counter easy hit

فرشتے نہ کہوں تو کیا کہوں؟

Harteloire-Sensibilisation-au-Handicap

Harteloire-Sensibilisation-au-Handicap

تحریر: شاہ بانو میر
یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے مجھے ایک سنٹر کا وزٹ کرنا پڑا مقصد تھا چھوٹے بیٹے کیلیے جگہہ کا انتخاب ٬ بد نصیبی سے کہنے کو تو فرانس ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے لیکن کئی شعبے ایسے ہیں جہاں اتنی کم تعداد ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ واقعی یہ فرانس ہے٬ خاص طور سے ذہنی طور پے معذور بچوں کیلیۓ سنٹرز کی تعداد بہت کم ہے ٬ اور بہت آسانی ہے کہ آپ بلجئیم رابطہ کریں وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے٬ لیکن ہم جیسے والدین جن کے ذہن دیسی ہوں اور اپنی محبتوں اور رشتوں کے دائروں میں مرتے دم تک مقید رہنے کے عادی ہوں٬ ان کیلیۓ یہ کسی بڑی آزمائش سے کم بات نہیں کہ بچّے کو خود سے جُدا کر کے تین ہفتے کیلیۓ انجان لوگوں انجان راستوں پے بھیج دیں ٬ ٌ لیکنبچّے کی عمر بڑہنے کے ساتھ ساتھ زہنی جسمانی کئی قسم کی پیچیدگیاں سامنے آ رہی ہیں تو شائد یہ کڑوا گھونٹ کبھی نہ کبھی بھرنا پڑے٬ سر دست تو سب گھر کے افراد ہتھیلی پے چھالے کی طرح اس بچےّ کی مل جُل کر دیکھ بھال کر رہے ہیں٬ تو بات ہو رہی تھی کہ سنٹر پہنچے وہاں ہمارا ٹائم تھا ٬ ان سے وقت لیتے ہوئے شہر کا نہیں بتایا تھا وہ یہاں سے150 کلو میٹ دور شہر تھا جہاں میں اور میرے شوہر صبح تڑکے گھر سے نکلے اور بالکل وقتِ مقررہ پے وہاں پہنچے ٬ خوبصورت پہاڑی علاقہ تھا ٬ اور زندگی سے بھرپور سنٹر مایوسی افسردگی اور مضحمل سا ماحول نہیں تھا٬۔

رسپیشن پے فریش خاتون نے بڑے تپاک سے ہمیں سلام کیا اور آنے کا مقصد دریافت کیا٬ اس کے سلام کے انداز نے جیسے اندر کہیں آواز دی کہ آج یہ مضبوط سلام کرنے کا انداز ہم شائد ڈر سے بھ¨لا چکے ہیں٬ اس کو وہ پیپر دیا جس پر وقت اور ہماری میزبان کا نام درج تھا ٬ اس نے بغیر تاخیر کے ہمیں مطلوبہ کمرے تک پہنچایا اور وہ ہنستی ہوئی مسکراتی ہوئی واپس لوٹ گئی٬ میرا خیال تھا کہ کوئی جہاندیدہ خاتون ہوگی سامنے جس نے چشمہ لگایا ہوگا گلے میں چشمے کی چِین لٹک رہی ہوگی٬ اور وہ مشکوک نگاہوں سے ہمیں تفصیلات پوچھے گی کہ کہاں کہاں ہم بچّے کی نگہداشت میں کمزور ہیں ٬ میری سوچ کے برعکس ایک سمارٹ سی خوبصورت لڑکی نے ہمیں دروازہ کھول کر خوش آمدید کہا اور درمیانے سائز کے مستطیل نما کمرے میں جس کے دونوں جانب شفاف شیشوں سے باہر کا قدرتی منظر اپنے پورے جوبن پے دکھائی دے رہا تھا٬ سرد ہوا اور سبز گھاس سورج جیسے چاند کا ہمشکل بن گیا ہو٬ خوبصورت منظر نے چند لمحوں کیلئے میری توجہ مکمل طور پے اپنی جانب مبذول کر لی اور میں بالکل بھول گئی کہ میں کہاں بیٹھی ہوں اور کیا کہنے آئی ہوں٬ سبحان اللہ قدرتی مناظر ہر وقت ہر لمحہ ہمیں اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا پر غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں٬۔

اُس لڑکی نے کاغذات مانگے اور وہ جوں جوں پڑہتی گی اس کے چہرے کا رنگ کچھ متغّیر سا ہونے لگا٬ یکے بعد دیگرے وہ اوپر تلے صفحات کو پلٹنے لگی٬ اور اس نے ساتھ ہی کال کر کے اپنے ایک کولیگ کو بلا لیا٬ ہمارے ایڈریس پر نظر پڑی تو وہ جیسے سٹپٹا گئی ٬ کہنے لگی کہ یہ ڈائرکٹر ہیں اس سنٹر کے ٬ آپ بہت دور سے آئے ہیں لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ آپ نے وہاں سے ڈیمانڈ کی ہے آپ ہمارے کام کے مقررہ دائرے میں نہیں ہیں ٬ مجھے شرمندگی ہو رہی ہے کہ آپکو سفر کی تکلیف برداشت کرنی پڑی٬ روایتی کاروباری ندامت نہی تھی سچ مُچ اس کے چہرے سے گہرے تاسّف کا اظہار ہو رہا تھا٬ کوئی بات نہیں ہمارا بیٹا ہے اس کے لے یہ سفر کوئی اہمیت نہیں رکھتا ٬ میرے ہسبنڈ نے پُرسکون انداز میں اس کی پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی٬ اس نے اپنے کولیگ سے کچھ بات آہستہ سے کی اور پھر دونوں نے ایک بڑی فائل کو کھولا جس میں پیرس میں موجد تمام سنٹرز کے رابطہ نمبرز موجود تھے٬ ہم نے ان سے کہا کہ ان تمام سنٹرز پے ہم کوشش کر چکے ہیں ٬ کہیں جگہہ نہیں ہے ویٹنگ لسٹ میں سب نے نام لکھ رکھا ہے٬ البتہ بلجئیم کا آپشن ہر وقت ہمارے لئے اوپن ہے لیکن وہاں ہمارا حوصلہ نہیں ہو رہا کیونکہ یہ بچہ ہمارے بغیر ایک منٹ نہیں رہتا بول نہیں سکتا ٬ ایسے میں 3 ہفتوں کیلئے ایکدم کیسے بھجوا دیں ٬ اُس نے پُرخیال انداز میں کچھ سوچتے ہوئے سر کو خم دیتے ہوئے ہاتھ سےاشارہ کیا ٬
ہم سب خاموش ہو گئے٬۔

پیرس کے ایک سنٹر میں وہ کال کر رہی تھی اور پھر ہم دونوں نے سُنا وہ کہہ رہی تھی ٬ کہ آپ کا یہ اہم ترین فریضہ ہے کہ اس بچےّ کے والدین جس شدید ذہنی کوفت کا شکار ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کر کے ان کیلئے کچھ نہ کچھ انتظام کریں ٬ جب تک سنٹر نہیں ملتا آپ اس بچے کی روزانہ کی بنیاد پر کچھ تو ایکٹویٹیز شروع کروائیں ٬ وہ کہہ رہی تھی کہ میں تو پیپر میں پڑھ کر حیران ہوں کہ وہ بچہ مکمل طور پے فیملی پے ڈیپنڈ کرتا ہے٬ آپ سب کیسے یوں لاتعلق ہو کے ان کی پریشانی سے خود کو الگ تھلگ کر کے باقی کے کام کر رہے ہیں٬۔

بات کرنے کے دوران اس کے چہرے کا کرب مجھے اپنے کرب سے متماثل لگا٬
اس نے کافی طویل بات قدرے کرخت انداز میں کی٬ اور فون بند کر کے اس نے معذرت کی کہ یہ کوتاہی ہوئی ہے ورنہ اس بچے کو بہت پہلے سنٹر مل جانا چاہیے تھا٬
پھر اُس نے دو بار باہر نکلنے تک ہم سے کہا کہ اُسے افسوس ہے کہ وہ ہمارے لئے کچھ کر نہیں پائی٬ لیکن وہ اب مسلسل رابطہ رکھے گی ہمارے ٹاؤن کے سنٹرز سے جب تک کہیں جگہہ مل نہیں جاتی٬ ہم اس کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے ـ فجر پڑھ کر گھر سے نکلے تھے ٹھیک ظہر کی اذان ہو رہی تھی جب گھر واپس پہنچے٬طویل سفر تھا لیکن ہم میاں بیوی آپس میں اسی لڑکی باتیں کرتے رہے ٬اور سفر کا پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ختم ہوا٬جب جب مجھے سنٹرز جانے کا کہیں بھی اتفاق ہوا ہے ہر بار ہمدردی انکسار عاجزی وفاداری محبت اور انسانیت کا اچھوتا سبق حاصل کیا ہے٬۔

اس کی ہر بات میں مجھے اپنے پیارے اسلام کی خوشبو آ رہی تھی ٬ احساسِ ذمہ داری دوسروں کی مدد کسی کی تکلیف کا خیال ٬ اور اُسے دور کرنے کیلیۓ بھرپور کوشش ٬ ہمدردی کے ساتھ دلاسہ دینا٬ بچےّ کیلئے پُرامید مستقبل کا ارادہ ٬ یہ سب وہ صفات ہیں جو ہمارا دین ہمیں دیتا ہے٬ یہ لڑکی نہ مسلمان تھی نہ میری اس سے کوئی رشتے داری تھی٬ بلکہ حالیہ ہوئی دہشتگردی میں مسلمانوں سے بد ظن ہوتی تو شائد بیزارگی سے ہمیں ٹرخا دیتی ٬ لیکن ان لوگوں کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں اداروں کی صورت بچپن سے تربیت دی جاتی ہے٬ انسان فرنچ ہو یا مسلم ان کیلئے قابل احترام اور اہم ہے٬ جبکہ ہم لوگ جزبات کے قیدی ہیں ہر لحاظ سے ہم اپنی سوچ کے تابع ہیں ٬ اور انسانیت کے سبق کو بڑہتی ہوئی آرائشی دنیا کی بھاگ دوڑ میں کہیں دور بہت دور پھینک کر آج صرف بے حسی کی تصویر بنے ایک دوسرے کو ہر وقت پریشان کرنے کے لئے کوشاں ہیں٬ مومن نجانے آج کہاں چلے گئے جو ایک جسم کی مانند تھے٬ آج تو مومن صرف کتابوں میں اور سوچوں میں مقید دکھائی دیتے ہیں٬ ادارے ہیں تو وہ مذاق بنا دیے گئے٬ کارکردگی ہے تو وہ نمائش بنا دی گئی٬ قابلیت ہے تو وہ غلط بیانی کی نذر کر کے ہر کارکن کسی بھی شعبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو جھوٹ پر مبنی ڈگری تحریر کر کے فرضی “” ٹور”” بنا رہا ہے٬ آپس میں ضرورتوں نے جوڑ دیا ٬ ورنہ کوئی خالص جذبہ اب تلاش کئے نہیں ملتا٬ ایسے میں اس بے حس سرد موسم موسم اور جزبات سے عاری ملک میں اس لڑکی کی فکر کرنا اور تشویش میں مبتلا ہونا بہت الگ بہت پیارا لگا٬ جاتے ہوئے اس نے ہم سے الگ الگ فون نمبرز لئے ای میل لیں اور 2015 کو بیٹے کیلئے خوش نصیبی کا سال کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جانے کیلئے طویل کارویڈور کی جانب بڑھ گئی٬۔

کئی روز ہو گئے واپس آئے لیکن ابھی تک اس کا چہرہ اس کی انداز اس کی فکر اس کی توجہ کو بھول نہیں سکی ٬ یہی ہے شائد کسی بھی ادارے کا کامیاب نظام جہاں ہمیں رشوت نہیں دینی پڑی سفارش نہیں کروانی پڑی ٬ احساس ذمہ داری سے لبریز کارکنان یقینی طور پے اس ادارے کو کامیابی کی اعلیٰ سطح تک لے جائیں گے٬ اور یوں یہ ملک انفرادی اداروں کی کامیاب کارکردگی سے کامیاب ملک کہلا رہا ہے٬ کاش پاکستان کا ہر ادارہ ہر رُکن ایسا ہی ذمہ دار بن جائے اور عمران خان کے 200 کامیاب افراد اس کی مرکزی کامیاب ٹیم کی طرح پاکستان کو بھی ایسے ہی کامیابی کی اعلیٰ بلند سطح تک لے جائیں آمین۔

عمران خان 200 دماغ تلاش کر رہا ہے جو 20 کروڑ کیلئے کارآمد ہیں ٬ اور ہم کہیں دماغ نظر آجائے تو مل رک گروہ کی صورت منصوبے بنانے لگتے ہیں کہ جسموں کے ہجوم میں اس دماغ کو ٹھکانے لگاؤ اس کا کام ہمارے راستے کا سب سے بھاری بھرکم پتھر ہے٬ ئ یہی وہ ناکام مایوس سوچ ہے جو آج بتدریج تیزی سے پھیل کر معاشرے کو غیر حقیقی اور فرضی کامیابیوں کی نوید سنانے والوں کے رویے کا شکار ہو کر سچی اصلی شناخت کھو رہا ہے٬ جس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا ہوگا کیونکہ دنیا ہماری زندگی بہت قیمتی ہے محض ہنسی کھیل تماشہ کھانا پینا موج مستی نہیں ہے٬ پوچھ بھی سخت ہے اور سزا بھی ایسی کہ سوچ کر پسینہ آجائے لیکن صرف ان کو جن کا شعور زندہ ہے٬ کامیاب ملک کا کامیاب یہ ادارہ اور ایسے سب ادارے جہاں انسانیت پوری روح کے ساتھ زندہ ہے٬ مجھے یہ لوگ ہمیشہ ہی انسان کے روپ میں فرشتے لگتے ہیں٬ مہربان نیک شریف مہذب مؤدب اللہ ہم سب کو ان خوبیوں سے نواز کر بے حِسی منافقت سے نا اتفاقی لا تعلقی بد تمیزی سے کوسوں دور لے جائے آمین
میں انہیں فرشتے نا کہوں تو کیا کہوں؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر