تحریر : جاوید صدیقی
سیاست نام ہے حکمت و دانائی کا، سیاست نام ہے تدبر اور برداشت کا، سیاست نام ہے عقل و شعور کا، سیاست نام ہے عوامی خدمت کا، سیاست نام ہے سچ و حق کا، سیاست نام ہے ایثار و قربانی کا، سیاست نام ہے تہذیب و ادب کا، سیاست نام ہے تحفظ جاں کا، سیاست نام ہے ترقی و تمدنی کا، سیاست نام ہے خوشحالی و خوشی کا، سیاست نام ہے امن و سکون کا، سیاست نام ہے تعلیم و ہنرکا۔۔۔۔ مندرجہ بالا سطور میں نے سیاست کی اصل اساس اور بنیاد کے پیش کیئے ہیں ، مجھے یہ تمام سیاسی سبق اپنے ہی مقدس اور عظیم پیارے نبی ﷺ اور ان کے بعد ان کی اطاعت کا حق ادا کرنے والے اصحاب کرام کے دور حکومت اور نظام ریاست میں نظر آیا ہے، دینی سیاسی جماعتیں ہو یا دنیاوی سیاسی جماعتیں ایک عرصہ سے ان میں منافقت ، عیاری و مکاری ، جھوٹ دائروں میں قیود ہیں، چہروں پر نحوست اور پھٹکار اس بات کی شاہد ہے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے بر خلاف عمل کرکے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے دین کا ڈھال بناکر نہ صرف عوام کو گمراہ کرنا ہے
بلکہ مملکت اسلام کو نا تلافی نقصان سے دوچار بھی کرنا ہے، یہود و نصارا کی غلامی اور اسلام دشمنوں کے آلہ کار بنکر یہ ناسور نہ سرف پاکستان کیلئے اذیت ناک ہیں بلکہ دین اسلام کیلئے بھی ایک دھبہ ثابت ہورہے ہیں۔ہسٹری کا مطالعہ کریں تو بہت سارے لیڈر بے نقاب ہوجائیں گے انہی لیڈروں کی اطباع کرنے والے موجودہ لیڈران کی حالت ان سے کہیں زیادہ بدتر نظر آتی ہے۔ دین اسلام میں تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اورحکم فرمایا گیا ہے کہ تلاش کرو اللہ کی نعمتوں کو آسمانوں کی بلندیوں، زمین اور سمندوں کی تہہ میں ۔پھر ریاست کے نظام کے متعلق واضع ثبوت دنیا کی پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ کی ہے جس کو آنحضورﷺ نے نہایت سلیقے، قرینے اور اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق عملی پیش کیا گیا ہم سب امت کیلئے۔۔۔!! خلفہ راشدین کا دور اور بعد کے دور میں بھی تعلیم و تحقیق پر بہت زیادہ کام کیا گیا اسی لیئے سائنس کے ہر شعبے میں مسلم موجدوں کا نام آتا ہے اور آج تک دنیا کے کئی براعظم بالخصوص یورپ
میں انہی کے علوم اور طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جدت کا عمل آگے بڑھایا گیالیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے دین اسلام ، مسلم خلفا اور مسلم تحقیق دانوں سے کچھ نہیں سیکھا۔۔اگر پاکستان کی بات کی جائے تو قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد سے ہی دشمنانا ن اسلام اور پاکستان نے مختلف لبادوں میں پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کی تمام تر کوششیں جاری رکھیں اور کہیں ریاست کی باگ ڈور میں شامل ہوگئے تو کہیں کاروبار اور تعلیم و صحت کے نظام کو نیست و نابود کرنے کیلئے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔پاکستان کو دو لخت کرنے والے سیاسی لیڈر و جماعتیں اورکچھ بیوروکریٹس نے اپنا اپنا خاص کردار ادا کیا، جمہوریت کے بے تاج بادشاہ کہلانے والے بھٹو نے تعصب کی چھڑی سے نظام کو برباد کیا،اس وقت کی سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کی خاطر چپ سادھ لی ،پھر سونے پر سہاگہ جنرل ضیاالحق نے افغانیوں کو پناہ دیکر ملک کے داخل کرکے رہی سہی کسر پوری کردی،پھر تو جیسے دشمن کو اپنے مقاصد کیلئے راستے ہموار نظر آئے۔ آج جو حالات پاکستان کے نظر آرہے ہیں یہ کوئی ایک دن یا ایک سال کا مشن نہیں ان حالات کی وجہ وہی ادوار ہیں جنکا ابھی زکر کیا ہے میں نے۔
برسوں کی سازش لمحون میں ختم نہیں ہوسکتی نہ عمران خان ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری۔اس کیلئے خود عوام کو بدلنا پڑیگا اور جب عوام اپنے آپ کو بدلے گی تو سیاسی منافقت کا خاتمہ خود بخود ہوجائیگا، کاروبار کرنے والے اشخاص بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں،اگر کاروباری حضرات ایمان اور سچائی کیساتھ مناسب منافع پر خرید و فروخت کریں تو ملک کی خوشحالی اور بہتری میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، ڈاکٹرز اپنی فیس مناسب رکھیں تو کئی بیمار شفا یاب ہوسکتے ہیں ، نجی تعلیمی ادارے اپنی فیس مناسب کرلیں تو یقینا زیادہ سے زیادہ بچے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں گے، اگر حکومتی ادارے اپنی فرائض منصبی کو پوری ایمانداری سے احسن طریقے پر ادا کریں تو یقینا کرپشن، بدعنوانی اور رشوت کا خاتمہ یقینی ہوگا ۔ جب جب اداروں، محکموں،کاروباری مراکز، نوکر شاہی طبقے نے ٹھان لیا کہ وطن عزیز کی خاطر ایمانداری، سچائی کیساتھ اپنی اپنی خدمات پیش کریں گے تو یقینا پاکستان میں نہ تفرقہ ہوگا، نہ تعصب،نہ اقربہ پروری اور نہ بے انصافی۔۔دین اسلام نے دینی علوم کیساتھ دنیاوی علوم کو حکم بھی دیا ہے تاکہ مسلمان دنیا مین رہتے ہوئے اچھا انسان اور اچھا مسلمان بن کر جیئے۔ قرآن میں فرما دیا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری دنیا کے انسان کے قتل کے برابر ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری دنیا کے انسان کی جان بچانے کے مترادف قرار دے دیا گیا،
یہ فرمان نہ میرا ہے نہ تیرا ،یہ اللہ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے جس سے رو گردانی کرنے والا دائرے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کہیں دولت کے حصول مین ، کہیں طاقت کے نشے میں تو کہیں فرقہ کی ضد میں قتل گری کیوں کی جاتی ہے ؟؟ یقینا ایسے لوگ نہ مسلمان ہیں نہ انسان اور ان کی پشت پناہی کرنے والے سب سے زیادہ مجرم ہیں۔پاکستان میں سب سے زیادہ احتساب ان لوگوں کو کیا جانا ضروری ہے جو جرم کی پشت پناہی کررہے ہیں چاہے وہ منتخب نمائندے ہوں یا مذہبی لیڈریا سیاسی ہوں یا بیوروکریٹس۔ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں سزا کو سخت رکھا گیا ہے تاکہ جرم کم سے کم ہو اور موت کی سزا سب سے زیادہ امریکہ اور یورپ میں دی جاتی ہے اسلامی ممالک میں سعودی عرب شامل ہے تو پھر پاکستان پر موت کی سزا پر سختی سے عمل کیوں نہیں کرایا جاتا۔ بڑی بری باتیں کرنا ہمارے سیاست دانوں کا شیوہ ہے مگر عمل کرنا نا ممکن ،
کیونکہ اگر عمل کرلیا گیا تو نوے فیصد سیاستدان ننگے گھڑے ہونگے کیونکہ ان کے کاروبار ہی جرم میں پنپتے ہیں اور قانون کو اپنی لونڈی بناکر تحفظ حاصل کرلیتے ہیں ، جس ملک میں قانون بکتا ہو وہاں انصاف کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عدالتیں فروخت ہوتی ہیں ،صبح پیشکار سے لیکر ججز تک رشوت اور کیسز کے بھاؤ طے ہوتے ہیں ، پاکستان میں عدالتوں کا احکامات امراکے حق میں نظر آتے ہیں یا پھر مجرموںکے، قانون مجرموں سے خوف کھاتا ہے کیونکہ مجرم اپنے خلاف فیصلہ سننے سے پہلے ہی جج کو ہلاک کردیتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی پولیس ہے جہاں انسپکٹر جنرل سے لیکر ایک سپاہی تلگ تمام کے تمام سیاسی انتخاب کیلئے جاتے ہیں اور تو اور تھانے علاقوں کی نسبت بولی لگائی جاتی ہے جو سب سے زیادہ رقم یا سیاسی وفا داری پیش کرتا ہے اسے دے دیا جاتا ہے۔ کیا کیا بیان کیا جائے بس صرف ایک بات اگر پاکستان مین سیاست منافقت سے دور چلی جائے یا پھر سیاست سے منافقت ختم ہوجائی تو ہم بہتر حالات میں رہ سکیں گے ورنہ بد قسمتی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین ثما آمین ٔٔٔٔٔٔ
تحریر : جاوید صدیقی
ای میل: Journalist.js@hotmail.com
رابطہ: 03332179642 & 03218965665