تحریر: محمد شاہد محمود
بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہونا شروع ہو گیا ہے کہ اس نے پاکستان کی طرف سے تعلقات میں بہتری کی تمام کوششوں کا ہمیشہ منفی جواب دیا ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے غلطی سے کنٹرول لائن پار کرنے والی 12 سالہ بچی کو بھارتی فوج کے حوالے کئے جانے کے ہمدردی کے جذبے کا جواب اگلے ہی روز 2 پاکستانی جوانوں کوفلیگ میٹنگ کے نام پر بلا کر فائرنگ کر کے شہید کرنے سے دیا۔ 2014 کے دوران پاکستان کی طرف سے متعدد افراد کو غلطی سے کنٹرول لائن کے اس طرف آنے پر واپس بھیج دیا گیا جبکہ بھارتی فوج کی طرف سے پاکستان کے غلطی سے ایل او سی پار کرنے والے افراد میں سے 2 کی لاشیں دی گئیں اور ایک تاحال لاپتہ ہے۔
کنٹرول لائن پر حاجی پیر سیکٹر پر 12 سالہ لڑکی نسرین غلطی سے اس طرف آگئی تھی جسے بھارتی فوج کے حوالے سے کر دیا گیا۔چند ہفتے قبل ایک بھارتی منظر حسین جو مقبوضہ کشمیر کے علاقے جہاں نگر کا رہنے والا تھا کھوئی رٹہ سیکٹر میں غلطی سے پاکستان کی طرف آگیاجسے14 نومبر کو بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا۔9 اگست کو بھی پاکستان رینجرز نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ستیاشیل یادیوکو بھارتی حکام کے حوالے کیا جو بجوات سیالکوٹ سیکٹر کے قریب پاکستانی علاقے میں غلطی سے آگیا تھا۔ بھارتی حکام نے ہمیشہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی اور دسمبر 2013 کو ڈی جی ایم اوز کے ہونے والے اجلاس میں طے شدہ فیصلوں کی دھجیاں اڑانے کا معمول بنا لیا۔
اس سال14 جون کو بھارت نے کنٹرول لائن کے قریب جندروٹ سیکٹر میں 60 سالہ چن حسین کو پکڑا جو کنٹرول لائن کے قریب گھاس کاٹ رہا تھا اور آج تک اسے واپس نہیں کیا گیا۔6اگست کو مندھیر سیکٹر میں بھی ایل او سی کے قریب گھاس کاٹنے والے کالا خان کو بھارتی فوجیوں نے اٹھایا اور بعد ازاں اسے شہید کر کے9اگست کو اس کی لاش واپس کی۔28 نومبر کو بھی بھارت نے چیڑی کوٹ سیکٹر میں 70 سالہ محمد دین کو شہید کیا جب وہ ایل او سی کے قریب اپنی بکریوں کو چرا رہا تھا اور اگلے ہی روز 29 اکتوبر کو بھارتی بی ایس ایف نے ورکنگ باؤنڈری پر 30 سالہ پاکستانی توقیر کو شکر گڑھ سے اٹھایا اور بعد ازاں اسے شہید کر کے لاش واپس کی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بے گناہ افراد کو گھروں سے اٹھا کر کنٹرول لائن کے قریب لانے کے بعد بھارتی فوج کی طرف سے انہیں جعلی مقابلے میں شہید کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور حال ہی میں 2010 میں منچیل سیکٹر میں 3 بے گناہ شہریوں کو قتل کر نے پر 2 افسروں سمیت 7 بھارتی فوجیوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
ان تین نوجوانوں شہزاد احمد خان،ریاض احمد لون اور محمد شفیع لون کو روز گار دلوانے کے بہانے بھارتی فوج لے گئی تھی اور بعد ازاں اسے دہشت گرد قرار دیکر ہلاک کر دیا تھا۔بھارتی فوجی حکام نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ لوگ پاکستان کی طرف سے داخل ہو رہے تھے۔دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے بے گناہ پراپیگنڈہ کے ذریعے پاک فوج اور پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے جبکہ یہ مذکورہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ خیر سگالی کے جذبے کا جواب لاشیں دیکر کیا ہے۔
عالمی برادری کو بھارت کی ان حرکات پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کا نوٹس لینا چاہیے تا کہ وہ آئندہ بے گناہ شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا چھوڑ دے۔ڈائریکٹر جنرل رینجرز پنجاب طاہرجاوید خان کا کہنا ہے کہ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے بعد اب نچلی سطح پرمذاکرات نہیں ہوں گے، ستمبر سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ گزشتہ روز بھارتی فوج نے ورکنگ باؤنڈری پر صبح پونے بارہ بجے فائرنگ شروع کر دی اور شام پانچ بجے بند کی۔ جب رینجرز کے جوان زخمی ساتھیوں کو اٹھانے کے لئے نکلے تو پھر گولیاں چلا دیں۔
فائرنگ رکوانے کے لئے بھارتی پلاٹون کمانڈر سے لے کر ڈی جی ایم او تک رابطہ کیا گیا لیکن فائرنگ بند نہیں ہوئی، اس طرح بھارتی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 2 جوان شہید ہوگئے تھے۔ بھارتی فوج کی مسلسل فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے جوانوں کی لاشیں بھی رسیوں سے باندھ کر لانا پڑیں جس کے بعد بھارت کو بتا دیا کہ آئندہ نچلی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ بھارت سے آئندہ مذاکرات ڈی جی ایم اووز یا ڈی جی کی سطح پر ہوں گے۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے فلیگ میٹنگ پر ہونے والی بھارتی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دیریا امن کی کوششوں میں مشکلات ناکھڑی کی جائیں۔ ہماری امن کی خواہش کو بھارتی ہماری کمزوری نہ سمجھےـ ہم بھارت کو ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں’ اور 5 سے 6 ماہ کے دوران ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والے حملے خطے میں امن کی کوشش کو ضائع کرسکتے ہیںـ دنیا بھر میں فلیگ میٹنگ پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور بھارت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
شکرگڑھ سیکٹر میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونے والے رینجرز کے نائیک ریاض احمد، لانس نائیک ملک صفدر کو انکے آبائی علاقوں جہلم اور خوشاب میں پورے اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میں رینجرز حکام اور اہم شخصیات سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ رینجر کے لانس نائیک صفدر محمود کو ا انکے آبائی گائوں سودھی بالا وادی سون میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ میں علاقہ کے معززین کی کثیر تعداد کے علاوہ ڈی ایس پی رینجر سکندر اور دیگر اہلکاروںنے شرکت کی، رینجرز کے چاک و چوبند دستے نے سلامی دی، پھولوں کی چادر چڑھائی۔ شہید نے پسماندگان میں تین بیٹے، دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ شہید ہونے والے صفدر محمود کی والدہ کا کہنا تھاکہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے میرے بیٹے نے شہادت پائی ہے، مجھے اس پر فخر ہے اگر میرے پانچ بیٹے بھی ہوتے تو ملک کی حفاظت کی خاطر قربان کر دیتی۔ شہید صفدر محمود کے بیٹوں علی رضا اور رفاقت حسین نے کہا کہ انہیں فخر ہے انکے والد نے شہادت حاصل کی ہے۔
وہ شہید کے بیٹے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر پنڈ دادنخان محمد اشرف گجر نے شکر گڑھ سیکٹر میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے جہلم کے رہائشی رینجرز کے جوان نائیک محمد ریاض شاکر کی نماز جنازہ میں شرکت کی جو انکے آبائی گائوں جلال پور شریف میں ادا کی گئی۔ اسسٹنٹ کمشنر محمد اشرف گجر نے ڈی سی او جہلم کی طرف سے نائیک محمد ریاض کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھائی۔ اس موقع پر رینجرز کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ مقامی شہریوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ نائیک محمد ریاض شاکر کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔پانچ سے چھ ماہ کے دوران ورکنگ بائونڈری پر ہونے والے حملے خطے میں امن کی کوشش کو ضائع کر سکتے ہیں۔ مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ جاری ہے اور ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں۔اب حکومت پاکستان کا خاموش رہنے کا وقت نہیں بلکہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔
تحریر:محمد شاہد محمود