تحریر : ممتاز ملک
26 دسمبر 2014 بروز جمعہ کی صبح مجھے اپنی پیاری دوست اور نامور ڈینش رائٹر محترمہ صدف مرزا صاحبہ کیساتھ پیرس میں پاکستانی ایمبیسی جانا تھا جہاں ہمارا سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کیساتھ ملاقات کا وقت طے تھا ۔ ہم لوگ وقت مقررہ پر وہاں پہنچے ۔ مرکزی گیٹ پر اپنا تعارف کرواتے ہوئے ہم جب عمارت کے صدردروازے سے اندر داخل ہوئے تو آن ڈیوٹی آفیسر نے خوشدلی سے ہمیں خوش آمدید کہا ، اور سیکٹری صاحبہ کو فون پر ہمارے آنے کی اطلاع دی ۔ سیکٹری صاحبہ نے خود نیچے کی راہداری میں آ کر ہمیں مسکرا کر خوش آمدید کہا اور ہمیں اپنے ساتھ اوپر کی منزل پر لے کر آئیں۔
اب ہمیں ایک ویٹنگ روم میں سفیر صاحب کے پریس اتاشی جناب طاہر صاحب نے خوش آمدید کہا اور سفیر صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع دی ۔ ٹھیک مقررہ وقت پر ہمیں جناب غالب صاحب نے اپنے آفس کےکمرے کا دروازہ کھول کر ویلکم کیا اور اپنے آفس روم میں آنے کی دعوت دی ۔ ملاقات کے آغاز میں ہم نے اپنا تعارف پیش کیا اور اپنی دوست کو بھی متعارف کروایا ۔ اس کے بعد باتوں کا سلسلہ چلنے سے پہلے انہوں نے اپنے ملازم سے چائے لانے کا کہا۔
باتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس میں کئی معاملوں پر بات ہوئی جس میں فرانس میں اردو پر ہونے والا کام ، کمیونٹی میں آپس کے تعلقات ، بچوں کی پرورش پر ان کے اثرات ، پاکستانی مردوں کا اپنے گھروں کی خواتین کو اپنے ساتھ باہر کے معاملات میں شامل کرنےسے گریز ، فرنچ زبان کے سیکھنے میں پاکستانیوں کی زیادہ گرمجوشی نہ ہونا ، یہاں کے بچوں کو یہاں کی سیاست اور دفتری کاموں کی جانب رغبت دلانا ، مخیر حضرات کو فرانس میں اس جانب متوجہ کرنا کہ وہ یہاں پر اردو زبان میں ڈرائیونگ سکولوں کے قیام کے لیئے کوششیں کریں اور اس میں سرمایہ کاری کریں
۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ ہفتے میں ایک دوگھبنٹے نکال کر مختلف اداروں ، مساجد یا کمیونٹی سینٹرز میں فرنچ زبان سکھانے کا بیڑا اٹھائیں کیوں کہ جب وہ خود اچھی اردو بھی بول سکیں گے تو زیادہ آسانی کےساتھ فرانسیسی زبان کی گرائمر بھی دوسروں کو سکھا سکیں گے ۔ اس کے علاوہ یہاں کے موسمی حالات میں اکثر ڈاکٹر خطرناک بیماریوں سے بچنے کے لیئے سوئمنگ کا مشورہ دیتے ہیں لیکن یہاں خواتین کے الگ سوئمنگ پول نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔
اگر پاکستانی اس میں بھی اپنا پیسہ لگائیں اور مناسب فیس رکھیں تو یہ بھی بہت اچھا کاروبار ہی نہیں بھلائی بھی ہو گی۔ اس کے علاوہ کئی سالوں سے سننے کے باوجود آج تک یہاں کسی پاکستانی نے اردو ریڈیو چینل کھولنے کا کوئی کام نہیں کیا جب کہ یہاں پر دوسرے ممالک کے لوگوں نے بے تحاشا ریڈیو چینلز بنا رکھے ہیں۔ جنہیں کمیونیٹیز کو تعلیم اور تفریح دینے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ ہم نے انہیں اپنے دو شعری مجموعے مدت ہوئی عورت ہوئے اور ” میرے دل کا قلندر بولے “بھی پیش کیئے۔
جب ہم نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ سفیر حضرات کتابیں اور خاص طور پر شاعری کی کتابیں پڑھنے کا شغف بھی رکھتے ہیں یا نہیں ۔ تو غالب اقبال صاحب نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا کہ اور لوگ پڑھتے ہیں یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ہاں میں ضرور پڑھتا ہوں ۔ ان کا یہ جملہ سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ہم پہلے ہی ان کی نیک نامی سن چکے تھے لیکن ان کی وقت کی پابندی ، کام کی لگن اور ملنے والوں کے ساتھ اتنی فراخدلی سے ملاقات کا وقت دینا ہمیں اور بھی ان کی معترف کر گیا ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو باتیں انکے ساتھ زیر گفتگو رہیں ۔ ان پر بھی پورا پورا غور کیا جائے گا ۔ اور ان کے توسط سے کمیونٹی کو بھی ان سلسلوں میں فعال اور متحرک کیا جائے گا ۔
تحریر : ممتاز ملک