counter easy hit

سب ایک برابر

Darwaish

Darwaish

تحریر : ایم سرور صدیق
ایک درویش اوراس کا چیلا گھومتے پھرتے ایک ایسے ملک جا پہنچے جہاں بڑی خوشحالی، ہریالی اور آزادی تھی لوگوں نے ان کی بہت آئو بھگت کی دنیا جہاںکی نعمتیں،عقیدت مند اور نذرانے۔۔لیکن درویش نے ایک بات بڑی عجیب محسوس کی گھی، مکھن ،بادام،دودھ،گوشت،طرح طرح کے پھل الغرض ہر چیزکا ایک ہی بھائو۔۔ایک ہی دام۔۔ایک ہی قیمت پر باآسانی دستیاب۔۔۔انہیں تو کبھی کوئی چیز خریدنے کی ضرورت ہی نہیںپیش آئی عقیدت مند اتنا کچھ لے آتے جو ضرورت سے بھی وافرہوتا چیلا کھا کھا کر موٹاہوتا چلا گیا۔۔ایک دن درویش نے کہا اب ہمیں یہاں سے چلے چانا چاہیے ”کیوں چیلے نے برہم ہوکر کہا زندگی میں اتنا عیش اتنا آرام کبھی نہیں ملا ”اس کے باوجود یہاں سے جانا ہی بہترہے درویش نے دور خلائوںمیں کہیں گھورتے ہوئے کہا مجھے یہاں سے خوف محسوس ہوتاہے ”یہ آپ کاوہم ہے چیلے نے جواب دیا ”وہم ۔۔نہیں۔۔حقیقت جو میں جانتاہوں تم نہیں جان سکتے درویش نے پھر کہا جانے کی تیاری کرو ”مرشد۔۔وہ کیوں چیلے نے جزبزہوکر استفسارکیا۔۔۔درویش نے اس کے کاندھے پر ہا تھ رکھ کر اسے جنجھوڑتے ہوئے کہا جہاں معاملات میں کوئی تمیز نہ ہو۔ہر چیزکے ایک ہی دام ۔۔کوئی امتیاز کوئی فرق نہیں۔۔جہاںمعمولی اور قیمتی چیزکی قدر برابرہووہاں انہونی ہوکررہتی ہے ۔۔۔۔

درویش بولا توپھر بولتا چلاگیامیں جب سے یہاںآیاہوں میرا سکون غارت ہوگیاہے عبادت میں بھی دل نہیں لگتا انجانے خوف سے دن رات گھبراہٹ سی ہوتی ہے ۔درویشی اور خوف ؟ بات سمجھ سے باہرہے تم خود سوچو ہاتھی اور گھوڑے کا ایک ہی مول۔۔۔نمک اور شہدکی ایک ہی قیمت۔۔گوشت اور آلو کے ایک جیسے دام۔۔۔نہ بابا نہ جہاںکوئی تمیزنہ ہو میںنہیں رہ سکتا لگتاہے یہ اندھے لوگوں کا دیس ہے میری مانو اٹھو! ابھی یہ ملک چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اتنا وعظ،تلقین اورفصیحت کے باوجودچیلے نے جانے سے انکار کردیادرویش نے اپنی پھٹی پرانی گدری اور ٹوٹاکشکول اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔۔۔دن گذرتے گئے عیش ،آرام،نذرانے مرغن غذائیں کھا کھاکر چیلا مزید پھیلتا چلاگیا ایک دن کسی نے شاہی محل میں نقب لگاکر چوری کرنا چاہی بروقت پتہ چلنے پرشاہی دربان نے للکارا چور۔۔ پکڑے جانے کے خوف سے دربان کو قتل کرکے فرارہوگیا پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی بادشاہ نے ملزم کیلئے پھانسی کااعلان کردیا اس کیلئے پھندا تیارکرلیا گیا ہزار کوششوںکے باوجودقاتل گرفتارنہ کیا جا سکا بادشاہ نے حکم دیا جس کے گلے میں پھندہ فٹ آجائے اسے تختہ دار پر لٹکادیا جائے

شاہی ہرکارے پورے ملک میں پھیل گئے لوگوںکی گردنوں کا ناپ لینے لگے کسی کی گردن لمبی،کسی کی چھوٹی آخرکار ایک شخص کے گلے میں پھندا پوری طرح فٹ آگیا جیسے اسی کے سائزکا بنایا گیا ہو وہ شخص درویش کا وہی چیلا تھا۔۔اسے گرفتار کرکے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا اس نے بڑا شور مچایا بہت منتیں کیں لاکھ سمجھایا میں بے گناہ ہوں لیکن بادشاہ نے ایک نہ سنی اس سے آخری خواہش پوچھی گئی اس نے اپنے مرشدسے ملاقات کی اجازت مانگی کئی ماہ تک درویش کی تلاش جاری تھی کہ وہ بھی گھومتا پھرتا دوبارہ ادھر آن نکلا حالات کا پتہ چلاتو چیلے سے ملنے چلا گیا وہ دیکھتے ہی چلایا”مرشد مجھے بچالو۔۔میں آپ کی بات نہ مان کربڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہوں ” مارنے والے سے بچانے والا قوی ترین ہے درویش نے آسمان کی طرف انگلی لہراتے ہوئےکہا۔۔میں نے تمہیں بہت سمجھایا تھا لیکن ہونی کو کون ٹال سکتاہے ” مجھے یقین ہے ۔۔۔ چیلے نے روتے ہوئے کہا آپ دعا کریں گے تو اللہ ضرور میری مشکلیں آسان کردے گا”اس کی ذات سے ناامیدہونا گناہ ہے۔

درویش وہیں سجدے میں گرگیا۔۔رو رو کرہچکیاں بندھ گئیں دل اور زباںسے معافی کی اپیل، داڑھی آنسوئوں سے تر ۔۔بادشاہ کو معلوم ہوا تو ننگے پائوں دوڑا چلا آیا درویش کو اٹھاکر اپنے برابر تخت پر بٹھایا حالات سننے کے بعد چیلے کو معاف کردیا چیزوں کے ریٹ مقرر ہوگئے۔۔۔گستاخانہ کارٹون چھاپنے والوں سے اظہار ِ یکجہتی کیلئے دنیا بھرکے سربراہان ِ مملکت پیرس جا پہنچتے ہیں لیکن نبی پاک کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو انہوںنے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کروڑوںاربوں مسلمانوں کی دل آزاری کا انہیں کچھ خیال نہیںکیا انسانی حقوق کی تنظمیں اندھی ، گونگی اور بہری ہوگئی ہیں اب ہم اپنے ملکی حالات پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتاہے ہم ایک اندھیر نگری کے باسی ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے نہ اخلاقی اقدارکی پاسداری۔۔ایک ایسا ملک جہاں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس”کا مقولہ ایک حقیقت بن گیاہے جنگل کے قانون میں بھی شاید اتنا ظلم نہیں ہوتا ہوگا جتنا ہمارے معاشرے میںر واہے۔۔یہاں جو جتنا طاقتور، صاحب ِ اختیارہے اس سے بڑھ کرظالم۔۔۔جہاں اچھائی برائی۔۔حلال حرام میں تمیزختم ہو جائے وہاںہرروز نیا سانحہ اور ہررات نیا المیہ جنم لیتاہے

لیکن پھربھی اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا چاہتاکسی بڑے سے بڑے واقعہ پر بھی ہمارا کوئی ردِ عمل نہیں ہوتا ۔۔ہوتابھی ہے تو وقتی پوری قوم پر اجتماعی بے خسی طاری ہے جیسے فلسطین،مقبوضہ کشمیر، عراق، بوسینیا،برما،افعانستان کے مسلمانوںکے قتل ِ عام پر عالمی برادری کا ضمیر سورہاہے ۔گستاخانہ کارٹون چھاپنے والوں سے اظہار ِ یکجہتی کیلئے دنیا بھرکے سربراہان ِ مملکت پیرس جا پہنچتے ہیں لیکن نبی پاک کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو انہوںنے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کروڑوںاربوں مسلمانوں کی دل آزاری کا انہیں کچھ خیال نہیںکیا انسانی حقوق کی تنظمیں اندھی ، گونگی اور بہری ہوگئی ہیں اور تو اور اتنا ظلم ہونے کے باوجود پوری مسلم امہ خواب خرگوش مزے سے سورہی ہے اوربدقسمتی سے جاگنا بھی نہیں چاہتی البتہ جو جگانے کی کوشش بھی کرتاہے یہ قوم ”پپو یار تنگ نہ کر” کہہ کر پھر سو جاتی ہے لیکن کسی کو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں شاید حالات سے” فرار ”کا اس سے اچھا طریقہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔جب قوموں سے احساس ،مروت ، اخوت ،ہمدردی جیسے اوصاف ختم ہو جائیں تولوگوں کی یہی کیفیت ہو جاتی ہے،دل احساس کی دولت سے محروم ہوکر بنجرہو جائیں تو برسوں رحمت کی برکھا بھی نہیں برستی ۔مال ، دولت اور وسائل کی لگن میں حلال حرام اور اچھے برے کی پہچان کھو دے تو زندگی کسی لق دق صحراکی مانندہو جاتی ہے لرزتے ہونٹ ، کاپتے جسم ،پانی کو ترستی زباں کے ساتھ پانی کی تلاش میں قدم قدم پر سراب دکھائی دیتاہے

ہم جانتے ہیں دنیا ایک دھوکہ ۔۔ہے دل بھی یہی کہتاہے زبان سے انکار نہیںہوتا ہم دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں زندگی کی آخری سانسوں تک دل سے دولت کی محبت ختم نہیں ہوتی پھر سو چتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہم سے کیوں منہ موڑ رکھا ہے آج ۔۔ ابھی وقت ہے ۔ چلیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں یہ صورت ِ حال گواراہے اسلام ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہے، استحصال خداکو ہرگز گوارا نہیں۔ انسانیت سے پیار ہادی ٔ برحق کا پسندیدہ کام ہے ۔ہمارے پاس زندگی گذارنے کا مکمل منشورہے جس میں ہر چیز واضح واضح ہے۔ اچھا برا ایک برابر۔ ظالم ، مظلوم سے ایک سلوک۔ حلال حرام ایک جیسا۔ دن رات میں کوئی تمیز نہیں ۔نہیں جناب نہیں یہ فلسفہ درست نہیں ۔۔برائی کو دل میں بھی برا نہ کہنا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ حیف صد حیف !زندگی کے نخلستان میں ہم بھٹکتے پھرتے ہیںہرروز نیا سانحہ اور ہررات نیا المیہ بھی ہمارے ضمیرکو نہیں جگاتا اب آپ خود سوچ سمجھ کرجواب دیں زندگی کسی لق دق صحرا میں بھٹکتے رہنے کا نام ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیق