ہم سب نے اکثر ایسی باتیں ضرور سنی ہوں گی کہ ہم اس سٹور سے شاپنگ نہیں کرتے ، ہم نے تو کبھی مارشے ( اتوار بازار ٹائیپ اوپن مارکیٹس جو کہ دکانوں سے کم قیمت پر ہر طرح کا سامان بیچتے ہیں ) سے خریداری نہیں کی . بلکہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ مارشے کہاں کہاں لگتے ہیں ۔ ہم اس دکان سے نہیں ، ہم تو بس فلاں فلاں دکان سے ہی خریداری کرتے ہیں ، ہم تو صرف AVS ( رجسٹرڈ حلال گوشت کی ایک مُہر ہوتی ہے ) کا ہی گوشت کھاتے ہیں باقی کسی کا حلال ہم نہیں کھاتے ۔ بھئی سوری ہم تو لوکل میں بلکلللل سفر نہیں کرتے۔
پاکستان سے پانچ ہزار کا لباس دلہن کے لیئے رور رو کر خریدنے والے اسے بڑے فخر سے جاننے اور ملنے والوں میں پچاس ہزار کا سنا کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں اور اس جیسی بےشمار فضول باتیں ہم یہاں یورپ میں بیٹھے ہوئے ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصّے میں بیٹھے لوگ اکثردوسروں پر جھوٹے رعب ڈالنے کے لیئے بولا کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر سے بولتے بھی ہیں اور جھوٹ بھی نہیں سمجھتے ۔ یہ کیوں کرتے ہیں ہم ۔ بس ایک نفسیاتی کمتری ہے ہم سب میں جو ہم سے یہ سب کرواتی ہے ۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مہنگا لا کر بتانا تو کوئی خوبی ہے ہی نہیں ۔ خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کم قیمت میں بہتر چیز کی خریداری کرے۔
سگھڑ پن اور سمجھداری اس میں نہیں ہے کہ میں نے کتنے پیسے لُٹائے ہیں ۔ بلکہ اس میں ہے کہ میں نے کم سے کم رقم کو کہاں، کتنی سمجھداری سے استعمال کیا ہے ۔ لیکن یہ شاید اب پرانے زمانے کی بات سمجھی جاتی ہے ۔اب تو ایک دوسرے سے بڑھکر قیمتیں بتانا اپنی مالی برتری جتانا سمجھا جاتا ہے ۔ ان باتوں سے اور تو کسی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، لیکن ایک دوسرے سے زیادہ بڑھنے کے چکر میں مذید جھوٹ بولنے اور ایک دوسرے سے بڑھکر خرچ کرنے کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
اس کا شکار زیادہ تر وہ سادہ لوح افراد ہوتے ہیں جو ان عادی جھوٹوں کی بات کو سچ سمجھ کر ان پر اعتبار کرتے ہیں یا ویسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان میں جنہیں کبھی ٹانگے میں سفر کرنا نصیب نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ملک سے باہر آ کر بڑے تکبّر سے فرماتے ہیں جی کچھ بھی ہو جائے ہم تو کبھی لوکل میں سفر نہیں کرتے ۔ یہ ان لوکلز کی بات ہے جن میں ان مُمالک کے صدُور اور وزراء بھی لائن میں لگ کر ٹکٹ خرید کر سفر کرتے ہیں ۔ شاید یہ ہی فرق ہے ہم میں اور ان ممالک کے لوگوں کی سوچ میں جس نے ہمیں آج تک بلندیوں کےسفر پر روانہ ہی نہیں ہونے دیا ۔ کہیں بھی لائن میں کھڑے ہونا ہمیں ہماری توہین لگتی ہے۔
کہیں بھی کسی غلطی کو ماننا ہمیں ہماری بے عزتی لگتا ہے ، کہیں بھی کسی کی تعریف کرنا ہمیں ہمارے سینے پر سانپ لوٹانے کے برابر لگتا ہے۔ کسی کو میرٹ پر اس کا حق دینا ہمیں اپنے ساتھ اسکا مقابلہ لگنے لگتا ہے۔ سچ بولنا ہمیں اپنے آپ کو کم کرنے جیسا لگنے لگتا ہے ۔ انتہائی غریب گھروں سے آنے والا فرد بھی اپنے آپ کو اپنے ملک میں رئیس ترین ثابت کرنے پر ہی مُصر رہیگا۔
اسے یہ ہی خوف رہیگا کہ کہیں کسی کو میرے غریب ماضی کا علم ہو گیا تو اس کی عزت کو بٹّا لگ جائے گا ۔ حالانکہ دنیا میں ان لوگوں کو ہمیشہ ہی عزت ملی ہے جو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی محنت اور سمجھداری سے اپنا مستقبل بناتے ہیں۔ جنہیں اپنے ماضی پر شرم نہیں آتی بلکہ جنہیں اپنے سیلف میڈ ہونے پر فخر ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا ہاتھ لینے والوں میں نہیں رہتا بلکہ ہمیشہ دینے والوں میں رہتا ہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ خدا بھی دینے والا ہے اور دینے والوں ہی سے محبت کرتا ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس بات کو سمجھنے کی کہ اپنی زندگی کو ہاتھی کے دانت نہ بنائیں اور اسے آسان بنا کر دوسروں میں بھی آسانیاں بانٹنے کو کوشش کریں۔
تحریر: ممتازملک، پیرس