تحریر: پروفیسررفعت مظہر
آج یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ یہ دِن ہرسال بڑے احترام سے منایا جاتاہے اور ہر مسلمان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراپنی عقیدتوںکے پھول نچھاور کرنے کی تگ ودَو میںمگن نظرآتاہے ۔جلسے ،جلوس اورریلیاں نکلتی ہیں،محافلِ نعت سجتی ہیںاور فضائیں حبِ رسولۖ سے عطربار ہوجاتی ہیں۔ میلادکی محافل میںآقاۖ کی شان بیان کی جاتی ہے اوررات کوچراغاں ہوتاہے جس سے پوراپاکستان بقعۂ نوربن جاتاہے ۔اِس دِن تو یوںمحسوس ہوتاہے کہ جیسے پوری قوم عشقِ رسولۖ میںڈوب چکی ہو لیکن حیرت انگیزطور پر اگلے ہی دن ہم زندگی کی پرانی ڈَگرپر لوٹ آتے ہیںیعنی ”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
کسی کویہ بھی یادتک نہیںرہتا کہ ہماراتو ایمان ہی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتاجب تک ہمارے عشق کایہ عالم نہ ہوجائے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ماںباپ ،عزیز،رشتے دار حتیٰ کہ دُنیا کی ایک ایک چیز سے پیارے نہ ہوجائیں ۔یہ کیسا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو صرف ایک دِن ہی قائم رہتاہے اور یہ کیسی محبت ہے جس میںہم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پرعمل کرنامحض اِس لیے چھوڑدیتے ہیںکہ ہمیں” جدیدیت”بہت مرغوب ہے ۔ ہمیںذرا رُک کریہ سوچناہوگا کہ کہیںایسا تونہیں کہ ہم محض اِس لیے مسلمان کہلاتے ہوں کہ ہم مسلم گھرانے میںپیدا ہوگئے ،اگر کسی ہندوکے گھرمیں پیداہوتے تو ہندوہوتے اور اگرعیسائی کے گھرپیدا ہوتے توعیسائی ۔ہمیںیہ بھی سوچناہوگا کہ کیاہماراایمان مطلوب و مقصودِربی کے مطابق ہے یا پھر ہم نے اپنی مرضی کے ایسے ایمان گھڑرکھے ہیںجو دنیوی زندگی میںہمارے لیے منافع بخش ہوں۔
ہمیںخود سے یہ سوال بھی کرناہوگا کہ کہیں ہماراایمان محض حمدونعت اورجذباتی نعروںتک محدود تونہیں اورکہیں ایساتو نہیں کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ،برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ہمیںاپنے مَن میں ڈوب کریہ سراغ بھی لگاناہوگا کہ کہیںہم ذات پات ،رنگ ونسل اورفرقہ واریت کے اسیر تونہیں اوربقول اقبال کہیںایسا تونہیں کہ
یوں تو مرزا بھی ہو ،سیّد بھی ہو ،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
یادرکھیے کہ ربّ ِ جباروقہار نے عالم بے عمل کے لیے دوہری سزا مقررکرکھی ہے اورواضح کردیا گیاہے کہ جاننے والے اورنہ جاننے والے ہرگز برابرنہیں۔
اگرایک عالم کی جزا ربّ ِ کریم کے ہاںبہت زیادہ ہے توعالم بے عمل کی سزابھی اُتنی ہی سخت ۔ہمارے معاشی ومعاشرتی رویوںسے توصاف ظاہرہوتا ہے کہ ہم سبھی کچھ ہیں لیکن مسلمان نہیں کیونکہ ہم تو مسلمان ہونے کی اُس اولین شرط پربھی پورا اترنے سے قاصرہیں جومیرے آقاۖ نے اپنے آخری خطبے میںارشاد فرمائی اورساتھ ہی یہ گارنٹی بھی دے دی کہ اگراِس شرط پرپورا اتروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔یہ شرط قُرآن وسنت کومضبوطی سے تھامے رکھناہے لیکن اِس دَورِجدید کی کشش نے ہمیںتارکِ قُرآن بنادیاجس کی بناپر ہم نے سنتِ رسولۖپر عمل کرنا چھوڑدیا ۔ایک مسلمان کی جنسِ گراںمایہ توایمان پرمضبوطی سے قائم رہناہے لیکن ہمارا ایمان تو اتنا متزلزل ہے کہ ہم محض ٹامک ٹوئیاںمارتے اوراپنی مرضی کاایمان گھڑتے رہتے ہیں ۔حبّ ِ رسولۖ کے سبھی دعوے دارلیکن فرقہ واریت کاناسور جابجا ،شیعہ سُنّی جھگڑے گلی گلی اور ایک دوسرے کی گردن مارنے کوہمہ وقت تیار۔
میرے آقا تواس بیمار عورت کی عیادت کوبھی چلے گئے جوہر روزآپ پرکوڑا پھینکتی تھی ۔لیکن ہم ایسے کم نصیب کہ اگرپڑوس میںمَرگ ہوجائے تو بچوں کو صرف یہ تلقین کرتے ہیںکہ ٹی وی کی آوازآہستہ کردو پڑوس میںمرگ ہوئی ہے۔سانحہ پشاورنے بیشمار ماؤںکی کوکھ اجاڑکے رکھ دی ۔پوری دنیانے اِس کَرب کومحسوس کیا ،نریندرمودی جیسے اسلام اورمسلمان دشمن نے بھی اِس کَرب کومحسوس کرتے ہوئے پورے ہندوستان کے سکولوںمیں دومنٹ کی خاموشی کااعلان کردیا اوربرادر اسلامی ملک ترکی نے توسوگ میںایک دِن کے لیے اپناجھنڈا سرنگوںکردیا ،لیکن ہم ؟۔۔۔ہم سے تواتنا بھی نہ ہوسکا کہ نئے سال کی خوشیاںمنانے اورہلّاگُلا کرنے سے بازرہتے حالانکہ اسلامی معاشرے میںتو ”ہیپی نیوایئر”کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔یہ رسمِ بَدتو اہلِ مغرب کے ہاںپائی جاتی ہے اورمیرے آقاۖ نے سب سے زیادہ ممانعت کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیارکرنے سے فرمائی ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی ،وہ انہی میںسے ہے ”۔یوںتو ہم عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے داعی ہیںاور حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ مرنے مارنے کوتیار ہوجاتے ہیں لیکن سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ عمل کرنے سے گریزاںہی رہتے ہیں ۔ہماراتو یہ عالم ہے کہ جو اُم الخبائیث سے مُنہ کا ذائقہ بدلنے کی بات کرے وہ ”عظیم”لکھاری اور تجزیہ نگار گرداناجاتاہے ۔جو مُنہ ٹیڑھاکرکے انگریزی میںبات کرے ،اقوامِ مغرب کی سی شباہت اختیارکرے اورمفکرینِ یورپ کی مثالیںدے اُس سے ہم فوراََ متاثرہوجاتے ہیں ۔ جو خواتین آزادیٔ نسواںاور حقوقِ نسواںکی آڑمیں دین کامذاق اُڑاتی ہیںوہ الیکٹرانک میڈیاکو سب سے زیادہ مرغوب ہیں۔
اور اُن کی دریدہ د ہنی پرکوئی روک ٹوک نہیں۔سمجھ میںنہیں آتاکہ آخر آزادیٔ نسواں کی علمبردار خواتین کامطالبہ کیاہے؟ ۔اگریہ حقوق کی بات کرتی ہیںتو یہ حقوق توچودہ سوسال پہلے دینِ مبیںنے عطاکر دیئے اوراتنے عطا کیے کہ سوائے اسلامی معاشرے کے اور کوئی معاشرہ عطاکر ہی نہیںسکتا ۔حکمت کی کتاب میں درج کردیا گیا”اِن عورتوںکے بھی معروف طریقے پرایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوںکے حقوق اِن پرہیں(البقرہ228 )۔ سب سے پہلے دینِ مبین نے ہی عورت کومکمل انسان تسلیم کیاا ور سورة النساء کے مطابق مردوںکو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا۔جس بیٹی کوزندہ دفن کردیا جاتاتھا اُسے ”اللہ کی رحمت”قراردیا اورنیک بیوی کودنیا کی بہترین متاع۔جس آزادی کا پرچارآزادیٔ نسواں کی علمبردار یہ خواتین کرتی ہیںوہ تومادرپدر آزادی ہے۔
مغرب کے ایجنڈے پرکام کرنے والی یہ خواتین ویسی ہی جنسی آزادی چاہتی ہیںجیسی مغرب میں موجودہے ۔جس جنسی بے راہروی کی یہ علمبردارہیں ،اُس میںتو ”حرامی بچے”ہی جنم لے سکتے ہیںجس پراہلِ مغرب کوتو کوئی ندامت نہیںہوتی لیکن دینِ مبیں ایسے مردوزن کو سنگسارکرنے کا حکم دیتاہے ۔اسلامی تعزیرات کویہ ”سیکولر”وحشیانہ فعل قراردیتے ہیںاورحیرت ہے کہ مسلمان بھی کہلواتے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ قُرآن کے ایک حرف سے انکاربھی پورے قُرآن سے انکارکے مترادف ہے ۔اسی لیے دین میںپورے کے پورے داخل ہوجانے کاحکم ہے ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم دین کے کچھ حصّے اپنالیں اورکچھ چھوڑ دیں ۔جس طرح فرقانِ حمیدکے احکامات کی پابندی ہرمسلمان پرفرض ہے اسی طرح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کے بغیرکوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کامستحق ہے نہ سچاعاشقِ رسولۖکہلوانے کا ۔میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانے والو! یہ جشن مناؤاور بھرپورطریقے سے مناؤکہ اسی میںحبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضمرہے لیکن محض جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں ،حبِ رسول کے تقاضے اوربھی ہیں۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر