تحریر : پروفیسر مظہر
پتہ نہیں کب دورِ کرب شگفتِ بہار میں تبدیل ہو گا ، پتہ نہیں کب نا امیدیوں کے لق ودق صحرا میں میں اُمید کی کلیاں کھلیںگی ،پتہ نہیںکب ہماری ہی ضیاء سے منورہونے والے ہم سے کراہت وبیگانگی کاوطیرہ چھوڑیںگے ،پتہ نہیںبے برگ وثمر کھیتیاں کب ہری بھری ہونگی ،پتہ نہیں کب صحنِ چمن میں کوئل کوکے گی اور پپیہا ”پی کہاں” کی رَٹ لگائے گا اور پتہ نہیںکب ہماری دعائیںعرشِ بریںتک پہنچیںگی۔ لیکن ایساتو تبھی ہو گا جب ہم اپنے مَن میں ڈوب کر زندگی کا سراغ لگانے کے اہل ہونگے ۔ آقا نے توفرمایا ”وہ طویل سفر میں ہے ،پراگندہ حال ،غبارآلود ،دونوںہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاکر کہتاہے ،اے رَب ،اے رَب! مگر اُس کاکھانا حرام ،پیناحرام ،لباس حرام اورغذا حرام ۔بھلا ایسے شخص کی دعاکیسے قبول ہوسکتی ہے ”۔ہماری دعائیںبھی تبھی مستجاب ہونگی جب ہمارے ایمان وایقان کوقُرآن وسنت کی وہی بنیادفراہم کردی جائے گی جسے مضبوطی سے تھام لینے پرکبھی گمراہ نہ ہونے کاوعدہ خودمیرے آقا نے فرمایاہے ۔لیکن ہم تومن حیث القوم تارکِ قُرآںہیں۔اِس کتابِ حکمت کی حفاظت کاذمہ توخود ربِ لَم یزل نے لیاہے لیکن تفسیر،تشریح اورتاویل ہماری اپنی اپنی ۔یہی وجہ ہے کہ معاملہ مذہبی ہو، مسلکی یا ملکی ہم کہیںبھی یکسونظر نہیںآتے۔
اکیسویں ترمیم منظورہوگئی اور کھلی آنکھوںسے تویہی نظر آرہاتھا کہ یہ ترمیم ”مقتدرقوتوں”کی خواہش ،ایماء اورطاقت کی بناپر پایۂ تکمیل کوپہنچی لیکن مقتدرقوتیں بھی اِس ترمیم کومتفقہ قراردلوانے میں ناکام رہیں ۔جب پہلی اوردوسری آل پارٹیزکانفرنسوں میںسب کچھ طے ہوچکا تھا توپھر تیسری کانفرنس میں پتہ نہیںاچانک کیاہوا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے پارلیمنٹ میںآنے سے انکار کردیا ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ سانحہ پشاورکے معصوموںکے لہوکی خوشبوابھی تک فضاؤں میں ہے لیکن ہم بکھرچکے ۔سول سوسائٹی کو اکیسویںترمیم منظورنہیں ،وکلاء اِس ترمیم کے خلاف کمربستہ ،اعلیٰ عدالتوںمیںاسے چیلنج کیا جاچکا ،نئی آئینی بحثوںاور قانونی موشگافیوں کے دروازے کھُل چکے ،
الیکٹرانک میڈیا پر بحث جاری ،اینکرز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکرمیں ملّی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کمربستہ ،مساجد ،مدارس کے معاملے پردینی جماعتیںمیدان میں آچکیں،سندھ میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی باہم دست وگریباں اور محترم عمران خاںبھی سانحہ پشاورکو فراموش کرکے ایک دفعہ پھر سڑکوںپر آنے کے لیے بیتاب ۔کیاقومی اتحاد اسی کانام ہے اورکیا جنگیںایسے ہی لڑی جاتی ہیں؟۔ کیا تاریخِ عالم میںکبھی ایساہواکہ پارہ پارہ قومی اتحادکے دامن سے فتح ونصرت کے شادیانوںکی گونج سنائی دینے لگے۔
مسلٔہ اتنابڑا تونہیں تھا کہ حل نہ ہوپاتا ۔آج وزیرِاعظم کہتے ہیں”ہم سب کوساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیںاور ملک کوجو حالات درپیش ہیں ،کوئی بھی جماعت تنہا اُنکا مقابلہ نہیں کرسکتی ،آئینی ترمیم پر تحفظات دورکیے جائیںگے ”۔سوال مگر یہ ہے کہ ایسا پہلے کیوںنہیں کیاگیا ،وکلاء اور سول سوسائٹی کواعتماد میںکیوں نہیں لیاگیا اور دینی جماعتوںکے تحفظات کیوںدور نہیں کیے گئے اورنواز لیگ کو اکیسویںترمیم کی منظوری کروانے کاسہرا اپنے سَر بندھوانے کی اتنی جلدی کیوںتھی ۔اگر دوچار دن اورصبر کر لیاجاتا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑتی دینی جماعتوںکو اعتراض ہے تو فقط اتناکہ دہشت گردی کی جو تعریف کی گئی ہے وہ صرف مذہب ،عقیدے اور مسلک کے گردگھومتی نظرآتی ہے ۔نیوزچینلز اوراخبارات میںبھی یہی اشتہارات آتے رہتے ہیںکہ مسجدوں اورمدرسوں پر نظررکھیں اورجہاں کہیں دہشت گردنظر آئے اُس کے بارے میںرپورٹ کریں جبکہ ہمارے وزیرِداخلہ اوروزیرِاطلاعات ونشریات یہ بھی فرماتے ہیں کہ صرف دَس فیصد مدارس ایسے ہیںجہاں دہشت گردوںکو پناہ دی جاتی ہے یا دہشت گردی کی تعلیم ۔مذہبی جماعتوںمیں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیںجو دہشت گردوںکے خلاف ایکشن کی مخالفت کرتی ہویا اُسے ملٹری کورٹس پراعتراض ہو ۔اعتراض ہے توصرف یہ کہ دہشت گردکا کوئی مذہب ہوتاہے نہ مسلک جبکہ اکیسویںترمیم صرف مذہب ،مسلک اورفرقے کے گردگھومتی نظر آتی ہے اِس لیے دہشت گردی کی یہ تعریف نہ صرف ادھوری بلکہ مہمل بھی ہے ۔عالمی قوتیںتو پہلے ہی دہشت گردی کے ناطے اسلام سے جوڑنے کے لیے کوشاںنظر آتی ہیں ،اگراِس ترمیم کوصرف مذہبی انتہاپسندی تک محدودکر دیاگیا توپھر ہم نے گویا اُنکی بات پر مہرِتصدیق ثبت کردی۔
وثوق سے کہا جاسکتاہے اگر اکیسویںترمیم کی آڑمیں صرف مذہب ،مسلک اور عقیدے کودہشت گردی کی بنیادبناکر مدارس اورمساجد کونشانہ بنانے کی کوشش کی گئی توملٹری کورٹس توناکام ہونگی ہی ،ملک میں انارکی بھی پھیل جائے گی ۔ہماری ایجنسیوںکے پاس کم وبیش ایسے دوسو مدارس کی مکمل معلومات ہیںجو جہاںدہشت گردوںکو پناہ دی جاتی ہویا جہادکے نام پر دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو ۔ایسے مدرسوںکے خلاف ایکشن پرکسی دینی جماعت کواعتراض ہے نہ ہوناچاہیے لیکن ایجنسیوںکے پاس ایسی معلومات سیاسی جماعتوںکے بارے میںبھی ہیں ۔پھرصرف مساجداور مدارس کیوں،عسکری ونگ رکھنے والی ،ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروںکی سرپرستی کرنے والی لسانی اورسیاسی جماعتیں کیوںنہیں ۔شرجیل میمن کہتے ہیں کہ سندھ میںٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کے تین ہزارکیسز زیرِالتواء ہیں ۔کیاہماری ایجنسیاں نہیںجانتیں کہ اِن ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروںکی غالب اکثریت کاتعلق کس جماعت سے ہے ؟۔
عروس البلاد اورروشنیوں کاشہر کہلانے والاکراچی عرصۂ درازسے خونم خون ہے ۔اِس شہرِکم نصیب میںصرف طالبان اور القاعدہ ہی نہیں،لسانی ،فرقہ واریت اور سیاسی عناصربھی ٹارگٹ کلنگ میںمصروف ہیں اور اب تویہ حال ہے کہ کراچی میں جنگجوؤں کی بھرتی کے مرکزتک کھُل چکے ہیں ۔کیاکراچی میںہونے والی دہشت گردی کسی کونظر نہیں آتی ؟۔کیایہ غلط ہے کہ ایک سیاسی جماعت ہردوسرے دِن کراچی محض اس لیے بندکروا دیتی ہے کہ پولیس اور رینجرز کے مطابق جودہشت گردقرار پاتاہے ،وہ اُسی جماعت کامعصوم اوربے گناہ کارکُن نکلتاہے ؟۔مسجد ،مکتب اور مسلک کی آڑ میںہونے والی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آپریشن پر کسی کو اعتراض نہیںلیکن یہ آپریشن صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتاہے جب سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بِلا امتیاز کیاجائے۔
تحریر : پروفیسر مظہر