں رکھا گیا اور کبھی ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ حتی کہ آپۖ کیخلاف عرب سرداروں کے جھوٹے دین کو چیلنج کرنے کے جرم کی پاداش میں قتل کرنے کی سازشوں کا جال بھی بناگیا۔ مگر یہ اللہ قدرت ہے کہ ابو جہل نے جس شخصیت کو آپۖ کے قتل کی ذمہ داری سونپی وہ شخصیت جب قتل کرنے غرض سے تلوار ہاتھ میں لیے آپۖ کی محفل میں پہنچی تو کہا اے سچے پیغمبرۖ مجھے کلمہ پڑھائیے میں آپۖ کے دین پر ایمان لاتا ہوں۔اس شخصیت کا نام سیدنا عمر فاروق ہے۔سیدنا عمر فاروق کے ایمان لانے کی خبر جب پورے عرب میں پھیلی تو عرب کے اناپرست سرداروں کے پیروں کے نیچے سے زمین سرک کر رہ گئی اور وہ گویا اوندھے منہ جاگرے۔حقیقتاً وہ خوش نصیب لوگ تھے اور بڑے مقدر والے تھے جنہوں نے کائنات کی اس عظیم ترین اور بلند مرتبت ہستی سردار الانبیائۖ سے بالمُشافہ ڈائریکٹ تعلیم وتربیت حاصل کی اور باقاعدہ شاگردگی اختیار کیے رکھنے کا باسعادت موقع انہیں میّسر آیا۔شاگرد بھی ایسے باکمال کہ ہرمشکل میں پہاڑ کی طرح ڈٹ کر،سینہ تان کر کھڑے رہے۔نہ وہ میدان جنگ میں کبھی پیٹھ دکھاتے نظر آئے نہ انہیں کسی طاقت کا جبر حضرت محمد مصطفیۖ کا ساتھ دینے سے روک پایا۔کوئی ابوبکر تھا وہ نبیۖ کی صحبت میں آکر صدیق کہلایا۔
کوئی عمر ابن الخطاب تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آکر فاروق کہلایا، کوئی عثمان تھاوہ آپۖ کی صحبت میں آکر عثمان ذالنورین کہلایا،کوئی علی ابن طالب تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آکر ”فاتح خیبر” اور حیدر کرار کہلایا۔اللہ کی کتاب قرآن مقدس میں کئی حوالوں سے شانِ محمدمصطفیۖ بیان کی گئی ہے کہی اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ”کالی چادر والے محبوب” کہہ کر مخاطب کیا تو کہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کی قسم کھاکر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والہانہ محبت کا اظہار فرمایا۔ قرآن مقدس میں ایک جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ”ورَفعنالک ذِکرَک”اے محبوبۖ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کردیا۔آج جدید سائنسی دنیا کی ایک تحیق کے مطابق آذان کی صدا ہروقت پوری دنیا میں گونجتی رہتی ہے گویا صدیوں قبل بیان کی گئی سچائی پر آج کی جدید دنیا بھی اپنی تصدیق کی مہر ثبت کررہی ہے کہ واقعتاً اللہ تعالی نے سچ فرمایا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذکر بلند کردیا جب پوری دنیا میں اللہ کا نام آذان کی صورت میں بلند ہوکر گونجتا ہے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو ”اشھدانَّ محمد الّرسول اللہ”کی صدا بھی موذن ساتھ بلند کرتا ہے۔حضرت امی عائشہ سے کسی نے سوال کیا کہ بتلائیے آپۖ کا اخلاق کیساتھا تو سیدہ عائشہ نے فرمایا آپۖ خلق اور حسن اخلاق قرآن مقدس ہے۔
اللہ تعالی کے دین کی جو ذمہ داری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمے کمال جرأت،کمال سلیقہ اور انتہائی کمال بہادری سے اُس کو نبھایا۔جب مکہ فتح ہوا تو بہت سے صحابہ کرام بے حد جذباتی تھے انہوں نے کہااور سوچا کہ کل جنہوں نے ہمیں اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دی آج ہم بھی اُن سے چن چن کر بدلہ لیں گے مگر کرہ ارض کی سب سے بڑی صابر ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”آج انتقام یا بدلہ لینے کا دن نہیں بلکہ معاف کرنے کا دن ہے”ایک سچا مسلمان ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمارا دل عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہو اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے دن رات سعی کریں کیونکہ حضرت محمد مصطفیۖ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر ہی ہم سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلانے یا بن جانے کے حقدار ٹھہرسکتے ہیں اسی طرح جب ہم کلمہ طیبہ پڑھ کر دین اسلام پر مکمل ایمان لے آتے ہیں تو پھر یہ ہم پر فرض ہے کہ یہ ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ جیسے اللہ تعالی کی ذات اپنی وحدانیت میں یکسر الگ اور یک وتنہا ہے اسکی ذات کا کوئی شریک نہیں پھر یہ بھی ہمارا عقیدہ اور ہمارے ایمان کا معیار ہونا چاہیے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اورآپۖ کے بعد کسی بھی پیغمبر نے رہتی دنیا تک نہیں آنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے برابر پوری کائنات میں کسی کی شان نہ تھی،نہ ہے اور نہ ہوگی۔ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارا بھی ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ امام الانبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر انسانیت سے محبت رکھنے والا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہوگا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ محسن انسانیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ عبادت گزار،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ رحم دل، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ صبر کرنے والا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ معاملہ فہم۔
آپۖ سے بڑا کوئی قانون دان،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بہادر، نڈر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بڑا کوئی رہنما،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بڑا کوئی منصف اور انصاف پسند، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر عورتیں کے حقوق کو کوئی تحفظ دینے والا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی برائی کا قلع قمع کرنے والا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی ظلم کا ہاتھ روک کر انصاف کا بول بالا کرنے والا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی سچی بات بیان کرنے والا اور بتلانے والا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی جھوٹ کو رد کرنے والا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بڑا کوئی معلم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بڑا کوئی علم رکھنے والا اس پوری کائنات میں پہلے کبھی کوئی پیدا ہوا نہ بعد میں کبھی کوئی پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی کوئی عظیم ہستی اس دنیا میں پھر آسکتی ہے۔ایسے تو حضرت محمدۖ کے حصے میں بے بہا منفرد اعزازات آئے اللہ تعالی نے عطاکیے مگر دو ایسے اعزاز ہیں جنکی تو شان ہی نرالی ہے ایک قرآن مقدس کا آپۖ کی ذات اقدس پر نازل کیا جانااور دوسرا آپۖ کی نبوت کے بعد نبوت کے سلسلے کا اختتام۔مگر سچ ہے ہم ایسے گناہ گاروسیہ کار کیا رسالمتآبۖ کی مدح سرائی کرسکتے ہیں؟ہم کیا مدح سراء ہیں اور کیا ہماری مداح سرائی؟برصغیرکی عظیم روحانی شخصیت پیر طریقت سید حضرت پیر مہر علی شاہ نے فرمایاتھا۔
کتھے مہر علی کھتے تیری ثنائ
گستاخ اکھیاں کتھے جالڑیاں
تحریر: لقمان اسد