counter easy hit

جاگو کہ ضمیر جگانے کا وقت ہے

Mishi Malik

Mishi Malik

تحریر : مشتی ملک
متعدد بار قلم اٹھایا مگر ہر بار الفاظ قلم تک آتے آتے دم توڑتے رہے۔ میری قلم 132لاشوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی شہیدوں کو قوم کے معماروں کو لاشوں کا نام دینے سے میری قلم انکاری ہے۔مگر میں نے لکھنا ہے ۔کیونکہ میں بھی ایک ماں ہوں سانحہ پشاور کے دوسرے روز جب میں نے اپنی بیٹی کو سکول بھیجا میری آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں۔میں اس کا ماتھا چوما اورمیرے ذہن میں وہ مائیں باربار آتی رہیںوہ سینکڑوں مائیں جنہوں نے 16دسمبر کو پشاور آرمی سکول میں ماتھا چوم کر بھیجا ہوگا۔کسی بچے نے ناشتہ کیا ہوگا کسی نے نہیں کیونکہ عموماً بچے سردیوں میں نیند اٹھنے سے سستی برتتے ہیں ۔مگر مائیں بچوں کو ان کے روشن مستقبل کے لیئے انھیں گرمی کی تپتی دوپہر ،سردیوں کی تھر تھراتی سردی میں سکولوںمین بھیجتی ہیں ۔تاکہ ان کے بچے زمانے کی اس دوڑ میں اپنے قدموں پہ کھڑے ہو کر معاشرے کے درفشاں ستاروں کے طور پر پہچانے جائیں۔

مگر گزشتہ 14سالوں سے پاکستانی عوام پر جو دہشت گردی کی لعنت آن ٹپکی ہے اس نے پاکستانی معیشت کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔اس دہشت گردی کی بھینٹ یمارے 5500پاکستانی چڑھ چکے ہیں ۔اس خود کش حملوں نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔حکومتوںکا نرم رویہ دہشت گردوں کو تعویت دیتا ہے حکومتوں نے ہمیشہ مزاکرات پر زور دیا ہے۔یہی مزاکراتی نرمی دہشت گردوں کو مضبوط کرتی رہی ۔ہم مزاکرات کرتے رہے اور وہ لوگ اپنے نیٹ ورک کو متحرک کرتے رہے ۔بد نصیبی سے پاکستان وہ ملک ہے ۔جہاں مذہبی ،مالی ،نظریاتی سیورٹ ملتی ہے ۔کچھ لوگوں سے جس سے دہشت گردوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ اور بڑھتے ہیں ۔یہ نام نہاد مسلمان ،یہ سفاق قاتل بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں کو مارنے میں قطعاََ نہیں ہچکچاتے ۔حکومتوں کے باربار مزاکرات کی دعوت نے ان سفاک قاتلوں کو اپنے ارادوں میں اور مستحکام کیا ۔حالانکہ مزاکرات حکومت کی کمزوری نہیں کیونکہ مزاکرات تو ہوئے اور دس سے زائد معاہدے بھی ہوئے ۔امن کمیٹیوں نے اپنا اپنا کام کیا سیاسی لوگوں نے اپنے طور پر کام کیا مگر افسوس دہشت گردوں نے ان دس معاہدوں میں سے کسی ایک معاہدے کی پاسواری نہیں کی۔یہاں میں یہ کہنا اپنا فرض سمجھوں گی۔حکومتی پالیسیاں ناکامی ہیں ۔کیونکہ دہشت گردوں نے جب جب بھی حملہ کیا ہر بار ان کا طریقہ کار اور جگہ تبدیل تھی ۔دہشت گردوں کا صرف ایک مقصد ہے۔

پاکستان کی ریاست کو نقصان دینا ،جب دہشت گردوں نے پبلک پلیس پر خود کش دھماکہ کیا حکومت نے پبلک پلیس کی سکیورٹی بڑھادی ۔دہشت گرد ان سے بھی آگے نکلے انھوں نے ہسپتالوں پر حملہ کردیا جب حکومت نے ہسپتالوں کی سکیورٹی بڑھائی انھوں نے ہوٹلوں پر حملے شروع کر دیے ۔جب حکومت نے اس طرف توجہ کی تو حکومت کے ریاستی اداروں پر حملہ شروع کردیا ۔جسکی بڑی مثالیں ،نیوی بیس پر حملہ ،کامرہ کمپلیکس پر حملہ ،جی ایچ کیو پر حملہ ہے۔آخر کیا ہمارے ریاستی ادارے اتنے کمزور ہیں ؟یا ہماری انٹیلی جینس کی ناکامی ہے کہ ہم ان دند ناتے دیشت گردوں کو نہیں روک پاتے؟آخر ہماری حکومتوں نے یہ فیصلے کرنے میں تا خیر کیوں ؟آخر کیوں پاکستانی عوام کو خوف فزاء میں دھکیلا گیا ؟آخر کیوں ہم پر چودہ سالوں سے یہ دہشت کار قص جاری ہے؟یہ دہشت کا جن کیوں آخر کیوں ہم پر رقصاں ہے؟یہ ظالم یہ سفاک یہ قاتل یہ انسانیت سے دور لوگ کون ہیں یہ کیا چاہتے ہیں ؟یہ کتنے کلمہ پڑھنے والوں کی جان لیں گے ۔یہ کتنے لوگوں کی بَلی چڑھائیں گے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی تین بڑی وجوہات ہیں ۔1)غیر رجسٹر ڈ افغانی 2)مذہبی انتہا پسندی ،نظریاتی سپورٹ 3) حکومت کی فیصلہ کرنے کی دیر ۔یہ تین سبب ہیں ۔اگر ان اسباب کو دور کیا جائے ،افغانیو ں کو انکے گھروں میں بھیجا جائے اور جو لوگ طالبان یا دہشت گردوں کو مالی ،نظریاتی تعاون کرتے ہیں ۔ان لوگوں کو بھی سزا دی جائے ۔وہی سزا دی جائے جو دہشت گردوں کے لیئے مقرر ہے کیونکہ یہ بھی اس گناہ کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں ۔حکونت کے اگر پھانسی بحال کی ہے تو اسے بلاتفریق ان سب دہشت گردوں کو پھانسی پر چڑھائے جائے ان کے لیئے رحم کیوں ؟جو ہمارے نھنے پھولوں کے لیئے رحم نہیں کرتے ان لوگوں کے لیئے ہماتے دلوں میں رحم کی قطعاََ گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے فیصلوں میں بیرونی مداخلت قطعاََ برداشت نہیں کی جائے گی ۔پھانسی کے خلاف مختلف انسانی حقوق کی علمبرداراین جی اوز نے جو آورز آٹھا ئی ہے۔ہم ان کی پروا کیے بغیر اپنے آئین وقانون کے مطابق تمام دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے مجاز ہیں ۔برطانیہ کے سوا دنیا کے تقریباََ سبھی ممالک میں پھانسی کی سزا ئیں مقرر ہیں۔ امریکہ کیقوانین کے مطابق مجرم کے لیئے انتہائی سخت قوانین ہیں ۔پھانسی کی سزا وہاں موجود ہے۔یورپ میں 4,5سو سال پہلے جیب کاٹنے کی سزاپھانسی تھی اور اس پھانسی کو دیکھنے کیلئے تین سے چار سو لوگ جمع ہوتے تھے اور جس جرم کی پاداش میں سزادی جاتی تھی وہیں پر دوسو سے زائد لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی تھیں۔

غرض یہ کہ جس جرم کو ختم کرنے کا وہ خوف پھیلاتے تھے اس کی سزا کے دوران ہی وہ فعل پھر کیاجاتا تھا اس لیے یورپی ممالک پھانسی کے خلاف ہیں ان کا نظریہ یہ ہے کہ پھانسی کی سزا دیکھنے والے لوگ پھر اسی طریقے سے پھانسی چڑھنے کو تیار ہیں تو پھانسی جرائم روکنے کا حل نہیں مگر جہاں یورپ اس قانون کا انکاری ہے وہیں امریکہ جیسے لبرل ملک میں انتہائی سخت قوانین ہیں اور دنیا کی سب سے بدنام زمانہ جیل گوانتاموبے جیل اس کی ایک مثال ہے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی سزا کے حوالے سے آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں امریکہ کی کل آبادی دنیا کی پانچ فیصد آبادی کے برابر ہے امریکہ کی کل آبادی پینتیس کروڑ ہے مگروہاں کی جیلوں میں دنیا کے کل قیدی تناظر میں دیکھے جائیں تو قیدیوں کی تعداد تیس فیصد ہے بات یہ بھی ہے کہ امریکہ ،یورپ ، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی سیکورٹی ، مانیٹرنگ اعلیٰ پائے کی ہے مگر وہاں پرلسانی ، مذہبی ، نظریاتی طور پر جرائم بہت کم ہوتے ہیں بدنصیبی سے ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں پر لسانی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ ، نظریاتی بنیادوں پر جرائم عام ہیں جن کا سدباب انتہائی ضروری ہے حکومت کو پھانسی کی سزا ہرحال میں قائم رکھنا ہوگی تاکہ دہشتگردوں کے دلوں میں اسلامی پاکستانی قوانین کی دھاک ہو۔ ہمارا اپناآئین ہے قوانین ہیں جن پر عملدرآمد کرنا ہماری حکومت کا اولین فرض ہے ہم نے بہت سی لاشیں دیکھ لیں۔

پچپن سو لاشیں اس دہشتگردوں نے ہمیں دہشت کی علامت کے طور پر دیں ، جس کا بڑا سبب مذہبی انتہا پسندی ہے ۔ اس انتہا پسندی کو ہم نے ختم کرنا ہے ۔ 55سو لاشوں میں ایک سو بتیس لاشیں سب سے بھاری تھیں جو ہم نے اپنے کاندھوں پہ اٹھائیں ۔ سانحہ پشاور نے ہمیں وہ زخم دیا جو جیتے جی ہرگز نہیں بھولے گا حکومت کو کسی بھی اندرونی وبیرونی دبائو میں آئے بغیر اپنے آئیں وقانون کے تحت تمام دہشتگردوں کو پھانسی پر چڑھانا ہے اپنی آنیوالی نسلوں کو دہشتگردی سے بچانا ہے ۔ جاگ جا میری قوم کے سپاہیوجاگو کہ یہ وقت جاگنے کا ہے اگر اب بھی تم نہ جاگے تو روزقیامت ہرماں کے تم مجرم ٹھہرو گے جن کے لعل ان ظالموں نے چھین لیے۔

تحریر : مشتی ملک