تحریر:،فیصل شامی
ہیلو ، میرے پارے پارے دوستوں سنائیں کیسے ہیں ،، امید ہے کہ اچھے ہی ہونگے لیکن ، لیکن،، دوستوں ہم کیا بتلائیں حال آپکو اپنے دل کا کہ کیا حالت ہے کیسی کیفیت طاری ہے ہم پر کیسے بیان کریں جی ہاں سوچ رہے ہیں آپ کو کیسے بتلائیں اور کیا کیا بتلائیں جو ہمارے دل پر گزری ،، اور کیا ہوا ہمارے ساتھ آپ کو بتائیں تو آپ بھی حیران و پریشان سے ہی ہو جائیں گے جی ہاں دو وستوں جو واقعہ آپ کو بتلانے لگے ہیں وہ وہ کسی اور کی نہیں ہماری اپنی ہی کہانی ہے ، جی ہاں ہوا کچھ اس طرح کہ نو جنوری کی رات ہمارے چھوٹے سے ننھے منے صاحبزادے جناب مصطفیٰ نے فرمائش کردی بابا ہریسہ کھانا ہے گوالمنڈی چلو ،،، ہم نے بہت ٹالنا چاہا لیکن مصفیٰ صاحب تو ٹس سے مس نہ ہوئے اور مجبورا ہمیں ان کی بات ماننا پڑی اور تقریبا رات گیارہ بجے کے قریب گھر سے نکلے ،،
اور گوالمنڈی پہنچے اور گاری ہریسہ کھانے کے لئے پارک کی اور گاڑی میں بیٹھ کر ہی کھانے کا آرڈر کیا ،، اور جب ویٹر کھانا لے کر آیا تو ہم نے بوتلیں منگوائی اور ویٹر بوتلیں پکڑا کر چلا گیا جیسے ہی ویٹر بوتلیں پکرا کر نکلا ،، میرا دھیان کھانے کی طرف تھا ،، تو اچانک ہی بیگم صاحبہ کہنے لگیں کہ شیشہ بند کر لیں مانگنے والا ہے تنگ کر رہا ہے اور جب بیگم صاحبہ نے اتنا کہا تو ہماری نظریں بھی اچانک اس نوجوان پر پڑی جس نے پیلے رنگ کی جیکٹ اور برائون رنگ کی پینٹ پہنی ہوئی تھی نے ہمیں رات کے اندھیرے میں چلتی روڈ پر پسٹل دکھایا ،، اور مجھے کہنے لگا جلدی کر ، موبائل پکڑا ،، او ر پستول میرے سامنے سیدھی کر دی ،،،،،،، تاہم اللہ کا شکر تھا کہ ہم اپنے ہوش و ہواس میں رہے ، تاہم میں نے نوجوان کا پستول والا ہاتھ نیچے کیا
کہا یار موبائل چھوڑ پیسے لے لو ، اور اتنا کہہ کر میں نے جیب میں ہاتھ نکالا اور پرس نکال کر کھولنے ہی لگا تھا کہ اس نوجوان نے جھپٹا مارا اور پر س جس میں تقریبا پچیس ہزار موجو د تھا اور چند ضروری کاغذات موجود تھے چھین لیا اور پرس چھینتے چھینتے نوجوان نے ڈیش بورڈ پر پڑے ٹیبلٹ پر بھی جھپٹا مارا اور اٹھا کر اس قدر تیزی ساے بھاگا کہ سجمھ ہی نہ آیا،وہ بھاگا اور سامنے کھڑی موٹر سائیکل جس پر دو لڑکے پہلے سے ہی بیٹھے ہوئے تھے دوڑ کر موٹر سائکل پر بیٹھ گیا اور یہ جا وہ جا ،،،،،،،،، اور وہ لڑکا جیسے ہی باہر بھاگا میرے ہمراہ موجود بلال جو کہ ہمارے صاحبزادے کے ماموں ہیں نے باہر نکل کر شور مچایا ، چور چور ، اور میں نے گاڑی سٹارت کی اور کھانے کی ٹرے اپنے ہاتھ سے سامنے ڈیش بورڈ پر رکھی اور موٹر سائکل کے پیچھے گاڑی بھگا دی
لیکن وہ موٹر سائکل سوار ڈکیت دیکھتے ہی دیکھتے آنا فا نا غائب ہو گئے کدھر گئے کچھ سمجھ نہ آئی ،،، تاہم میں نے گوالمنڈی چوک تک گاڑی پیچھے بھگائی لیکن وہ یوں غائب ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ،،،تاہم گوالمنڈی چوک پر ہمیں پولیس اہلکار نظر آئے جو گوالمنڈی چوک کے ساتھ ہی ناکہ لگا کے کھڑے تھے انھیں دیکھتے ہی ہم نے شور مچا دیا اور وہ ہمارے شور مچانے پر گھبراگئے ،، اور ہم نے انھیں وقوعہ کے بارے بتایا تو وہ ہمارے ساتھ فورا جائے وقوعہ پر پہنچے تاہم ہم جب پولیس اہلکاروں کے ساتھ جائے وقوعہ پہنچے تو اتنی دیر میں بہت سے لوگ بھی جمع ہو گئے
بہت سے لوگوں نے دیکھا لیکن کوئی بھی ہماری مدد کے لئے آگے نہ بڑھا ،، تاہم پولیس اہلکاروں نے بھی جائے وقوعہ کا جائزہ لیا ،اور ہمیں تسلی دی کہ آپ صبح موبائل کا ڈبہ لے آئیں ہم انشاء اللہ آپ کا موبائل اور نقدی برامد کروا لینگے ،، تاہم اتنی دیر میں ہم نے ون فائیو پر بھی فون کر نی کی کوشش کی لیکن ہمارے پاس موبائل نہ تھا تاہم ہم نے جہاں کھانا کھا رہے تھے ان سے موبائل مانگا لیکن انھوں نے موبائل نہ دیا تاہم گوالمنڈی چوک میں کھیر و دودھ دہی کی مشہور دکان ہے جہاں سے ہم اکثر اپنے ننھے منھے مصطفی کے لئے کھیر لیتے ہیں ، تو ہم نے دکان پر گاڑی روکی اور چھوٹے بچے کو آواز دی بچہ آیا تو میں نے اس کو کہا کہ بیٹا موبائل دینا ون فائیو پر فون کر نا ہے ہمارے ساتھ ڈکیتی ہو گئی ، اچھا چھا تو وہ آپ تھے ،مطلب ایکدم گوال منڈی میں شور پڑا ڈکیتی ہو گئی تاہم اس بچے نہ کہا کہ یہ تو یہاں روز کا معمول ہے
شکر کریں جان بچ گئی ، اتنا کہہ کر چھوٹے بچے نے اپنا فون ہمیں دیا اور ابھی ہم ون فائیو پرفون کر ہی رہے تھے کہ موبائل میں بیلنس ختم ہو گیا ، ہم نے بچے کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہم وہاں سے ماشاء اللہ تکہ کڑاہی پر آئے اور انکل سے موبائل لیا اور انکو واقعہ تفصیل سے بتایا ، ون فائیو پر اظہار الحق صاحب سے بات ہوئی انھوں نے کہا کہ آپ تھانے چلے جائیں اور درخواست دے دیں ، تاہم ہم نے انھیں اچھا جی کہہ کر فون بند کر دیا اور وہاں سے دفتر آگئے ،، اور دفتر سے دوبارہ ون فائیو پر کال چلائی تو ون فائیو سے جواب موصول ہوا کہ آپ نے پہلے بھی کال چلائی تھی ایس ایچ او صاحب آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں میں نے کہا بھائی جی موبائل تو ڈکیت لے گئے
پھر میں نے ایس ایچ او گوالمنڈی کا نمبر لیا اور ان سے بات کی تو انھوں نے بھی یہی کہا کہ آپ پر یشان نہ ہوں تھانے آجائیں ایف آئی آر درج کر دینگے ،، تو میں نے کہا کہ اب رات بہت ہو گئی ہے بچے میرے ساتھ ہیں ، میں کل صبح آجائوں گا تھانے ،، تاہم اگلی صبح میں تھانے پہنچ گیا جہاں ایڈمن آفیسر محترم جمشید نے ہماری شکایت تفصیل سے سنی اور تھانے کی گاڑی ہمارے ساتھ ایک دفعہ پھر جائے وقوعہ پر بھیجا ۔،، جگہ کے معائنے کے لئے ، تاہم ہم نے اورجب ہم تھانے کی گاڑی ساتھ لے کر پولیس والوں کو جائے وقوعہ دکھانے لے تو ہوٹل ملازمین کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے انھیں کچھ پتہ ہی نہیں ، کچھ ہوا بھی ہے یا نہیں ،،، ، ،،، بہر حال پھر ہم پولیس والوں کو جائے وقوعہ کا معائنہ کروا کر دوبارہ تھانہ گوالمنڈہی آئے جہاں جناب جمشید صاحب نے ہم سے درخواست لکھوائی اور ہمیں کہا کہ آپ کی ایف آئی آر در ج ہو جائے گی
اپنا رابطہ نمبر دے دیں لیکن ہمارے پاس رابطہ نمبر کو ئی نہیں تھا ،،، ہم نے جمشید صاحب کو جواب دیا کہ ہم آپ سے خود رابطہ کر لیںگے تاہم ہم نے اس بات پر زور دیا کہ کہ ہماری آپ نہ صرف ایف آئی آر کاٹیں بلکہ ملزمان کو پکڑ کر ہمارامال مسروقہ جس میں موبائل اور پچیس ہزار روپیہ نقد بر آمد کروایا جائے تاہم ہم تھانے درخواست دے کر تھانے سے باہر نکلے اور سم نکلوانے کے لئے موبائل کمپنی کے دفتر پہنچے تو معلوم پڑا کہ دن بھر نادرا کا سسٹم ڈائون رہا اس لئے کسی کو نہ نئی سم دی جا سکتی ہے اور نہ ہی گمی ہوئی سم نکلوائی جا سکتی ہے، جس سے ہمیں تو پر یشانی بھی ہوئی لیکن ہمارے ساتھ بے شمار لوگ اور بھی پر یشان سے نظر آرہے تھے ،،،،،،،،
جی ہاں وہ اسلئے کہ شائد موبائل فون آج کل کی ضرورت بن چکی ، جی ہاں مختصر وقت میں موبائل فون پر جہاں چاہے رابطہ کر کے دنیا بھر کے کسی بھی کونے میں بڑے آرام سے بات کی جاسکتی ہے ، تاہم زیادہ افسوس موبائل کے گم ہونے کا نہیں ہو تا لیکن سم میں موجود نمبروں کے گم ہونے کا بہت افسوس ہو تا ہے ،،،
بہر ھال ،، سم نہ ملنے کی وجہ سے مزید پر یشانی ہوئی کہ موبائل پھر بند بہر حال دوستوں یہ سارا واقعہ آ پ کے پیارے سے دوست کے ساتھ پیش آیا جی ہاں سیانے کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں ہمیشہ سوچ سمجھ سے کام لینا چاہئیے
بہر حال ہمیں تو حیرت اس بات پر بھی ہے ایک طرف تو گوالمنڈی پولیس کا ناکہ لگا تھا جبکہ اسکے بالکل سامنے دوسری جانب ڈاکو چوروں ، ڈکیتوں کو اپنی کاروائی کر نے کے لئے بھر پور آزادی تھی ، جس سے وہ بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے ، بہر حال اسلحہ کی نوک پر موبائل چھینے ، نقدی چھیننے ، موٹر سائکل اور گاڑی چھینے کی واقعات میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے جو کہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے
بہر حال کتنے افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ پولیس اہلکاروں پر ماہانہ کھربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ،، لیکن نپھر بھی پولیس اہلکار امن و امان کی صورتحال پر قابو نہیں پاسکتے ،،، شہریوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتے ،،، جی ہاں بڑھتی ہوئی چوری ڈکیتی ، کی وارداتیں نہ صرف عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہیں بلکہ پولیس اور حکومتوں کے لئے بھی وبال جان ہیں ،بہر حال تو ہمارا کیا ہمارے بہت سے دوستوں کا بھی حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ چوروں ڈکیتوں کا صفایا کر نے کے لئے بھی بھر پور اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام سکھ و چین کا سانس لے سکیں ،، بہر حال اجازت چاہتے ہیں دوستوں آپ سے ملتے ہیں جلد ایک بریک کے بعدتو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا ،
تحریر:،فیصل شامی