تحریر : ماجد امجد ثمر
بریل کا عالمی دن ہر سال 4 جنوری کو پوری دنیا میں لوئس بریل کی سالگرہ کے موقع پر منایا جاتا ہے۔Louis Braille وہ شخص تھا جس نے نابینا افراد کی تعلیم کے لئے ایک خاص اور آسان زبان ” بریل لینگوئج” ایجاد کی۔ بریل زبان کی ایجاد کا سارا کریڈٹ لوئس بریل کو ہی جاتا ہے جس نے نابینا افراد کو اس قابل بنایا کہ وہ پڑھنے اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی آسانی سے مہارت حاصل کر سکیں۔ 4جنوری 1809ء میںفرانس میں پیدا ہونے والا یہ لوئس بریل صرف3 سال کی عمر میں حادثاتی طور پر نابینا ہو گیا تھا لیکن اس میں بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے اس اندھے پن کی معذوری کے باوجود بھی پڑھ لکھ سکے۔لہذا لوئس بریل نے فرانس کے ‘ ‘ رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ” جو کہ نابینا بچوں کو تعلیم دینے والا ایک مشہور ادارہ تھا اس میں داخلہ لے کر یہاں سے اپنی تعلیم شروع کی۔ Valentine Huay جو اس ادارے کا بانی تھا اس نے اپنے سکول میں
پڑھنے والے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اپنا ہی ایک نظام تیا ر کر رکھا تھااوراسی کے خود تیار کردہ نظام کے تحت نابینا بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ویلنٹائن ہووے خود تو اندھا نہیں تھالیکن اس نے اپنی ذندگی نابینا افرادکے لئے وقف کر رکھی تھی۔Hauyنے لاطینی حروف کے ساتھ بھاری کاغذ پر ایمبوزنگ کی تکنیک کواستعمال کرتے ہوئے نابینا بچوں کے لئے چند کتابیں لکھیں ۔ لوئس بریل کو ‘ہووے ‘ کی کتابوں سے مدد تو ضرور ملی لیکن وہ ان سے دلی طور پر مطمئن نہ تھا۔لوئس بریل کے خیال میں کوئی اور ایسا آسان نظام ہونا چاہیے جس کے تحت نابینا افراد پڑھنے کے ساتھ ساتھ آسانی سے لکھ بھی سکیں۔چنانچہ لوئس بریل نے اپنے ان خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے انتھک کام کیا۔ لوئس بریل نے ایک کاغذ پر ابھر ے ہوئے نقظوں کی شکل میں ایک علامتی سیٹ تیار کیا ان ابھرے ہوئے نقطوں کو انگلیوں کی پوٹوںکی مدد سے آسانی سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔
یوں اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطوں سے ایک مکمل ذبان تیار کردی۔خاص نقطوں کی مدد سے تیار ہونے واکی یہ ذبان مکمل ابلاغ کی حیثیت رکھتی تھی۔یوں لوئس بریل کی صرف 15سال کی عمر میں تیار کردہ اس ذبان کو آج دنیا میں ‘ بریل لینگوئج’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یوں لوئس کی اس سادہ مگر بڑی ہی موئثر ایجاد نے نابینا افراد کو بھی پڑھنے اور لکھنے کے ممکن بنادیا۔لوئس کا یہ کام صرف حروف یانصابی تعلیم تک محدود نہ رہا بلکہ وہ موسیقی سے بھی بڑا لگائو رکھتا تھا اور اسی لگائو میں حتیٰ کہ اس نے موسیقی کے لئے بھی بریل لینگوئج ایجاد کردی۔اس موسیقی زبان کو تیار کرتے ہوئے اس نے ایک نقطہ کا خاص خیال رکھا کہ اسے اتنا آسان بنایا جائے کہ یہ دنیا میں کسی بھی ساذ موسیقی پر اس کے مطابق آسانی سے استعمال ہو جائے۔
1854ء میں یعنی لوئس کی موت کے دو سال بعد ‘ بریل لینگوئج ‘ کا نظام اسی کے ہی سکول میں متعارف کر دیا گیا جو دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد پورے فرانس میں مشہور ہو گیا اور نابینا افراد کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہونے لگی لیکن دیکر ممالک میں اس نظام کی رسائی بہت سست ہوئی۔کیونکہ ایک بدقسمتی یہ ہے کہ بریل ذبان کی کتابیں جس ملک میں شائع ہوتی ہیں انہیں بین الاقوامی کاپی رائٹس قوانین کی پابندی کی وجہ سے اسی ملک تک ہی محدود رکھنے کی اجازت ہوتی یعنی بریل کتابوں کو سرحد کے آرپار شیئر نہیں کیا جاتا یوں بہت سے نابینا بچے اپنے ملک میں بریل زبان کی کتابیںدستیاب یا شائع نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔اب ایک” عالمی بریل فائونڈیشن ”جو کہ نابینا طالبعلموں کو علم سکھانے اور انہیں کامیاب بنانے میں اداروں کوبریل کتابیں فراہم کرنے او ر ان کتابوں کو پڑھانے میں اساتذہ کی بڑی مدد کر رہی ہے۔’بریل کا عالمی دن’ دراصل ایک غیر معروف موقع ہے کیونکہ بہت سے لوگ بریل کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں اوردنیا کے کسی بھی خطے میں اس دن کو عومی چھٹی کے طور پر تو نہیں منایا جاتا ہیلیکن اس دن ہونے والی کی ایجاد کی اہمیت سے تو انکار نہ ممکن ہے ۔یوں بہت ساری این جی اوز اور دیگرفلاحی تنظیمیں مل کر اس دن کو نابینا طالبعلموں کے ساتھ ہمدردی اور ہر پہلو سے ان کی مدد کرنے کے شعور کو اجاگر کرنے کے طور پر جوش و خروش سے مناتی ہے۔اوراس دن بہت سے شہروں میں نابینا طالبعلموں کی حوصلہ افزائی کے لئے تعلیمی وتفریحی مقابلوں اور واک وغیرہ کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے اور بریل زبان کے میدان میں آنے وا لی نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔2009ء میں ‘ بریل کے عالمی دن’ کے موقع پر لوئس بریل کی 200ویں سالگرہ منائی گئی۔فرانس میں خاص طور پر لوئس بریل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک خاص نمائس کا اہتمام کیا گیااور ہندوستان ،بیلجیئم ،اور اٹلی میں لوئس بریل کی تصاویر والے خاص سکے بھی جاری کئے گئے۔
پاکستان کی نسبت دیگر ممالک میں نابینا افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے اداروں کا خاص انتظام موجود ہے اوراس سلسلے میں جہاں تک ممکن ہو انہیں سہولیات فراہم کی جاتی ہیںتاکہ وہ اپنے اندھے پن کی معذوری کی با وجود بھی معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں ۔لاہور میں نابینا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک بڑا مشہور اور بہترین ادارہ ‘ عزیز جہاں بیگم ٹرسٹ انسٹی ٹیوٹ فار دی بلائنڈ ‘ اسی سلسلے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے میر ا یہ کالم خاص طور پر اپنی چھوٹی بہن ‘فائزہ امجد ‘کے نام جو صرف 9سال کی عمر میں ہم سے دور چلی گئی تھی۔وہ مکمل طورپر نابینا تو نہ تھی مگر اس کی نظر انتہائی کمزور تھی اور وہ اسی ‘ عزیز جہاں ‘ والے ادارے میں زیرتعلیم تھی۔
اس ادارے کی اپنے بچوں کے لئے محبت ،تعلیمی سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی اورتمام تعلیمی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔پاکستان کو ایسے اور بہت سے اداروں کی شدید ضرورت ہے اور اس کے علاوہ تعلیم یافتہ نابینا افراد کی قدربھی کی جائے کیونکہ گذشتہ دنوںیہی لوگ جب لا ہور پریس کلب کے باہر اپنے حق کے لئے آواز بلند کر رہے تھے تو پولیس کی جانب سے ایسے افراد پر تشدد کا واقعہ انتہائی شرمناک تھا۔ایسے لوگوں کو تو خاص تعاون کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک نارمل بچے کی نسبت ایک نابینا بچے کا تعلیم حاصل کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔لہذا ہماری حکومت کی یہ اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نابینا بچوں کے لئے تعلیم کا حصول آسان بنائے اور تعلیم یافتہ نابینا افرادکے لئے روذگار کے بہترین مواقع بھی پیدا کرے تا کہ سفید چھڑی کی بجائے تعلیم ان کا اصل سہارا بن سکے۔
تحریر : ماجد امجد ثمر