counter easy hit

اپنا کھویا ہوا مقصد تلاش کریں؟

 Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر

آج قرآن پیغامِ ہدایت کے سلسلے میں اہم میٹنگ تھی ٬ جس میں انگلینڈ سے ایڈمن صاحبہ نے سکائپ پے ہم سب سے تفصیلات طے کرنی تھیں کہ کورس کا آغاز اور انداز وقت انتظامات کیسے کئے جانے چاہیۓ٬ حال ہی میں بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک مسئلہ سامنے آیا کہ چھوٹا بیٹا جو ذہنی طور پے اپنی عمر سے پیچھے ہے ٬ اُس نے بہن کی کمی کو بہت بری طرح سے محسوس کیا٬ اور وہ باقی افراد کے ساتھ خصوصا میرے ساتھ یوں جُڑ کے رہتا ہے جیسے ڈر رہا ہو کہ ہم بھی اُسے اکیلے نہ چھوڑ کر چلے جائیں

اس صورتحال میں کام کرنا قدرے مشکل ہے ٬ لیکن جو ذمہ داری ہو اُسے نبھانا ہے اور مشکلوں کو آسان کرنا ہے عمل سے محنت سے اور صبر سے جو اللہ کو بیحد اپنے بندوں کیلیۓ پسند ہے٬ یہی قرآن پاک سے سیکھا٬ بہر کیف ٹھیک 1 بے میٹنگ تھی اور ایک خاتون دور سے تشریف لا رہی تھیں ٬ لہٰذا کوشش تھی کہ جلد از جلد کھانا تیار ہو جائے لیکن بیٹا کسی طور گود سے اترنے کو تیار نہیں تھا٬ 12 بجے تک یہی پوزیشن تھی تو سوچا کہ اب کھانا نہیں بن سکے گا وقت بہت کم ہے تو کسی ریسٹورنٹ سے منگوا لوں گی ٬ یہ سوچ ذہن کو سکون دے گئی ٬

تدبر تفکر حکمت قرآن مشکل وقتوں میں کیسے استعمال کرنے ہیں وہ اسی طرح پتہ چلتا٬ اللہ بڑا رحیم بڑا کریم ہے ٬ میری گود میں بیٹا دیکھتے ہی دیکھتے سکون سے سو گیا ٬ وقت دیکھا تو سوا بارہ اللہ کا نام لیا اور کھانا بنانا شروع کر دیا٬ وقت کی پابندی قرآن پاک کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ سکھائی جاتی ہیں٬ اسی لئے ٹھیک 1 بجے وہ سسٹر تشریف لے آئیں اور میں نے دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ بار شکر ادا کیا کہ فرائی کر رہی تھی ٬ باقی کھانا تیارتھا٬ سلام دعا کے ساتھ ہی ظہر کا وقت ہوگیا

ظہر کی اذان ڈرائینگ روم میں اپنی شان سے گونج اٹھی تو وہ بغیر کسی توقف کے وضو کرنے چل دیں ٬ اور نماز ادا کرنے لگیں ٬ اتنے میں دوسری سسٹر بھی تشریف لائیں ٬ ٹیبل پر جلدی جلدی کھانا رکھا٬ نماز مکمل کرتے ہی ہم سب ٹیبل پر بیٹھےابھی پلیٹس میں کھانا لے ہی رہے تھے کہ سکائپ پے ایڈمن صاحبہ کی آمد کی بیل سنائی دی ٬ تو سب نے تھوڑا تھوڑا کھانا پلیٹ میں رکھا اور لیپ ٹاپ کے پاس آ گئیں٬

میٹنگ کا آغاز ہوا٬ پلیٹس وہیں کی وہیں کارپٹ پے رہیں اور اہم باتوں کو نوٹ کرتے رہے ٬ میٹنگ اختتام پزیر ہوئی تو دور سے آنے والی سسٹر جو ایک قرآن پاک کی کلاس سے آئی تھیں اپنے بچوں کی سکول واپسی کے لئے فکر مند ہوئیں اور جانے کو فورا تیار٬ دوسری سسٹر نے میرے بیٹے کو جاگتے دیکھا اور اسکی طبیعت کو محسوس کیا تو وہ بھی واپس چلی گئیں ٬

ان کے جانے کے بعد بیٹے کی طبیعت ذرا بہلی تو ٹیبل پر نگاہ دوڑائی ٬ بھاگم بھاگ جو اہتمام کیا تھا وہ جوں کا توں پڑا تھا٬ دونوں خواتین کی اصل توجہ میٹنگ میں طے پانے والے اہم نکات اور ہفتے کو ہونے والی پہلی کلاس کی کامیابی پر مرکوز تھی٬ کھانا کھانے کی ضرورت تھی لیکن کھانا اولیت ہر نہیں تھا٬ بلکہ میٹنگ کی اہمیت اولیت پر تھی٬ مقصد میٹنگ تھی ٬ اور وہ ہو گئی تو لوازمات کی پرواہ کئے بغیر وہ روانہ ہو گئیں ٬ یہی ہے وہ انداز جو اللہ پاک کے کلام سے جُڑنے کے بعد انسان کے اندر خود بخود آجاتا ہے٬ دنیاوی ضروریات کو قربان کر کے صرف اللہ کی رضا کو حاصل کرنا اصل نصب العین بن جاتا ہے٬

بظاہر یہ بات کوئی ایسی خاص نہیں کہ اس کا تزکرہ کیا جاتا لیکن یہ بات ایک دوسرے زاویے سے بہت خاص ہے٬ کچھ عرصہ قبل میں نے ٹی وی پر کچھ مناظر دیکھے تھے ٬ ایک نہیں کئی بار دیکھا کہ مختلف مذہبی مواقعوں پر اور اہم مذہبی تہواروں سیاسی جماعتوں کے جلسوں پر جیسے ہی پروگرام اختتام پزیر ہوتا ہے٬ حاضرین یوں کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے ماضی میں مسلمان سورما کفار کے لشکر پر ٹوٹتے تھے٬ کہیں کھانا لانے والوں سے کھانا چھینا جا رہا ہے تو کہیں پوری کی پوری کھانے کی رقاب ہی چھین لی جاتی ہے٬ نان درجنوں اٹھائے ایک شخص بھاگا چلا جا رہا ہےِ جیسے چوری کر کے پولیس سے خوفزدہ ہو کر خود کو کہیں چھپا لینا چاہتا ہو٬ تو دوسری طرف گوشت شوربے سے بھرے ڈونگے سفید کپڑوں پے رنگین گلکاریاں بناتے ہوئے ہماری ذہنی پستی کا اعلان کرتی دکھائی دیتے ہیں٬

یہ رویّہ ہمیں زیب نہیں دیتا٬ ہم تو کھلانے والے لوگ ہیں کہاں ذہنی تنزلی کہ خود کھانے پے ٹوٹ پڑتے ہیں٬ مومن تو ایک پیٹ سے کھاتا ہے اور کافر دو پیٹ سے ٬ اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آج ہم کیسے فراموش کر کے اپنی امّتی وصف صبر سے خود کو کوسوں دور لے گئے٬ قرآن پاک کی تعلیم زندگی کے ہر شعبے میں شعور تمیز صبر احتیاط دوسروں کا احساس اپنی ذات کی قربانی ٬ اور خلقِ خُدا کی بھلائی کی سوچ کو ابھارتا ہے جہاں مسلمان باشعور انداز میں قرآن کا ترجمہ تفسیر سنتا ہوگا وہاں ایسا جنگل میں منگل دکھائی نہیں دے گا بلکہ آپکو باعتماد پرسکون صابر افراد جو دھیرج سے تحمل سے نشست پر بیٹھتے ہوئے کھانے کے لئے بےصبری کا مظاہرہ کر کے خود کو قوم اُمت کی بجائے”” بھِیڑ”” ثابت نہیں کریں گے٬

بلکہ اگر بھوکےبھی ہوں تو بھی باوقار مہذب قوم اور امت الوسط کا رویہ ظاہر کریں گے٬ جیسے آج میرے گھر میں اِن دو خواتین نے اپنے انداز سے بتایا کہ وہ الحمد لِلہ قرآن پاک کو اپنی ذات کا حصّہ بنا چکی ہیں ان کے لئے خوراک اہم نہیں مقصد اہمیت رکھتا ہے٬ اِن خواتین کے پاس ایک ذمہ داری تھی ٬ ایک مقصد تھا٬ جس نے انہیں کھانے کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا٬ بلکہ فکر نے ذمہ داری نے بھوکے پیٹ ہی روانگی پر آمادہ کر دیا٬

ذہن کھانے کی چھینا چھپٹی کیلیۓ آگے پیچھے بھاگنے والے لوگوں کو ایک فلم کی صورت دکھا رہا تھا٬ تو سوچ آئی ٬ کہ شائد اس قوم کو اس قدر بے سِمت کر دیا ہے ٬ کہ جو شعور جو تہذیب کبھی ان کا ورِثہ تھی آج وہ ان سے چھِنتا دکھائی دے رہا ہے٬ اگر آج بھی کوئی ایسا انسان ہو جو ان میں سوچ بیدار کر دے اور ماضی سے ان کو جا ملائے جہاں غیور صحابہ اکرام تھے ٬ جہاں پیٹ پر پتھر باندھے ساڑھے 5 کلومیٹر طویل خندق کھودی جا رہی تھی٬ کوئی ان کو اُس دور میں لے جائے جہاں ایک مومن دوسرے سے پوچھتا ہے کہ سنائیں صاحب گزر بسر کیسے ہوتی ہے٬ جواب ملتا ہے

جب کچھ نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں اور جب کچھ ملتا ہے تو شکر ادا کر کے کھا لیتے ہیں آپ سنائیے آپ کی طرف کیسے گزر بسر ہوتی ہے؟ پہلے والے صاحب نے جواب دیا صاحب جب کچھ نہیں ہوتا تو شکر کرتے ہیں اور جب کچھ ملتا ہے توسب میں تقسیم کر دیتے ہیں٬ یہ تھے ہمارے اسلاف حرص ہوس سے پاک خالص بندہ مومن یہ مومن یا مومنہ کب بنتے ہیں ؟ قرآن جی ہاں جب قرآن کا پیغامِ ہدایت نور بن کر دل کی زمین میں بیج بو دیتا ہے حصولِ ایمان کا یہی نمونہ آج مجھے دکھنے کو ملا اور دل سے دعا نکلی یا اللہ اب اس قوم کو اس امت کو بھی پھر سے وہی جذبہ شوق عطا فرما اور اس شوق کے حصول کیلیۓ انہیں سرگرداں کر کہ اب بہت ضرورت ہے

احیائے اسلام کی پھر سے آئیے پیٹ کی بھوک سے آگے بڑھ کر خود پر جبر صبر کو لاگو کرتے ہوئے خدمتِ دین کیلیۓ خود کو کہیں نہ کہیں وقف کریں ٬ اور روزِ محشر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روبرو سرخرو ہو کر اپنے ماتھے پے وضو کی چمک سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں پہچان کر اپنے مُبارک ہاتھوں سے حوضِ کوثر سے جام بھر کر پلائیں کہ حشر کے میدان کی قیامت خیز گرمی کو بھول کر ہم مفلحین میں شامل ہو جائیں

بس ذرا خود پر محنت اور توجہ سے یہ تحفہ خاص ہمیں نصیب ہو سکتا ہے تو آئیے بسمہ اللہ کریں اور کھولیں اپنے گھروں میں بند قرآن پاک کو اور بن جائیں اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے امّتی ٬ دیکھتے ہی دیکھتے آپ دنیا کے بے معنی جنجالوں سے آزاد ہو کر خوبصورت پاکیزہ نفیس اور روشن زندگی کا آغاز کردیں گے٬ دنیا بھی محفوظ اور آخرت بھی انعامات سے بھری ہوئی ٬ اس کا اعجاز ہوگی٬ انشاءاللہ ضرورت صرف مقصد تلاش کر کے اس کے حصول کیلیۓ سنجیدگی کی ہے

یہ قوم پھر سے عروج حاصل کر لے گی٬ اور اسے ہر صورت اپنا کھویا ہوا مقصد تلاش کرنا ہے تبھی تو بنے گی یہ امتِ محّمدی انشاءاللہ قرآن پاک کا ترجمہ تفسیر محترمہ عفت ہاشمی صاحبہ کے ہمراہ شروع کریں اور اپنے شب و روز کو حیرت انگیز انداز میں تبدیل ہوتے دیکھیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کیلیۓ کہ حکم ہوگا قرآن پڑہتا جااور سیڑہیاں چڑہتا جا٬ تو آئیے بامعنی با مقصد ترجمہ سن کر اس قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کریں٬ تا کہ روز ِ محشر ہمارا انداز ہمیں اعلیٰ ترین مقامات تک لے جانے کا باعث بنے آمین و آخر الدعوٰنا ان الحمد للہ ربّ
العالمین

تحریر : شاہ بانو میر