تحریر : سجاد گل
اختلاف کا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے، دوسروں سے تو کیا بعض اوقات انسان اپنے آپ سے بھی اختلاف کر بیٹھتا ہے،مثال کے طور پرکسی شخص نے کراچی جانا ہے ،وہ پہلے سوچتا ہے جہاز پر جائے،پھر اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے سوچتا ہے کہ جہاز کا سفر مہنگا ہے،کیوں نہ ٹرین کا استعمال کیا جائے،پھردوسرے ہی لمحے اس بات سے بھی اسکا ذہین اختلاف کرجاتا ہے، وہ سوچتا ہے اسے بس پر جانا چاہئے کیوں کہ ٹرین لیٹ کر دیتی ہے،بالآخر وہ کسی نتیجے پر پہنچ کر اپنا رخت سفر باندھ کر کوچ کر جاتا ہے،اور بعض اوقات ہم چھوٹے چھوٹے معاملات میں دوسروں سے اختلاف کر رہے ہوتے ہیں، مثال یوں سمجھیں، کرم دین کا بیٹا امی سے کہتا ہے آج بھنڈی کا سالن بنائیں ،بیٹی کہتی ہے نہیں آج مرغی کا سالن ،جبکہ کرم دین کہتا ہے آج چاول کا سواد لینا چاہئے،اسی طرح،پسند نا پسند ، کھیل کود، معلومات، نظریات، افکارات، عبادات، عقائد وغیرہ میں بھی ہم ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے ہوتے ہیں،
کیوں کہ ایک تخلیقی اور پر عقل دماغ اختلافات کے پہلو نکالتا رہتا ہے، ایک ذی شعور معاشرے کے اندر طرح طرح کی سوچ و فکر،اہداف و مقاصد،اور نظریات گردش کررہے ہوتے ہیں،،اس کے بر عکس پاگل ،دیوانے اور مجنوں لوگوں کے ہاں نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ سوچ و فکر،ایک پاگل کھانستہ ہے تو باقی تمام پاگل بھی کھانسنہ شروع کر دیتے ہیں،ایک سرمیں کھجاتا ہے تو باقی بھی دیکھا دیکھی یہی عمل شروع کر دیتے ہیں،یعنی اختلافات کی ایسی کفییات کسی بھی زندہ معاشرے کا حسن ہوتا ہے،انہی اختلافات میں جب ،نفرت،بغض،تعصب، عداوت حسد اور کینہ کے پہلو آجاتے ہیں تو بغاوتیں جنم لے لیتی ہیں،ہم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو جا بجا ایسی بغاوتیں بکھری نظر آتی ہیں، کوئی اہل سنہ والعدل کے نام رکھ کر اٹھتا ہے اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کرتا ہے تو کوئی شیعان علی کے نام پر مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا ہے،
جب کہ ان گرہوں کا تعلق مسلمانوں کے دو بنیادی مسالک ،اہل سنہ ولجماعت اور اہل تشیع سے نہیںتھا،ایسی بغاوت کے لئے اسلام نے (خارج الامتہ) یا خارجی کا نام رکھا ہے،یہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ بگڑے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ،بظاہر توحید پرست نمازی اور تہجد گزار ہوتے ہیں،شریعت کے پرچار کے بلند و بالا دعوے رکھتے ہیں،قرآن وسنت پر عمل کی باتیں کرتے ہیں،مگر ان کے نزدیک ہر وہ مسلمان قابل قتل ہوتا ہے جو ان کے نظریات و افکارات سے اختلاف رکھتا ہو، رسول اللہ مختلف موقعوں پر خارج الامتہ گرہوں کی نشاندہی فرمایا کرتے تھے،،میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے نمودار ہوں گے جو اسلام کا نام لیں گے نماز روزہ کا اعتمام کریں گے،
قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے علق سے نیچے نہیں ہو گا،مسلمانوں کے بیوی بچوں کو قتل کریں گے،مگر یہ جہنم کے کتے ہوں گے،اور اگر میں انکو پائوں تو ضرور با ضرور قتل کروں،آج بھی امت مسلمہ کو ایسے ہی کچھ خارجی عناصر متاثر کر رہے ہیں،اول داعش اور دوئم تحریکِ طالبان،داعش نے ابو معصب الزرقاوی عراقی(جنہیں ٢٠٠٧ ء میں امریکہ نے عراق میں شہید کر دیا تھا)کے جہادی گروپ سے بغاوت کر کے دولت اسلامیہ کے نام سے اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا،اور بعد میں اس نے اپنا نام داعش رکھ دیا،یہ گروپ مسلم ممالک میں قیام خلافت کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے،دوسری طرف تحریک طالبان ہے جو افغان طالبان کاباغی گروپ ہے (ان طالبان کا جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف برسرِپیکار ہیں)
یہ بھی شریعت کے نفاذ کے نام پر مسلمانوں کو آگ و خون میں نہلا رے ہیں،انکی نظر میں پاکستان ایک کافر اور مرتد ملک ہے ،اسکی عوام الناس کا قتل ،اسکے بینک لوٹنا،اسکے عسکری ، سیاسی اور فلاحی اداروں پر حملہ کرنا جہاد افضل ہے،اس وجہ سے یہ لوگ عالم کفر کے مفاد میں ہیںکہ دونوں خارجی گروہوں کی کارائیوں کا نشانہ اسلام کے دشمن کافر نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں ،داعش اور تحریک طالبان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ کافروں کے پسندیدہ لوگ ہیں،اور مسلمانوں کے جانی دشمن،حقائق کی بات کی جائے تو امریکی خفیہ ایجنسی CIA ،بھارتی خفیہ ایجنسی RAW اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی MOSSAD نے مسلم ممالک کے خلاف یہ سازش تیار کی ہے
مسلم ممالک میںسے ہی بگڑے ہوئے جنگجووئوں کوچن کراسلام کے نام پر تخریب کاری کے لئے استعمال کیا جائے، یہ عمل اسلام کی بدنامی کا باعث اور مسلم ممالک کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بنے گا،یوں عالم کفر اپنے اپنے مفادات سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا،ان خارجیوں ،O.I.C اور اسلامی ممالک کو چائیے کہ اس آگ کو ہر ممکن طریقے سے روکیں،اگراس آگ و خون کی ہولی کو روکا نہ گیا تو اسکے نتائج نہایت بھیانک نکلیں گے،
تحریر : سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi