تحریر:وسیم رضا
آقا کا میلاد ہے، سب خوشیاں منا رہے ہیں، مگر میں ہوں کہ اشک بہا رہاہوں، آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے، پہلے چہرہ بھیگا، پھر کپڑے،قطرے ٹپ ٹپ یہاں وہاں گر تے جا رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میرے آقا کو محض نکتہ کو سمجھنے کی خاطر چند لمحوں کے لئے دنیا کے اربوں انسانوں کی طرح ایک عام انسان تصور کر لیا جائے، اور پھر ان کی زندگی کے مصائب اور اور ان کے کنبے پر ڈھائے جائے والے جبر و ستم کا جائزہ لیا جائے تو یقینا دنیا کے کسی کنبے کا کوئی سربراہ اس کی نظیر پیش نہ کر سکے گا۔
سیاہ بھیانک پہاڑوں اور خوفناک چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے،دور دور تک نہ سبزہ نہ پانی نہ چرند نہ پرند نہ انسان، اس خطر ناک پہاڑی درے میں میرے آقا اپنی والدہ کے ساتھ سفر میں ہیں، ایک خادمہ بھی ہمراہ ہیں، آقا کی عمر اس وقت محض چھ سال ہے، (آپ اس واقعہ کے اثر و شدت سے اپنی روح کو جنجھوڑنا چاہتے ہیں تو اپنے بیٹے کا نام لیجئے اور اس کا تصور اپنے زہن میں لا کر سمجھ لیجئے یہ کیفیت آپ کے اپنے بیٹے پر بیت رہی ہے) اچانک والدہ کی طبعیت ناساز ہوتی ہے اور وہ آن کی آن میں تڑپتی ہوئی اس سنسان ویرانے میں اپنی جان سے گزر جاتی ہیں ، باپ کو تو دیکھا ہی نہیں تھا ، اب ماںبھی چلی گئی، ہائے ، ہائے ، چھ سال کا ایک معصوم سا بچہ، نہ زندگی کا شعور نہ موت کا پتہ، آقا بے چین ہو گئے، اور پریشان ہو کر رونے لگے
وہ ماں کو ہلا رہے تھے اور پوچھ رہے تھے ماں تجھے کیا ہوا ہے؟ اٹھو ماں ، چلو ، آؤ گھرچلیں ، خادمہ نے کافی دیر بعد زبردستی ا ٹھانا چاہا تو انجانے ا حساس کے تحت نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ گئے، اور بے بس ہو کر بلک بلک کر رونے لگے، اتنا روئے کہ ہچکی بند گئی، میرے ننھے آقا اس پتھر سے لپٹے ہوئے تھے جس کے نیچے ماں کو ہمیشہ کے لئے لٹا دیا گیا تھا، وہ پتھر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے بلبلا ر ہے تھے اور کہتے جا رہے تھے ماں تو تو جانتی تھی کہ تیرے سوا میرا کوئی نہ تھا پھر بھی تو مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
در یتیم کی حیات کا آغاز ہی سوز اور درد سے ہوا، پھر در بدر ، نہ ماں نہ باپ نہ گھر، کبھی داد ا کے گھر کبھی چچا کے گھر، بچپن میں لاڈ پیار اور کھیلوں سے دور رہے اور جوانی میں آرام و سکون سے، نبوت عطا ہوئی تو اس کے تقاضے نبھانے میں مزید مصائب و آلام نے آ گھیرا۔ نبوت کے اعلان کے بعد کئی بار ہوا کہ آپ کے پیچھے مکہ کے اوباش لگا دیئے جاتے وہ ظالم آپ پر پتھروں کی بارش کر دیتے، نوکیلے پتھر یوں مارتے کہ آپ لہو لہان ہو جاتے، خون سر اور جسم سے رستا ہوا پاؤں کے تلووں میں جمع ہوجاتا، شعیب ابی طالب کی دادی میں مقید ہوئے تو درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوگئے،غزوہ خندق میں ہر صحابی نے بھوک کی شدت سے تنگ آکر اپنے اپنے پیٹ ایک ایک پتھر باندھ لیا اور جب بھوک نے تکلیف اور درد کی انتہا کردی تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دکھایا جہاں ایک کی بجائے دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
پنجتن پاک کے گھرانے کے اس عظیم سربراہ نے ساری عمر کنبے سمیت بھوک کاٹی لیکن کسی سوالی کو بھوکا نہ لوٹایا، ایک بار مولی علی بھوک کی شدت کے ستائے گھر سے نکلے تو آقا کو راستے میں پایا ، ماجرا سنانے پر پتہ چلا کہ کہ وہ تو خود بھوک سے ہیں، اتنے مین نکچھ کچھ اور صحابہ بھی آگئے ایک صحابی کو پتہ چلا تو وہ سب کوگھر لے آیا اور کھانا پکا کر خدمت میں پیش کیا ، آقا نے کچھ کھانا مولا علی کرم اللہ وجیہ کودے کر کہا کہ جاؤ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دے آؤ وہ بھی کئی دن کی بھوک سے ہے ، کئی دنوں سے گھر میں چولہا نہیں جلا۔
روایت ہے کہ ‘آقا سب سے بڑھ کر حسین تھے ان جیسا حسین اور خوبصورت نہ پہلے دیکھا نہ بعد میں ، ان کے چہرہ مبارک پر ہمیشہ ایک تبسم کھلتا رہتا تھا’ جس کے اندر دکھ ہی دکھ ہو اس کے چہرے پر تبسم کا طواف کرتے رہنا معنی خیز نہیں تو اور کیا ہے؟ زمانے کی سختیاں ، محرومیاں رنج و الم سہنے کے بعد آقا اپنی طبعی عمر کے آخری حصے میں اپنی ماں کی قبر پر حاضر ہوئے تو پھوٹ پھوٹ کر اتنا روئے جتنا بچپن میں اپنی ماں کو آخری بار دیکھ کر روئے تھے، صحابہ آپ کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے ،بچپن سے بڑھاپے تک ان کے اندر ماں کی کمی کا احساس مچلتا رہا۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کی محرومی کے ساتھ میرے آقا نے اپنی ساری زندگی تنہا گزاری۔
آقا نے جاہل معاشرے کو سدھارنے کے لئے کیا کیا دکھ سہے، کیسے کیسے ستم برداشت کئے اور اس کے بدلے میں جابرسماج نے ان کے اقربا اور احباب کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی مثال دنیا کے کسی انسان یا خاندان میں نہیں ملتی، آقا کو ز ہر دیا گیا، بعض مورخوں کے مطاق اسی زہر کے ا ثر سے آپ نے پردہ فرمایا، آقا کے یاروں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ و حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اوربھائی مولا علی شیر خدا کو قتل کیا،اور میدان کربلا میں جنت کے سردار بیٹوں سمیت پورے کنبے کو خون میں نہلا دیا، رہی سہی کسر بیبیوں کو گرفتار کر کے پوری کردی، دنیا کا کوئی ایسا خاندان ہے جس نے انسانوں کو رہتی دنیا تک جینے کا ایک ضابطہ ا خلاق دیا ہو اور ایک ایسی ٹیم تیار کر کے دی ہو جس نے بعد میں ا سی ضابطہ پر عمل کر کے ادھی سے زیادہ دنیا کو اپنے زیر نگوں کیا ہو، لیکن بدلے میں اس کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کیا گیا ہو؟
آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی ہر سو ہر جا دھوم مچی ہے، جشن منائیں ،خوب چرچا کریں، خوشیاں منائیں ، لیکن ہو سکے تو آقا صلوہ وسلام کے زکر پر کبھی کبھی آنسو بھی ضرور بہا لیا کریں ،کیونکہ انہوں نے ہماری خاطر بڑے آنسو بہائے ہیں اور اگر کبھی سرکار کے زکر پر آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں تو اس لمحے اللہ تبارک تعالی سے عشق مصطفے مانگنا نہ بھولنا !
تحریر: وسیم رضا