تحریر: پروفیسررفعت مظہر
گزری اتوار عبدالماجد ملک کی کتاب ”سوچ نگر” کی تقریبِ رونمائی میں جانے کا موقع ملا ۔ماجد کے بلاوے میں اصرار اور خلوص ہی اتنا تھا کہ ڈھونڈے سے بھی معذرت کے الفاظ نہ ملے۔ تقریب میں جاکر احساس ہوا کہ اگرمیں معذرت کرکے گھر بیٹھ رہتی تو ایک خوشگوار دِن گزارنے کا لطف کھود یتی۔ تقریب کے صدر نشیں محترم سجاد میر اور مقررین میں نمایاں ڈاکٹر اجمل نیازی، نجم ولی خاں، گلِ نو خیز اختر ، مظفر محسن، فرخ شہباز وڑائچ ،ناصر محمود ملک اور کچھ دوسرے لوگ شامل تھے۔مجھے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے کہا گیا لیکن میں نے معذرت کرلی کیونکہ کچھ نجی مصروفیات کی بناپر میں تو ”سوچ نگر”کے داخلی دروازے پر دستک تک بھی نہ دے سکی تھی۔ ویسے کچھ مقررین نے میری طرح یہ اعتراف تو ضرور کیا کہ اُنہیں سوچ نگر کے مطالعے کا وقت نہیں ملا لیکن پھربھی وہ لمبا چوڑا اظہارِ خیال کرگئے جس سے کم ازکم یہ تو ثابت ہو گیا کہ ”تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے ”۔یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے کہ اب ہم کتاب پڑھے بنا بھی تجزیوں اور تبصروں کے ماہر ہو گئے ہیں۔
گلِ نو خیز اختر فنِ مزاح نگاری میں خراماں خراماں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ”اظہارِ خیال”کرکے محفل لوٹ لی۔ وہ بولتے رہے اور ہم قہقہے لگاتے رہے۔ ناصر محمود ملک اور مظفر محسن نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں رنگ جمایا جبکہ نجم ولی خاںنے دِل کی بات انتہائی جذباتی انداز میں کہی۔ وہ کتاب کے بارے میں بہت کم بولے کیونکہ اُن کا دُکھ دوسرا تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ آل پارٹیز کانفرنسز میں تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دہشت گردی کے خلاف یکسو تھیں لیکن جب آئینی ترمیم کی باری آئی تو دونوں نے ہی راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی ۔نجم ولی کا جذباتی اندازاُن کے دلی دُکھ کا عکاس تھا جو مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ ہونا بھی یہی چاہیے کہ
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اب ایسابھی نہیں کہ میں”سوٹڈ بوٹڈ” نجم ولی خاں کو قلند رہی سمجھ بیٹھوں لیکن یہ ضرور کہ اُن کے اندر کہیں نہ کہیں ایک قلند رچھپا بیٹھا ہے جو کبھی کبھار عالمِ غیض میں نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے باہرن کل آتا ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے فرمایا کہ وہ تقریب میں آنے سے معذرت کرنا چاہتے تھے لیکن جب اُنہیں پتہ چلا کہ ماجد میانوالی کے گاؤں”رَکھی”کا باسی ہے تواُن سے رہانہ گیا کیونکہ اُن کا اپنا آبائی گاؤں بھی ”رَکھی”سے ملحق ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دَورانِ تقریر عمران خاں اور ریحام خاں کا ذکر بھی کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ اِس شادی سے اداکارہ میرا اور عائلہ ملک کے دِل ٹوٹ گئے، تب پیچھے سے آواز آئی کہ اور بھی بہت سے دِل ٹوٹے ہیں
جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا”مینوں تے ایناں دوواں دا ای پتہ اے، باقیاں داتینوں پتہ ہووے گا”(میںتو اِن دونوں کے بارے میں جانتا ہوں، باقیوں کا آپ کوپتہ ہو گا)۔ محترم سجاد میر نے اپنے خطبۂ صدارت میں فنِ کالم نگاری کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں کیں جونَوآموز لکھاریوں کے لیے مشعلِ راہ تھیں ۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ایک استاد اپنے طلبا و طالبات کو لیکچر دے رہا ہو۔ یوں ہنستے مسکراتے یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی لیکن یہ بتانامیں بھول ہی گئی کہ ساری تقریب کامزہ تو اُس وقت دوبالا ہوا جب ہم ڈائننگ ہال میں پہنچے ۔تقریب کے اختتام تک چار بج چکے تھے اور مارے بھوک کے بُراحال ۔ڈائننگ ہال کی میزوں پر سجے طرح طرح کے کھانوں نے ہماری آنکھوں میں اشتہاکی چمک کوکئی گنا کر دیا اور پھر ہمیں نہیں پتہ کہ ہم نے کیا کھایا، کتنا کھایا اور کیوں کھایا۔
گھر پہنچ کرہم نے سوچا کہ اب چونکہ ماجدکا نمک کھا چکے اِس لیے ”سوچ نگر”کا مطالعہ کرہی لینا چاہیے کیونکہ اگر نہ کرتے تویہ ”نمک حرامی”ہوتی ۔سوچ نگر کے مطالعے کے بعد میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ اگرماجد کی تحریروں کو ادبی معیارپر نہ پرکھا جائے تو اُن میں وہ سبھی کچھ مو جود ہے جو کسی بھی مثبت سوچ رکھنے والے شخص کے دل کی آواز ہو سکتی ہے ۔ماجد سے میرا تعارف زیادہ پرانا نہیں لیکن اُس سے جب بھی ملاقات ہوئی، مجھے محسوس ہوا کہ اُس نوجوان میں کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی اُمنگ جواں ہے ۔وہ مُنہ ٹیڑھا کرکے، انگریزی کے جملے جھاڑ کر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں کرتا لیکن اپنی فطری سادگی کے سبب اپناحلقۂ احباب وسیع ضرور کرتا جا رہا ہے ۔ساری زندگی اُردو ادب پڑھنے اور پڑھانے کی بنا پر مجھے ہمیشہ نسلِ نَوکے وہ لوگ بہت اچھّے لگتے ہیںجو اُردوادب کے محافظ بن کراُبھر رہے ہیں ۔اُردوہماری قومی زبان ہے لیکن ہم نے ہمیشہ اِس سے سوتیلی ماں کا ساسلوک کیا ہے۔
اگر ماجد ملک جیسی نسلِ نَواُردو کی حفاظت کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہے تو ہمیں اُنکی تحریروں میں ادبی موشگافیوں کی تلاش کی بجائے اُنکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ماںکے پیٹ سے توکوئی لکھاری پیدا ہوتاہے نہ تجزیہ وتبصرہ نگار ،سبھی اِس دشتِ پُر خارکی سیاحی کے شوق میں نکلتے ہیں ۔کچھ تھک کریہ سفر ادھورا چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ سفر جاری رکھتے ہوئے نمایاں ہوجاتے ہیں ۔جس ماجدکو میں جانتی ہوںاُس نے چھوٹی سی عمر میں زندگی کے سارے نشیب وفراز کو دیکھا، پرکھا اورسہا ۔یہی وجہ ہے کہ اُسکی تحریروں میں ایک سبق موجود ہے اور لائقِ تحسین یہ کہ یہ سبق دینِ مبیں کے تابع ہے ۔جوقاری بھی سوچ نگرکا مطالعہ کرے گااُسے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ ماجدکے اندر ایک” نوجواں مسلم ”کا دل دھڑکتا ہے۔
اُس کی یہی خوبی اُس کی ساری ادبی خامیوں (اگرکوئی ہیں)پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اُس کا دُکھ یہ ہے کہ وہ جب تہذیبِ حاضر کو دینِ مبیں سے متصادم دیکھتا ہے تو چلا اُٹھتا ہے اور جذبات کی یہی رَواُسے ادبی پختگی سے دورلے جاتی ہے لیکن اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ قاری پراپنا نقطۂ نظر ضرور واضح کر جاتا ہے اور میرے نزدیک ایک اچھّی تحریر کی خوبی بھی یہی ہونی چاہیے ۔سر سیّد احمد خاں کی تحریروں کے بارے میں مولانا الطاف حسین حالی نے لکھا تھا کہ سر سیّد کی حالت تو اُس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو اور وہ لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ ماجد بھی جب یہ کہتاہے کہ ”میں تو شرمندہ ہوں اِس دَور کا انساں ہو کر” تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ تہذیبِ حاضر کے درندوں سے نبردآزما ہے ۔مجھے یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ جیسے ماجد خود اپنی تلاش میں ہو۔ اسی لیے کبھی وہ شہرِ خموشاں میں نکل جاتا ہے توکبھی قیامت کی نشانیاں ڈھونڈنے لگتا ہے ،کبھی تفرقوں میں نہ پڑنے کا درس دیتا ہے تو کبھی اسلاف کی دنیا میں گُم ہو جاتا ہے ۔حصولِ منزل کی لگن اور ”ادھوری سوچیں”ہی اُس کا سرمایۂ حیات ہیں ۔اگر اُس نے اپنا سفر جاری رکھا تو مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دِن اُسے ڈھیروں ڈھیر قاری بھی مل جائیں گے۔
تحریر : پروفیسر مظہر