تحریر: انجینئر افتخار چودھری
کہاں سے شروع کروں ابھی ننھے دانش اور سکندر کے ساتھ درود شریف کا ورد کرتے گھر میں داخل ہوا ہوں دونوں میری بہن کے پوتے ہیں۔رات میری بہو نے ایک خوبصورت نعت ٹیگ کی جس میں ایک غریبی کی مار کھایا ہوا ایک بچہ نعت شریف پڑھ رہا تھا۔آقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رئے گئیاں آواز میں ایک درد تھا لوچ تھا کسی نے خوب کہا تھا اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔جدہ میں ایک نوجوان شاعر نعت خواں کمپیئر نور محمد جرال ہوا کرتے تھے کئی بار ہوا انہیں گاڑی میں بٹھا لیا اور ان سے نعتیں سنتا رہا۔
میرے آقا کی آج سالگرہ ہے آج کے دن اللہ نے اپنے محبوب کو اس دنیا میں بھیجا اور آج کے دن رونقیں اور خوشیاں ہماری زندگی کو معطر کرتی ہیں۔مدینے کے اندر اکھیاں رہ جانا ایک اعزاز سے کم نہیں اور اگر سچ پوچھیں تو میں بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کی آنکھیں اور دل مدینے میں رہ گئے ہیں۔مدینہ منورہ کی پہلی حاظری ١٩٧٧ میں ہوئی میں بائیس سال کا تھا اللہ مجھے وہاں لے گیا ہم حج کرنے کے بعد ہینو ٹرک کی باڈی میں دبکے ہوئے وہاں پہنچے اس وقت سعودی عرب بن رہا تھا پانی کی عدم موجودگی تھی لیکن اس باب مجیدی کے پاس ایک کمرہ پنجاب ہوٹل کے پاس مل گیا ہم نے ایک رات وہاں قیام کیا آقا کے روضے کو دیکھتے رہے سلام پیش کیا اور تشنگی لئے جدہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
ہمارے ساتھ ہمارا ننھیالی رشتے دار گوہر رحمن بھی تھا واپسی پر چیک پوسٹ سے نکلے تو اس نے کہا کہ مدینے کی حدود ختم ہو جائے تو بتانا۔ڈرائیور فقیر محمد سے درخواست کی اور ہم نے دیکھا گوہر رحمن بھاگ کر سڑک سے دور جھاڑیوں میں چلا گیا واپسی پر اس نے کہا شکر ہے مالک کے میں اس کے محبوب کے گھر گیا اور واپس بھی ہو لیا میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے لورہ چوک کے رہائیشی گوہر نے کہا با بو میں نے قسم کھا رکھی تھی کہ مدینے میں رفع حاجت نہیں کروں گا اس میں کامیاب رہا ہوں ہم سب ہی ننگے پائوں شہر میں گھومتے رہے درود پڑھتے رہے بہشتی گلی ہوا کرتی تھی جنت البقیع میں چل کر آنا ہوتا تھا اور باب مجیدی میں پاکستانی ہوٹلوں کے دائیں بائیں پھرتے رہے جنگ احد کا میدان دیکھا سبع مساجد گئے جہاں جنگ خندق پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کے خیمے لگے تھے اور وہ مسجد بھی دیکھی جس میں نماز کے دوران وحی نازل ہوئی کے القدس سے مکے کی جانب منہ کر لو۔یہ میرا پہلا سفر مدینہ تھا۔
اللہ نے ١٩٨٤ میں الحسینی کمپنی میں بطور مینیجر کام کرنے کا موقع دیا حضرت عثمان کے کنویں کے پاس شارع سلطانہ پر جنرل موٹرز کی گاڑیوں کا شو روم تھا اس کے سروس سنٹر میں بطور سروس مینیجر میری نوکری تھی موجودہ پٹرولیم اور گیس منسٹر شاہد خاقان عباسی کے والد اس میں پارٹنر تھے اور بریگیڈئر تاج اللہ انہیں صحت بخشے ہمارے جنرل مینیجر تھے۔میں اسی مدینے کی سڑکوں پر گاڑیاں ٹیسٹ کرتا رہا مدینے کے لوگوں کی خدمت ایک جذبے اور مشن کے ساتھ۔ایک بڑا ہی عجیب واقعہ وہاں پیش آیا مجھے ایک بار ایک پاکستانی ڈرایئور نے بتایا کہ یہ جو مالک میرے ساتھ آیا ہے صاحب یہ بڑے کام کا بندہ ہے اس نے مجھے بتایا کہ گنبد خضرہ کا رنگ کرنے کا ٹھیکہ اس کے پاس ہے۔آپ اس سے بات کرو تو بات بن سکتی ہے۔میں نے حضرت سے گزارش کی اور انہوں نے کہا کوئی بات نہیں کل عصر کے بعد آ جانا آپ بھی ان مزدوروں کے ساتھ رنگ کرنے میں شریک ہو جا نا۔اس رات میں بڑا پریشان رہا کبھی خوش اور کبھی اداس۔نماز کے بعد میں وہاں مسجد کے کونے میں بیٹھا رہا عصر کی نماز کے دوران میری حالت خراب ہونے لگی مجھے ایسا لگا کہ بخار ہورہا ہے میں اپنے گزرے دنوں کے گناہوں کو یاد کرتا گیا اور اس نتیجے پر پہچا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ شوقیہ فنکاری کرتے ہوئے حضور کے گنبد پر چڑھ جائوں اور لوگوں کو بتائوں کے میں نے یہ کام کیا ہے میں چپکے سے محطہ الزغیبی کے پیچھے اپنے فلیٹ میں پہنچ گیا جہاں الحسینی کا سٹاف رہا کرتا تھا۔اگلے روز پاکستانی ڈرائیور ایک پڑیا میں گنبد خضری کا رنگ لئے میرے پاس آیا اور کہا کہ شیخ صاحب نے غیر حاضری کی وجہ پوچھی ہے بعد میں پیغام آیا کہ پاکستانی ہی ہیں جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
میریاں اکھیاں آج بھی انہی گلیوں میں گھوم رہی ہیں۔میرے پاس حرم نبوی کے امام صاحب بھی آیا کرتے مرحوم ڈاکٹر ملک مرتضی بھی میرے کسٹمر تھے میرے پاس ان دنوں کی بے شمار یادیں ہیں۔آقا کے شہر میں ایک بار مغربی لباس میں ایک شخص تشریف لائے سابق وفاقی وزیر میاں عطاء اللہ نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر فرینک گینی ہیں میں نے انہیں سرو کیا ان کے جانے کے بعد حیران ہوا کہ مدینہ منورہ اور فرینک گینی؟چند ماہ گزرے اللہ نے انہیں ایک اور شکل میں بھیجا اور اس بار انہوں نے بتایا میرا نام فاروق غنی ہے میں کینیڈا میں نام کا مسلمان تھا یہاں اللہ نے مجھے ملازمت کا موقع دیا ہے عربی لباس میں فرینک گینی فاروق غنی کے روپ میں بہت خوب لگے۔میرا ہمیشہ شوق رہا کہ میں اس شہر با کمال میں پاکستانیوں کی رونق لگائوں اس دور میں مجھے اللہ نے جماعت اسلامی کے میاں طفیل مرحوم خلیل حامدی جان محمد عباسی ڈاکٹر ملک مرتضی کی خدمت کا بھی موقع ملا۔سیدنا حمزہ روڈ پر طباق ہوٹل نیا نیا بنا تھا میرے دوست جلیل ملک اور حنیف عباسی اس کے مالک تھے وہ میرے ساتھ دوستانہ برتائو کیا کرتے وہاں جو مہمان بھی ملا اسے وہیں لے گئے ۔ایک بار کا دلچسپ واقع بیان کروں باب مجیدی میں قیوم قریشی اور ندیم قریشی جو کہوٹہ کے رہنے والے تھے ان کا ایک ہوٹل تھا اسلام آباد ہوٹل اس کا نام تھا جو بعد میں ایک پاکستانی سعودی ایک شخص نے ہتھیا لیامیری ان بھائیوں سے دوستی ہوگئی جمعرات کو وہیں آ جاتا اور گپ شپ چلتی۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کے بال بکھرے اور پائوں میں دو مختلف رنگوں کی قینچی چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوا لئیق ٹیبل مین سے بڑی شستہ اردو میں مکس چائے طلب کی۔چہرہ مہرہ دکھائی دیا میں نے پوچھا حضور برا نہ منائیں تو نام پوچھ سکتا ہوں انہوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا غلام آقا آغا حسن عابدی نام ہے میرا۔یہ دو رنگی قینچی چپل پہننے والا شخص بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس کا بانی تھا جس نے ١٩٧٢ میں اس ادارے کی بنیاد رکھی لکسمبرگ میں اسے رجسٹر کرواے اور کراچی میں اس کا ہیڈ آفس۔اس فقیر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلد ہی بینکوں کی دنیا کو فتح کیاصرف دس سالوں میں دنیا کے ٧٨ ممالک میں ٤٠٠ سے زائد برانچیں بنا لیں٢٠ بلین ڈالر کے تو اس بینک کے ایسٹ تھے اور اس وقت دنیا کا ساتواں بڑا بینک بن گیا تھا٨٤ میں میرے سامنے ڈھابے میں بیٹھا ایک ریال کی چائے پی رہا تھا ہمیں اللہ نے توفیق دی کہ آقاۖ کے مہمانوں کی خدمت کرتے رہے آغا حسن عابدی نے ایک وقت میں سابق امریکی صدرجمی کارٹر کو اپنا ملازم بھی رکھا۔وہ امریکی معاشی دنیا کا طاقت ور شخص بن گیا اور پھروہی ہوا جو اس دنیا کے خدا کیا کرتے ہیں یہودی ساہو کاروں کے نیچے سے زمین سرکا دینے والے آغا حسن عابدی کے بینک کو منی لانڈرنگ کے الزام میں پکڑ لیا گیا اور ٥ جولائی ١٩٩١ کو اس کی تمام برانچوں پر چھاپہ پڑا اور سب ریکارڈ سیل ہو گیا اس پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ فلسطین کے ابو ندال گروپ کو پیسہ دیتا ہے۔قیوم قریشی اور ندیم کے ہوٹل پر چائے پینے والے آغا حسن عابدی نے نکلتے وقت کہا آپ شہنشاہ زمانہ کے شہر کے باسی ہو میرا سلام دیتے رہنا۔آج جب بھی جاتا ہوں اپنے ماں باپ کے علاوہ جن دو اشخاص کا سلام دیتا ہوں ان میں آغا حسن عابدی اور پٹیالہ جیولرز کے حاجی عبدالستار مرحوم کا سلام ضرور پہنچاتا ہوں۔
یہ چار آنکھیں مر کر بھی انہی گلیوں میں گھومتی ہیں مجھے جنرل موٹرز کی ایک اور ایجینسی میں کام مل گیا بے جی کو بتایا کہنے لگیں مدینے والے سے اجازت ضرور لینا۔اس سہ پہر جب جہاز مدینے سے اڑا تو میں نے گنبد خضری کی طرف دیکھ کر دعا مانگی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری خواہش ہے میں سعودی عرب میں ہی رہوں اور میرا بیٹا حافظ قران بنے اللہ نے دعا قبول کی اور ایک کی بجائے دو بیٹے وہیں حافظ قران بنے۔میں حضور کی مدح کرنے والوں کی جس قدر ہو سکی خدمت کی۔ان میں حفیظ تائب مرحوم کا نام نامی بھی شامل ہے مجید نظامی بھی تھے سردار سکندر نوابزادہ نصراللہ سردار عبدالقیوم میاں طفیل عبدالمجید ڈار۔آج عید میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے میں ادھر پنڈی میں ہوں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے میریاں اکھیاں مدینے وچ رئے گئیاں۔آپ پر لاکھوں درود و سلام۔(باقی آئیندہ)
تحریر: انجینئر افتخار چودھری