تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
مہذب کہلانے والے معاشرے آج سب ے زیادہ گندے ذہنوں کے ساتھ دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔جو قلم و قرطاس کے ذریعے دن رات لوگوں کے اشتعال کا باعث بنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کا ہرروزباعث بنتے ہیں۔مغرب کے لوگ یہ کام آج سے نہیں بلکہ ایک مدت سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔بلکہ صدیوں سے یہ اُن کا یہ ہی شیوہ رہا ہے۔یہ ممالک نا صرف لوگوں کو دہشت گردی پراس طرح اکساتے ہیںکہ جن مقدس ہستیوں کو لوگ اپنی جانوں سے زیادہ اہمیت اور چاہت دیتے ہیں۔یہ لوگ اُنہی کابھونڈا تمسخر اڑا کر سمجھتے ہیں کہ وہ انسانیت کی کوئی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیںاور کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔یہ کام وہ اپنے پیغمبروں اور بڑوں کے بارے میں بھی اگر کرتے ہیں تو ہمیں پھر بھی اعتراض تو اس وجہ سے ہوگا کہ ہمارے لئے وہ بھی بڑائی کا درجہ رکھتے ہیں۔مگر اُس کی شدت اس قدر نہ ہو گی جس قدر مسلمان اپنے پیارے نبی کے لئے رکھتے ہیں طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان کے ملکوں کے لوگوں کے ساتھ ان کی حکومتیں بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ان کے ہاں قلم و قرطاس کا استعمال ہی زیادہ تر ننگ پن اور بد اخلاقی کے مقصد کے تحت ہوتا ہے۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ہاں تو ماں باپ اور بہن بھائی کا تقدُس تو در کنار اپنے اعلیٰ ترین مذہبی پیشواﺅں،جن کو ان میں سے اکثر لوگ خدا کا درجہ بھی دیئے ہیں، ان کے بھی خلاف بد اخلاقی اور بد زبانی اور فحش گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ جو ان کی بے ضمیری کی ایک انتہائی شکل ہے۔ان کی مذہبی بد اخلاقی اور بے دینی نے ہی انہیں مذہب سے نا صرف دور کیا ہواہے۔ بلکہ بے ضمیری کی وجہ سے یہ دیگر مذاہب کی بھی پگڑیاں اچھالنے کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں۔
گستاخانہ خاکے شائع کر نے ولا جریدہ چارلی ہیبڈو کے کارٹونست اور کے پروموٹر دو فرانسیسیوں کے ہاتھو جہنم رسید ہوئے تو سارا یورپ تلملا اُٹھا ۔جن کودو فرانسیسی عرب نژاد بھائیوں شریف اور سعید کواچی نے حملہ کر کے ان شاطمینِ رسول کو جہنم رسید کیا توساری عیسائی اور یہودی دنیا میں تلملا ہٹ دیدنی تھی۔اس واقع سے قبل بہت سے محبِینِ رسول محمدﷺایسے شیطانوں کو واصلِ جہنم کر چکے ہیں ۔ان میں ایک اہم نام غازی علم دین کا ہے۔جس نے 1929 ،میں ایک بد زبان ہندوکو ہندوستان میں ہی جہنم کا راستہ دکھا دیا تھا۔ابھی دو تین نام جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے چھپے پھر رہے ہیں باقی ہیں ۔ ان میںایک شیطان سلمان رشدی اور دوسری شیطان تسلیمہ نسیم ایک بنگالن ہے۔ 7 ،جنوری 2014،کو صبح تقریباََ 11بجے ان مسلمان نوجوان حملہ آوروں نے پیرس میں جریدے کے دفتر میں داخل ہو کریہاں موجود افرادکے نام پکار پکار کر نشانہ بنایا۔اپنی کاروئی مکمل کرنے کے بعدوہدونوں نوجوان اللہ ُاکبر کا نعرہ لگا کر یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ ہم نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گُستاخی کرنے والے پیغمبرِ اسلام کے گُستاخوں سے بدلہ لے لیا ہے۔اُن مرنے والے 14 ، افراد میں دوکو مسلمان بتائیے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک جریدے کے دفتر کا ملازم تھاجبکہ دوسرا پولیس اہلکار تھا۔حملہ آ ور نا تو کسی مسلمان ملک کے باشندے تھے اور نہ ہی کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے۔بلکہ وہ فرانسیسی اسکولوں کے ہی تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان تھے۔
گستاخ رسول کو کیفر کردار تک پہنچانے حکُم ہمارے پیارے پیغمبر کی تعلیمات میں بھی ملتاہے۔”ایک گستاخ رسول کعب بن اشرف یہودی رسول اکرم ﷺ کی ذات سے انتہائی دشمنی رکھتا تھا اور آپﷺ کو تکالیف پہنچاتا تھا آنحضرت ﷺ نے کعب کی ازارسانیوں سے تنگ آکر فرمایاکہ ”کعب بن اشرف کو کون ٹھکانے لگائے گا؟“محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ کیا آپ کی مرضی ہے کہ وہ قتل کر دیا جائے ؟ تو میں اس کام کیلئے حا ضر ہوں ، اس عمل پر کوئی مضائقہ تو نہ ہوگا؟ارشاڈ ہو اکہ ”نہیں“ان صحابیِِ رسول نے اُس یہودی کو جہنم رسید کر دیا تو آپ ﷺنے اللہ کا شکر ادا کیابحولہ (صحیح بخاری)محمد عبد اللہ صدیقی کا مضمون ”صحابیِ رسولؒ محمد بن مسلمہ“روزنامہ جنگ کراچی یورپ صدیوں سے اسلام فوبیہ کا شکار چلا آرہا ہے۔مغربی میڈیا جب تک اس قسم کی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا ،تو اس قسم کے وقعات کو روکا نہیں جا سکے گا۔آزادی صحافت کے نام پر یہ مذہبی تعصب و دہشت گردی فرانسیسی حکومت ایک مدت سے کرواتی چلی آرہی ہے۔کبھی اذان پر پابندی تو کبھی مسلمان خواتین کے اسکارف اڑھنے پر پابندی، یہ کیسے انسانی حقوق کے علمبردار ہیں جو دنیا کے اربوں مسلمانوں کے مذہبی اور اور انسانی حقوق پا مال کر رہے ہیں ۔ جریدے کے بد معاش کار ٹونسٹ کے جہنم واصل کئے جانے پر فرانس میں کئی مساجد اور اسکارف پہننے والی معصو م خواتین پر جب حملے کئے جاتے ہیں تو اس قت ان کی شخصی آزادی اور مذہبی آزادی کا ان کا جھوٹا تصور کہاں گُم ہو جاتا ہے؟اس جریدے نے حضورِ اکرم کی شان میں 2006، 2011،اور 2013 میں بھی اس گُستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔پیغمبرِ اسلام کے خلاف یہ حرکت ہندوستاں میں راجپال نامی ایک ہندو بدمعاش نے کی تھی جس نے دسمبر 1929،میں رنگیلا رسول کے نام سے ایک گُستاخانہ کتاب لکھ کر غازی علم دین کے ہاتھوںواصلِ جہنم ہو نا پسند کیا۔آج بھی ہندووں کی گُستاخی کا یہ عالم ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کاایک مرتبہ پھر 4 ،دسمبر، 2008،کوارتکاب کیا چکا ہے اور محبانِ رسول ان گُستاخوں تاک میں بیٹھے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ آج نام نہاد مسلمانوں میںسے بھی بعض اس قسم کے شیطانوں میںشامل ہوچکے ہیں۔جن میں برطانیہ کا شیطان سلمان رشدی اور بنگلہ دیش کی فاحشہ تسلیمہ نسیم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے مصور نے ایک فاحشہ عورت کے برہینہ جسم پر قرآنی آیات اور نبی کریم ؑ کے توہین آمیز خاکے بنا کر مسلماناں عالم کی دل آزاری کی تھی۔ جس کے بعد مراکش کے ایک محب رسول نے اسُ مصورہ کو سرِ عام جہنم واصل کر دیا تھا۔
فرانس میں ہونے والے اقدام کو یورپ اور نام کے مسلمان ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔مگر اس پر غور کرنے کی کسی کو ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جس کی وجہ خود مغرب ہے۔چارلی ہیبڈو کے دفتر پرحملہ کیئے جا نے کے فوراََ بعد اسپین کے ایک جریدے منگولیہ کے ایڈیٹر گو نزالے بوئے نے بھی توہین آمیز خاکے شائع کر دیئے۔اسپین کے جریدے نے فرانسیسی جریدے سے ہمدردی کے اظہار کے طور پر ان کی جانب سے شائع کئے گئے خاکوں کو ٹوئٹر پر ایک مرتبہ پھر پوسٹ کر دیا اور کہا ہے کہ ہم آزادی ءاظہار رائے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور آج ہم سب چارلی ہیبڈو کے ساتھ ہیں ۔در حقیقت یہ یورپ کا عام مزاج رہا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ چارلی ہیبڈو کا ایڈیٹر اسٹیفن چاربونیزیہ گستاخی بارہا کر چکا تھا تو اسے کسی غازی علم دین کا تو سامنا کرنا ہی تھا!!!جہنم رسید ہونے والا ایڈیٹر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا عادی مجرم تو تھاہی۔جو دنیا کے اکثر مذہبی اکابرین کا مذحقہ اڑانے کا مجرم بھی تھا۔ مستقبلِ قریب میں سارے یورپ میں ایک بار پھر نبی ِکریم ﷺ کے گُستاخانہ خاکے شائع کر نے کی منصوبہ بندی کر رہے ہےں۔ کے نتیجے میں اگر کوئی جہنم واصل ہوا تو ان کی دہشت گردی کی رگ پھر پھڑ اٹھے گی۔
ان مردودوں کی نوحہ خوانی کےلئے یوپ تو نکلا ہی تھا مگربد قامتی سے بعض مسلمان قیادتیں بھی ان کے ہم قدم دیکھی گئیں۔ اس مارچ کی قیادت برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ،جرمن چانسلر انجلا مرکل، اسرائیلی وزیر اعظم گبن نتن ہاہو، فلسطینی صدر محمود عباس ،اردن کے شاہ عبد اللہ اور تر کی کے وزیر اعظم احمد داﺅد ادالو سمیت مختلف عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے کی۔سوال یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی غیرت کا جنازہ کہاں نکل رہا تھا جبکہ یکجہتی مارچ میں تو ہین آمیز خاکوں کے پوسٹر کی موجود گی بھی تھی؟مگرمراکش کے غیرت مند مسلمان ، وزیر خارجہ سمیت اوران کےوفد کے کسی بھی سرکاری عہدیدار نے اس جرم میں شرکت سے انکار کر دیاتھا۔جوان کا اپنے نبی سے محبت کا کھلا اظہار تھا۔ ہم پھر متنبہہ کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر حصے میں قلم و قرطاس کی دہشت گردی کو روکا جائے ورنہ ایسے نتائج بھگتے رہنا پڑے گا۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com