تحریر:عتیق الرحمن
امام شافعی پر والی یمن کی جانب سے علویوں کی حمایت اور عباسی حکومت کے خلاف بغاوت کو ابھارنے کا الزام عائد کیا تو عباسی خلیفہ نے گرفتار کرواکر بغداد پہنچانے کا حکم صادر کیا۔ امام شافعی بغداد پہنچے تو ہارون الرشید نے سوال و جواب کے بعد امام کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا قبل اس کے کہ جلاد تلوار چلاتا اسی اثنا میں امام محمد جو کہ امام شافعی کے استاد تھے دربار میں داخل ہوئے ۔امام شافعی نے خلیفہ سے کہپا کہ میرے متعلق امام صاحب سے دریافت کرلیں اگر انہوں نے میرے خلاف فیصلہ دیا تو مجھے جو سزا دیں قبول ہے۔ہارون الرشید نے امام محمد سے پوچھا کہ آپ محمد بن ادریس الشافعی کو جانتے ہو انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں جانتاہوں یہ تعلیم وتعلم اور درس وتدریس کا شغف رکھتے ہیں ۔خلیفہ نے کہا کہ ان پر الزام ہے
عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کی تحریک چلانے کا اس بارے میں کیا کہتے ہیں تو امام محمد نے فرمایا کہ جو امام شافعی اپنے بارے میں کہتے ہیں میں اس کی تصدیق کرتاہوں ۔اس گفتگو کے پس منظر عباسی خلیفہ نے فیصلہ کیا کہ امام محمد امام شافعی اپنے ہاں ٹھہرائیں تاوقتیکہ ان سے متعلق کوئی فیصلہ صادر کیا جائے۔اسی دوران امام شافعی نے اپنے مسئلہ سے متعلق امام محمد کو مطلع کرنا چاہتے تھے تاکہ مسئلہ کی حقیقت سمجھ سکیں اور خلیفہ سے میرے متعلق بات کریں ۔اسی اثنا میں امام شافعی امام محمد کی مجلس میں حاضر ہوئے تو وہاں فقہ مالکی کے بعض مسائل پر امام محمد نقد کررہے تھے تو ایسے میں امام شافعی چونکہ امام مالک کے شرف تلمذ طے کیا تھا اور ان کو امام محمد کی نقد سے اتفاق نہ تھا تو انہوں نے قطع نظر اپنے ذاتی مسئلہ کی مصلحت کو سامنے رکھے امام محمد کے ساتھ اختلاف کیا اور ان کے تمام اعتراضات کے جواب دیئے ۔
مندرجہ بالا واقعہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اکابر و اسلاف کا یہ منہج رہاہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور مصلحتوں سے قطع نظر ہوکر ہمہ تن علم دین اور دین اسلام کی حفاظت کے لیے میدان عمل میں ڈٹ جاتے تھے ۔یہ تمام اکابرواسلاف کا وطیرہ حیاتے رہاہے کہ جہاں بھی کوئی اسلام پر نقد یا ضرب لگانے کی کوشش ہونے لگی تو اس کے خلاف میدان عمل میں آموجود ہوئے۔ اس جرم کی پاداش میں امام ابوحنیفہ کا جنازہ جیل سے نکلا،اسی حق گوئی کے نتیجہ میں امام احمد حنبل کی پشت پر کوڑوں کی برسات کی گئی۔اگر ہم آج کے سماج میں دیکھتے ہیں تو ہمیں حق گو علماء اور دین متین کی حفاظت اور ہرقسم کی تحریف سے پاک کرنے کے لیے خال ہی کوئی علماء کی جماعت چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی غنیمت ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے
کیوں کہ ہمارے ہاں علم اصلاح ذات،رضا الیٰ اللہ ،اسلام کی تعلیمات خود سیکھ کر عمل کرنے اور دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے نہیں حاص کیا جاتابلکہ یہاں علم معاشرے میں عالم کی سرٹیفیکیٹ حاصل کرکے دوسروں پر برتری ثابت کرنے کے لیے حاصل کیا جاتاہے یا پھر اس علم کے ذریعہ معاشرہ کے کم تعلیم یافتہ طبقے کے حقوق کو غصب کرنے کا ذریعہ بنایا جاتاہے یا پھر اس علم کے ذریعہ سے دنیاوی عیش و عشرت کے مذے لینے کا سامان تیار کیا جتاہے تبھی تو آج عالم اسلام میں علماء کی کثرت ہے
مگر اس کے باوجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلم یورپ کے درپر کاسہ گدائی پھیلاکر زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ماعدا بعض اہل حق ہر دور کی طرح آج بھی موجود ہیں مگر ان کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ظلم یہ ہے کہ رہبران ملت اسلامیہ کی اکثریت ان حق پرستوں کوستے نظرآتے ہیں کیوں کہ ان حق پرستوں کی موجودگی اور حق گوئی کہ نتیجہ میں ان حکمرانوں کے زرخرید علماء اور جاہ و منصب کے طالب کے ذاتی مفادت کو زچ پہنچتے نظر آتی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ آج مسلمان اس کثرت تعدد کے باوجود کیوں یورپ کے رحم وکرم پر اپنی حیات بسر کرتے ہیں ؟علماء کی اس قدر کثرت ہے دنیاوالوں کی نظر میں اہل علم لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں پھر بھی مسلمان ذلت و پستی میں مبتلا آخر کیوں؟اس کے اسباب تو بہت سارے بیان کیے جاسکتے ہیں ۔اس تحریر میں صرف ایک نقطہ پر بات کرتاہوں ۔ہماری اس پستی و تنزلی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ علما ء اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اختیار کرچکے ہیں اور ایسا کیوں ہورہاہے کیوں کہ آج کے معاشرہ میں علم فروخت ہورہاہے اور جس کے پاس مال و دولت ہے وہ پیسہ صرف کرکے علم حاصل کرتاہے اور ڈگری حاصل کرکے منصب حاصل کرتاہے اس کے بعد اپنی زندگی کو مال وثروت جمع کرنے میں کھپا دیتا ہے۔
آج استاد تعلیم دیتاہے تو صرف پیسہ کی خاطر ،آج طالب علم ڈگری لیتا ہے تو پیسہ کے بل پر ،آج تعلیمی ادارے ڈگریاں جاری کرتے ہیں تو پیسہ وصول کرکے ۔کسی لمحہ بھی مسلم معاشرے کے ذمہ دار طبقے یہ نہیں سوچتے کہ علم جس فرد کو دیاجارہاہے کیا وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں ؟کیا اس کے اخلاق و کردار بھی اس علم کے حصول کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں یا نہیں؟یہ تعلیم کس غرض سے حاصل کرنا چاہ رہاہے؟کیا یہ فرد تعلیم حاصل کرکے ملت کے مفاد کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتاہے؟
کیا یہ شخص حصول علم کے ذریعہ معرفت الٰہی کا طالب ہے یا دنیاوی جاہ و حشمت اس کا اصل ہدف ہے؟علم کے حصول کے سبب اس کے ذہن بند دریچے کھولے ہیں کہ نہیں ؟کیا اس میں کائنات کی اشیاء کو دیکھ کر سبب تخلیق کی طرف غوروخوض کرنے کا احساس بیدار ہواہے یا نہیں؟راقم مشاہدات کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ آج کی دانش گاہیں اور علم منتقل کرنے والے ادارے اور افراد کے پاس مندرجہ بالا سوالات پر غور وفکر کرنے کا وقت نہیں یا وہ عمداً ان پر سوچنے سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی زندگی کی گاڑی کو ہانکتے چلے جارہے ہیں۔
ویسے تو علمی خیانت اور جعلی ڈگریوں کا راج ہمارے ملک میں موجود ہے مگر مجھے دلی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب اسلام کے نام پر بننے والے تعلیمی اداروں میں ان مندرجہ بالا سوالات سے اعراض کیا جارہاہو۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا مگر افسوس صد افسو س کہ اسی دانش گاہ میں علمی چوری بام عروج پر ہے ۔اساتذہ کی تقرری سے لیکر ناجائز طلباء و طالبات کی ہمدردی تک پی ایچ ڈی کے مقالے میں چوری کے مرتکب ڈین سے لے کر امتحانات میں نقل تک،اساتذہ کی اپنے فرائض سے پہلو تہی سے لے کر طلبہ کے رٹا سسٹم تک کا نظام علمی خیانت سے لبریز ہے ۔دل خون کے آنسو روتاہے کہ یہ دکھڑا سنائیں تو کسے کوئی درد کا مداوا کرنے والا ہی نہیں بس یہاں عہدے و مناصب کی ریل پیل ہے
غلط کو غلط جانتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے بھی اس کے سامنے سد سکندری قائم کرنے کی ہمت ہی نہیں۔میں گذشتہ متعدد تحریروں میں یہ واضح کرچکا ہوں کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح سیکولر یا نیوٹرل کرنے کی کوشش کرنے کا کام تیزی سے کیا جارہاہے اس کا آغا ز اصول الدین فیکلٹی جہاں پر شرعی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔اس کے امتیازی تشخص کو مٹایا جارہاہے اور اس میں ایک مخصوص سوچ کے حامل طبقہ کی تقرریاں اور کرپٹ عناصر کے لیے چور دروازوں کا مفتوح ہونا ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ کوئی طالب علم کسی استاد اور طالب علم سے اپنا مقالہ لکھو الے اور وہ اس کے ایک حرف سے بھی وہ واقف نہ ہو تو اس فرد کو ڈگری جاری کرنا علمی خیانت نہیں تو اور کیا ہے ؟
رٹا سسٹم کی حمایت کرنے والے اساتذہ کی بھر مار اور طلبہ کے پرتشدد اثر کے نتیجہ میں اساتذہ کی تذلیل اور اسی طرح کہ متعدد مسائل سے یہ فیکلٹی دوچار ہے ۔اس کا ازالہ کون سا مسیحا کرے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا میں پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کے لیے اقبال کا یہ پیغام چھوڑتاہوں شاید کوئی دردل کو سمجھ سکے اور اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہ کرسکے۔اگرچہ علامہ اقبال کی نظم خطاب بہ نوجوانان اسلام پوری نظم ہی اس قابل ہے کہ اس کو درج کیا جائے ممکن ہے کہ ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے سینوں میں کچھ روشنی کا دیہ چمک آئے اور یا دماضی کو ایک بار پھر زندہ کردے ۔تاہم اس مختصر مضمون میں ان چند اشعارکو درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہونہی سکتی کہ تو گفتار وہ کردار ،تو ثابت وہ سیارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریاسے زمیں پرآسماںنے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا وہ اک عارضی شے تھی نہیں دُنیا کے آئین مسلّم سے کوئی چارا
مگروہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباکی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارا
تحریر:عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com