تحریر :علی عمران شاہین
اللہ کی شان دیکھئے کہ کتنے ہفتے کتنے مہینے گزرے امریکی صدر باراک اوبامہ کے بھارتی دورے کی خبریں دنیا میں زیر گردش تھیں۔ امریکی صدر کایہ دورہ 3 روزہ تھا جس کاآغاز 25جنوری تواختتام27جنوری کوہوناتھا۔دورہ شروع ہونے سے 2 روز پہلے امریکہ سے سرکاری خبر جاری ہوئی کہ امریکی صدر نے اپنادورہ مختصر کردیاہے اوروہ بھارت کے دورہ کے بعد 27 جنوری کو سعودی عرب پہنچیں گے۔بھارت نے امریکی صدر کی آمد کے موقع پر جس قدر ممکن تھا اپنی تاریخ کے سب سے بہتر اور سخت ترین حفاظتی انتظامات کئے لیکن امریکیوں نے یہ سب کچھ فیل قرار دے کر اپنے سیکڑوں کمانڈوز ،دفاعی ماہرین بلکہ 75انتہائی ماہر جاسوس کتے بھی روانہ کئے۔امریکی صدر کے لئے اس کی خصوصی کار بھی امریکہ سے خصوصی جہاز کے ذریعے لائی گئی۔نئی دہلی میں 45ہزار بھارتی فورسز متعین رہیں۔20ہزار کیمرے نصب کئے گئے۔کروڑوں بھارتی شہریوں کی زندگی کتنے ہفتے اجیرن وعذاب بنی رہی لیکن جب یہی امریکی صدر سعودی عرب پہنچا تو وہاں ایسا کچھ بھی سرے سے نہیں تھا۔
کیاسعودی عرب نے اس بار یا اس سے پہلے گزشتہ سال بھی امریکی صدر کو دورے کی دعوت دی تھی؟ ہرگزنہیں۔ یہ توامریکی صدراوبامہ ہے جو شاہ عبداللہ کی وفات پر خود چل کر سعودی دارالحکومت ریاض پہنچا تھا۔جی ہاں!وہی امریکی صدر جس نے آج تک اس سے پہلے کبھی کسی تعزیت کے لئے کبھی کسی ملک میں قدم نہیں رکھا تھا،آج وہ دوسری بار خود چل کر سعودی عرب پہنچاتھا اورسعودی عرب اور اس کے حکمرانوں کو اس کے آنے یانہ آنے کی کوئی پروا نہیں ۔ ا گزشتہ سال بھی امریکی صدر باراک اوبامہ سعود ی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے پاس حاضر ہوا تھا اور ناراض سعودی شاہ کو شام کے مسئلہ پر اعتماد میں لینے کا جتن کیاتھا۔
دنیا نے اس وقت بھی عجیب منظر دیکھاتھا کہ سپرپاور امریکہ کاصدر سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے سامنے ایک ”غلام” کی طرح سرجھکائے بیٹھاتھا۔ سعودی شاہ تواپنی کرسی کے ساتھ پوری شانِ بے نیازی سے ٹیک لگائے ہوئے تھے جبکہ اوبامہ کرسی سے کافی باہرنکل کر شاہ عبداللہ کی طرف پوری طرح جھکاہوا شام کے مسئلے پر انہیں اپنی معروضات اور صفائیاں فدویانہ انداز میں پیش کررہاتھا۔جی ہاں!آج کے دورمیں یہ سعودی بادشاہوں کی ہی شان رہی ہے کہ امریکہ جیسے ملک کا حکمران بھی ان کے پاس خود چل کر آتااور جھک جھک کر ادب سے بات کرتاہے۔ اس باربھی جب باراک اوبامہ نئے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے پاس پہنچا تو اس کی بھارت والی ساری اکڑ فوںاور غرور و تکبر والی چادر اتر چکی تھی۔یہاں باراک اوبامہ نے کسی سعودی شاہی فرد یا ان کے کسی حکومتی عہدیدار کی کمر پر ہاتھ رکھنے کی جرات و جسارت نہ کی جس کا ارتکاب وہ مودی کے ساتھ مسلسل کرتا اور مودی کو اپنا بغل بچہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا۔
یہاں آخٰر امریکی صدر کی یہ حالت کیوں رہی ؟ اس کا جواب اس وقت حقیقی طور پر مل گیا جب باراک اوبامہ کے ائر پورٹ پر اترتے ہی اذان عصر کا وقت ہو گیا۔پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا کہ جو کوئی تصور میں نہ لا سکے ۔سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے تمام شاہی خاندان کے لوگ اورحکومتی عہدیدار امریکی صدر اور اس کی اہلیہ اورامریکیسکیورٹی افسران کو وہیں تن تنہاکھڑا چھوڑ کراس کائنات کے شہنشاہ اور اپنے رب کے بلاوے پر مسجد کی جانب نماز کے لئے روانہ ہو گئے۔بھارت اور سعودی عرب میں اوبامہ کے دورے کے مناظر بھی کیسے عجیب تھے کہ بھارت میں نریند ر مودی ہر دم اوبامہ کے سامنے ہاتھ باندھے اور دم سادھے نظر آیا جبکہ سعودی عرب میں منظر بالکل الٹ تھااور یہاں اوبامہ کو تو نظریں اٹھا کر بھی دیکھنے اور چلنے کی جرات نہ تھی۔ دنیا کے ہر لحاظ سے خود کو مالک و مختار سمجھنے والے امریکی صدر کو سعودی فرمانروا نے تنہا چھوڑ کر جس طرح اپنے رب کی جانب رخ کیا تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ یاد آگئی جس میں آپۖ نے فرمایا۔”جس نے اللہ کی خاطر خود کو جھکا لیا ،اللہ تعالیٰ اس کو بلند و بالا کر دیتا ہے۔”قرآن پاک میںاللہ کا فرمان بھی خوب یاد آیا کہ ”اور اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے کہ ساری بھلائی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے،بے شکتواللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے”
سعودی حکمرانوں نے جس طرح ساری دنیا کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھ کر شریعت کا ملک میں قیام و نفاذ کر رکھا ہے بلا شک و شبہ ان پر ساری خیر برکت اسی سے ہے۔ابھی چند دن پہلے سعودی حکومت نے اقوام متحدہ اور دیگر تمام عالمی اداروں اور امریکہ سمیت کسی کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ملک میں توہین اسلام کے مرتکب ایک اپنے ہی انٹر نیٹ بلاگر شہری کو ایک ہزار کوڑوں اور 10 سال قید کی سزا سنا ڈالی تھیاور پھر اس پر سرعام عمل درآمد بھی کر کے دکھا دیا۔عالمی میڈیا اب تک چیخ و پکار کر رہا ہے لیکن سعودی حکومت کو ان کی نہیں بلکہ اپنے رب کی شریعت کی فکر ہے کہ اس پر آنچ نہ آئے۔اسی شریعت پر عمل کا تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کرتے ہو ئے فرمایا تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی نازل کرتا شریعت کے ایک حد کے قائم کرنے سے اتنی برکت نازل ہو تی ہے کہ جتنی بنجر زمین پر 40دن کی بارش سے بھی اس زمین کو حاصل نہیں ہوتی۔یہی وہ شریعت کا نفاذ ہے جس کی برکتیںآج سعودی سرزمین کو حاصل ہیں۔
سعودی عرب کے سوا دس سال تک حکمران رہنے والے شاہ عبداللہ تک انہوں نے اپنے عرصۂ حیات میں حرمین الشریفین کی توسیع کے اتنے بڑے منصوبے شروع کیے کہ ان کی نظیر ملناممکن نہیں۔حرمین شریفین میں ہرماہ دنیابھر سے آنے والے لاکھوں عازمین عمرہ اور ہرسال آنے والے حاجیوں کے لیے ہرطرح کی سہولیات کی فراہمی کے لیے انہوں نے اپنی ساری صلاحیتیں وقف کر رکھی تھیں۔سعودی عرب جانے والے عازمین حج و عمرہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ شاہ عبداللہ نے حرمین الشریفین کی ترقی و توسیع اور سہولیات کی فراہمی کے لیے قومی وسائل کاکس قدر دل کھول کر استعمال کیا تھا۔
انہوں نے اپنے تمام پیشرو حکمرانوں کی طرح اپنے سارے عرصۂ اقتدار میں ملک میں قائم شریعت اسلامی( جو اسلام دشمنوں کے لیے کسی طور موت سے کم نہیں) پرعمل درآمد میں ذرہ بھرآنچ نہ آنے دی تھی۔ انہوں نے ملک سے فتنہ تکفیر وخارجیت کابھی انتہائی کمال ذہانت و مہارت سے خاتمہ کیااور ملک میں مغربی جمہوری سازش کو بھی پنپنے کاذرا بھی موقع نہ دیا۔یہ سازش بحرین کے راستے سعودی عرب میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے بحرین کی درخواست پر اپنے ملک کی مسلح افواج وہاں داخل کرکے ناکام بنائی تھی۔وہ امریکہ کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اورانہوں نے ملک اورخطے سے امریکہ کو بھی نکال باہر کرنے میں زبردست ماہرانہ کردار ادا کیاتھا۔
ا للہ تعالیٰ نے سعودی عرب کی طرح انہیں بھی بے پناہ مال و دولت سے نواز رکھاتھا۔انہیں دنیاکا چوتھا بلکہ کبھی تیسرا امیر ترین حکمران کہاجاتاتھا لیکن جب وہ فوت ہوئے توانہیں ان کے ایک معمولی عبایامیں لپیٹ کر ایک عام سے تختے پر رکھ کرانتہائی سادگی کے ساتھ جنازہ کے لیے دارالحکومت ریاض کی جامع مسجد الترکی لے جایاگیا۔عین شرعی حکم پرعمل کرتے ہوئے ان کی بلاتاخیر اور فوری تدفین کااہتمام کیاگیا۔ جنازہ کے لیے کسی بڑے چھوٹے کی آمد کا انتظار نہ کیاگیا۔ جوسربراہان مملکت دیگ ملکوں سے جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچے’ ان کے لیے کوئی پروٹوکول نہ تھا۔ ریاست کے طاقتور ترین فرمانروا کی وفات کے بعد بھی شاہی خاندان کی کسی خاتون کاچہرہ تو دورکی بات ہے،ان کی باپردہ جھلک بھی دنیا نے نہیں دیکھی اور بغیر کسی آہ وبکاء اورماتم وگریہ کے انہیں انتہائی سادگی کے ساتھ شریعت اسلامی پر ہرلحاظ سے مکمل عمل کرتے ہوئے کچے قبرستان کی ایک کچی قبر میں سپردِ خاک کردیاگیا۔ان کے یوں انتہائی سادگی کے ساتھ عین شرعی تعلیمات و تقاضوں کے مطابق سفر آخرت نے بھی دنیا کے سامنے ایک نئی روشن مثال قائم کی۔یہ وہ شریعت اسلامی سے محبت اور عمل کی خوشبوہے جو دنیا بھر میں بطور ریاست سوائے سعودی عرب کے دنیا کے کسی ملک سے دیکھنے سننے کو نہیں ملتی ۔اللہ تعالیٰشاہ عبداللہ کو کروٹ کروٹ جنت کی بہاریں عطا فرمائے اور ان کی لغزشیں معاف کرکے ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین
تحریر :علی عمران شاہین