تحریر: اقرا سیف
میرا قلم جو بہت تیزی سے چلتا ہے آج اس کالم کو دیے گئے عنوان کو دیکھ کر چلنے سے انکاری ہے لفظ جیسے غم کی اڑتی دھول میں کہیں کھو سے گئے ہیں اور میں خود جو حروف تہجی کو توڑ مروڑ کر اسے برتنے کا فن جانتی ہوں آج بالکل ساکن ہوں مجھے لگتا ہے اب میں پتھر کی ہو چکی ہوں کہ اگر میں ہاتھ ہلانے کی بھی کوشش کروں تو نہیں ہلا پاوں گی آنسو میری آنکھوں کے کناروں پر ہی جم چکے ہیں کیونکہ وہ بہنے سے انکاری ہیں میں شاید اب کسی بھی طرح کا کوئی بھی احساس محسوس کر نے سے قاصر ہوں شدید سردی اور اندھیرے کی طرح چھائی دھند بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں کر رہی سب کچھ مفلوج ہو چکا ہے سوائے میری سماعت کے۔
ہاں میں اب بھی سن سکتی ہوں مگر صرف ولید ابو ہریرہ کی آوازمیں اگر محسوس کر سکتی ہوں تو صرف اس معصوم بچے کے چہرے پر رقم کرب اگر دیکھ سکتی ہوں تو اس معصوم بچے کے مسخ چہرے کو جو خود کو پہچاننے سے انکاری تھا اور خدا وباری تعالی سے دعا کر رہا تھا کہ “کاش ہم بھی شہید ہو جاتے” 16 دسمبر 2014 کا چڑھتا سورج شاید لوگوں کے لیے روشنی کی کرن ثابت ہو تا یا انرجی کا منبع بنتا لیکن اس دن تو سورج نکلاہی نہ تھا اور دہشت گردوں کی سفاکیت کی بھینٹ 135 معصوم بچے چڑھ گئے وہ غنچے جو ابھی ٹھیک سے کھلے بھی نہ تھے انہیں سرخ خون میں نہلا دیا گیا وہ جو حصول علم کے لیے اپنے کندھوں پر بستہ لٹکائے ننھے ننھے ہاتھوں سے دروازے پر کھڑی ماں کو خدا حافظ کہتے اسکول گئے اور وہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں سیدھے جنت چلے گئے ،
مائیں دروازے تکتی رہ گئیں
بچے اسکول سے جنت چلے گئے
135 شہید ہونے والے بچے ابدی نیند سو گئے جہاں ان کے لیے جنت اور اسکی بے شمار لذتیں ان کی منتظر ہیں.بلاشبہ اس سانحے پر لگے زخم پر اتنی جلدی کھرنڈ نہیں آسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے ۔اب بات کروں گی ان 245 بچوں کی جو گورنمنٹ ہسپتالوں میں پڑے کسی خدائی مدد کے منتظر ہیں جو روز پل پل جیتے اور پل پل مرتے ہیں جو اپنے مسخ چہرے کو پہچاننے سے انکاری ہیں جن کے زخموں پر سرکاری ادویات آرام پہچانے سے قاصر ہیں اور وہ شدت کرب سے چور بہت مایوس کن لہجے میں یہ دعا کر رہے ہیں کاش ہم بھی شہید ہو جاتے اس پل پل کے مرنے سے بہتر تھا ایک ہی پل میں مر جاتے اور سکون آور نیند سو جاتے ان کو اس مایوسی کے اندھیروں سے ان کے والدین بھی نہیں نکال سکتے
وہ اپنے بچوں کو جھوٹی آس نہیں دلانا چاہتے وہ انہیں یہ امید تہمائئں بھی تو کس بنیاد پر کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے ان کے مسخ چہروں کو پلاسٹک سرجری سے نئی شناخت مل جائے گی اس ننھے ولید ابو ہریرہ کا یہ سوال مجھے سوچ کی گہری وادیوں میں دھکیل گیا، “کیا ملالہ کی طرح ہمیں بھی حکومت علاج کے لئے باہر کے ملک بھیجے گء کیونکہ ہم بھی تو طالبان کا نشانہ بنے ہیں” سرکاری ہسپتالوں میں 245 بیڈوں پر پڑے ہر ولید ابو ہریرہ کی زندگی جینے کی امید اسی ڈور سے بندھی ہے اس لیے میری حکومت وقت سے اپیل ہے
وہ ان بچوں کو بہترین علاج مہیا کریں اور ان کی سرجری کے لیے سرکاری خزانے میں سے رقم مختص کریں کیونکہ ان کے غریب والدین یہ لاکھوں روپے کا علاج فراہم کرنے سے قاصر ہیں ان کے لیے باہر کے ممالک سے بہترین سرجن منگوائیں جائیں کیونکہ پاکستان میں سرجن کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے جو ہیں وہ اس قدر مہنگے کہ والدین اپنی جیب کو دیکھتے ہوئے وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ان معصوم بچوں کو سرکاری ہسپتالوں سے پرائیویٹ ہسپتال میں شفٹ کر دیا جائے جہاں ان کی بہترین نگہداشت ہو سکے،زندگی اور موت کے درمیان پنڈولم کی طرح ڈولتی امید جو پیک پوائنٹ پر پہنچ کر یہ دعا مانگتی ہے
کاش ہم بھی شہید ہو جاتے اور لیسٹ پوائنٹ پر آکر مدد طلب نظروں سے حکومت وقت کی طرف دیکھتی ہے، اس یقین اور بے یقینی کی کیفیت کو کسی منزل کا پتا دے دیں تاکہ مرنے کی دعا مانگتے یہ بچے زندگی جینے کا جواز ڈھونڈ لیں موت کا ورد کرتے یہ لب زندگی سے بھرپور ترانے گائیں اور وقت پڑنے پر اس وطن عزیز کیلئے سینہ تانے کھڑے ہو ں اور دشمنوں کو یہ بتلائیں کہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے حادثات ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
تحریر: اقرا سیف