تحریر : انجم صحرائی
کل صبح عمر شاکر کی فون کال موصول ہوئی۔ نوجوان صحافی عمر شاکر چوک اعظم پریس کلب کے جزل سیکریٹری اور متحرک فعال جرنلسٹ ہیں ۔ عمر شاکر میرے اس وقت کے سا تھیوں میں سے ہیں جب وہ ایک دینی تعلیمی ادارہ کے منتظمین میں سے تھے تھے ایک دو بار مجھے بھی ان کے ادارہ کی تقریبات میں بحیثیت مہمان اعزاز شا مل ہو نے کا موقع ملا ۔ عمر شا کر نے کہا سر میں آپ کے کالم شب و روز کی آ ٹھویں قسط پڑھ رہا ہوں آپ نے جن صحا فتی تقریبات کا ذکر کیا ہے ان میں میں بھی مو جود تھا ۔ عید ملن پا رٹی میں اسلام آ باد سے جو صحا فی دوست تشریف لا ئے تھے ان کا نام علی شیر گلشن ہے علی شیر حیدری نہیں تصحیح فر ما لیں ۔ اسی طرح کیفے ارم میں ہو نے والے ادبی تنظیم التخلیق کے اجلا سوں میں شر کت کے حوالے سے میرے بہت ہی پیارے مبشر بیگ نے فیس بک پر کمنٹس دیئے کہ وہ بھی ان اجلاسوں میں شر کت کرتے رہے ہیں ۔ ایک بات جس کا تذ کرہ کر نا میںبھول گیا تھا وہ یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے اس زما نے میں مسلم لیگی حکومت اور روز نا مہ جنگ کے درمیان ایک بڑی معرکہ آ را ئی ہو ئی ۔ پاکستان بھر کے صحا فیوں اور صحا فتی تنظیموں نے روزنامہ جنگ کے حق میں حکو مت کے خلاف احتجا جی مظا ہرے کئے لا ہور پریس کلب میں بھی ایک بڑا احتجا جی کیمپ لگا یا گیا جو کئی دنوں تک جا ری رہا ۔ میں بھی اس احتجا جی کیمپ میں خصو صی طور پر شر کت کے لئے لیہ سے لا ہور گیا اور روز نا مہ جنگ کے حق میں حکو مت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا یا ۔ جس دن میں نے اس کیمپ میں شرکت کی اسی دن با با ئے جمہوریت نواب زادہ اللہ خان بھی صحا فیوں کے سا تھ اظہار یکہتی کے لئے کیمپ میں آ ئے تھے ۔کیمپ انعقاد کے کئی ہفتوں بعد سینئر صحا فی عبد الحمید سلیمی مجھے ملنے صبح پا کستان کے دفتر آ ئے اور یہ کہتے ہو ئے کہ میرے پاس تمہارے لئے ایک گفٹ ہے جو لا ہور سے ایک دوست نے مجھے دیا ہے اپنے ہا تھ میں پکڑے ایک خا کی لفا فے سے نکال کر ایک تصویر میری جا نب بڑھا ئی۔
یہ تصویر لا ہور پریس کلب میں لگا ئے جا نے والے اسی احتجا جی کیمپ کی تھی جس میں دیگر دوستوں کے سا تھ میں بھی احتجاج میں نما یاں تھا ۔کچھ عر صہ کے بعد جب میرے بڑے بیٹے نعمان حسن نے ایم سی اکائونٹس اینڈ فنا نس میں بی زیڈ یو ملتان سے ما سٹر مکمل کر لیا تب اس کی انٹرن شپ کا مسئلہ در پیش تھا ۔ میری خواہش تھی کہ نعمان کسی اچھے ادارے سے اپنی انٹرن شپ مکمل کرے سو میں نے ایک خط میر شکیل الر حمن کے نام تحریر کیا جس میں روزنا مہ جنگ کے حق میںلا ہور پریس کلب میں لگا ئے جانے والے احتجا جی کیمپ میں اپنی شرکت کا ذکر بھی کیا اور میر صاحب سے بالمشا فہ ملا قات کے لئے لا ہور روانہ ہو گیا ۔ ڈیوس روڈ پر واقع روزنا مہ جنگ دفتر کے استقبا لیہ پر میں نے جب بتا یا کہ میں میر صاحب سے ملنے چا ہتا ہوں تو انہوں نے پو چھا کہ کیوں ؟ میری داستاں سننے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنا خط ا ستقبالیہ پر ہی دے دوں پہنچا دیا جا ئے گا جو بھی کاروا ئی ہو گی آپ کو اطلاع دے دی جا ئے گی یہ سن کر میں نے اپنا خط استقبا لیہ پر ہی دے دیا ۔ لیکن بڑے انتظار کے بعد بھی مجھے ادارہ جنگ سے کو ئی ریسپا نس نہیں ملا۔
بات ہو رہی تھی ڈسٹرکٹ پریس کلب اور ضلعی انجمن صحا فیان کے پہلے انتخابات میںمنتخب عہدیداران کی تقریب حلف بر داری کے بارے ، جس کے مہمان خصو صی چو ہدری رحمت علی علوی تھے۔ مر حوم چو ہدری رحمت علی علوی لیہ سے تعلق رکھنے والے ان اولین وکلا میں سے ایک تھے جنہوں نے ضلعی ہیڈ کوارٹر مظفر گڑھ میں جا کر وکا لت شروع کی اور ایک معروف قا نون دان اور سیا ست دان کی حیثیت سے نام کما یا چو ہدری رحمت علی علوی پکے مسلم لیگی تھے مجھے ایک آ دھ دفعہ چو ہدری صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا میں نے انہیں ہمیشہ سفید شلوا ر قمیض ، شیروانی اور سر پر جناح کیپ پہنے دیکھا ۔ صدر ایوب خان کے دور حکو مت میں صدارتی انتخا بات میں چو ہدری رحمت علی علوی مادر ملت فا طمہ جناح کے سا تھ تھے ۔ 1970 میں ہو نے والے انتخابات میںچو ہدری رحمت علی علوی نے مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ بھی لیا مجھے یا د ہے کہ ان کا انتخا بی نشان لا لٹین تھا مختصر سے عر صہ کے لئے مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی رہے ۔ چو ہدری رحمت علی علوی کی تحریک پا کستان یا قا ئد اعظم پر لکھی گئی ایک کتاب بھی شا ئع ہو ئی تھی مجھے اس کتاب کا نام یاد نہیں لیکن وہ کتاب میری نظروں سے بھی گذ ری تھی ۔ ملک غلام محمد سواگ ان کے شا گرد خا ص اور کا رکن تھے1998 کے ہو نے والے انتخابات میںملک غلام محمد سواگ لیہ سے ایم پی اے بھی منتخب ہو ئے مگر زند گی نے ملک غلام محمد سواگ سے وفا نہ کی اور صرف ایک سال بعد1999 میں انہیں قتل کر دیاگیا ۔ ملک غلام محمد سواگ نے ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایک سٹوڈنٹ رہنما کی حیثیت سے سیاست کی اابتدا کی ۔ چو ہدری رحمت علی علوی کے بعد مسلم لیگ ضلع لیہ کے صدر منتخب ہو ئے مجھے یا د ہے میں نے ان کا نام پہلی بار بھٹو مخالف سیا سی اتحاد قو می اتحادکی طرف سے جناح پارک میں ہو نے والے ایک جلسہ میں سنا ۔ جلسہ کے مر کزی مقرر زا ہد سر فراز تھے اسی جلسہ میں مجھے پیر شمش منور گیلا نی کی تقریر سننے اور انہیں دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا اس جلسہ کے سٹیج سیکرٹری کے فرائض طالب علم رہنما ملک غلام محمد سواگ نے ادا کئے تھے ، ملک غلام محمد سواگ ایک متحرک اور ہمہ وقت مسلم لیگی کا رکن تھے یہ اسی دور کی بات ہے جب میاں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے اور میں جما عت اسلا می سے دوری کے بعد تحریک استقلال میں شا مل ہو چکا تھا تحریک استقلال پنجاب کے صدر ملک حیدر عثمان لیہ کے تنظیمی دورے پر آئے ہم نے ان کے دورہ کی منا سبت سے کوٹ سلطان کے ایک پرا ئمری سکول میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا ہم کار کنوں نے بر لب سڑک سکول سے ملحقہ گرا ئونڈ میں ایک رات پہلے ٹینٹ اور شا میا نے لگا دئیے تھے مجھے اندازہ تھا کہ وسیب کے آ قا ئوں کو ہم ننگے پیر اور بے حیثیت سیا سی کا رکنوں کی یہ سیا سی دھما چو کڑی اچھی نہیں لگے گی اور میری گر فتاری سمیت کو ئی بھی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے انہی مسا ئل کا ادراک کرتے ہو ئے میں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو لیہ سسرال بھیج دیا ۔ اگلے دن سہہ پہر تین بجے جلسہ ہو نا تھا صبح صبح ایک پو لیس رضا کار میرے پاس آ یا اور مجھے کہا کہ مجھے تھا نیدار صاحب تھا نے بلا رہے ہیں ۔ میں نے کہا تم چلو میں آ تا ہوں وہ چلا گیا ابھی تھوڑا ہی وقت گذ را تھا کہ وہی رضا کار ایک پو لیس کا نسٹیبل کے ہمراہ میرے گھر پہنچ گئے اور مطا لبہ کیا کہ میں ان کے سا تھ تھا نے چلوں ۔ میں نے کہا آپ جا ئیں میں آتا ہوں مگر وہ نہ ما نے اور کہا آپ ہمارے ساتھ چلیں میں ان کے سا تھ ہو لیا جب لو گوں نے مجھے پو لیس کے ساتھ جا تے دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ اب جلسہ نہیں ہو گا چو نکہ علا قے کے سیا سی پرو ہت کئی دنوں سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ ہم یہ جلسہ نہیں ہو نے دیں گے ہم جب تھانے پہنچے ایس ایچ او کے کمرے میں ایک سر دار صاحب سگرٹ کا دھواں اڑاتے گپ شپ میں مصروف تھے میں تھا نیدار سے کبھی نہیں ملا تھا تھا نیدار نے بڑی خشمگیں نگا ہوں سے مجھے دیکھا اور بو لا یہ آپ نے سکول کے گرا ئونڈ میں کیا میلہ لگا یا ہوا ہے اوپر سے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں ان ٹینٹ اور شا میا نوں کو اکھڑوا دوں۔
یہ کہ کر اس نے استہفا میہ نظروں سے مجھے دیکھا میں نے جواب دیاکہ پھر اکھڑوا دیں ۔ اس کے لئے یہ میرا یہ جواب قطعی غیر متوقع تھا کہنے لگا کہ پو لیس اکھا ڑے گی تو آپ کی بے عز تی ہو گی میں چا ہتا ہوں کہ آپ خود اکھاڑ لیں میں کر سی سے اٹھتے ہو ئے بو لا جناب اگر میں نے اکھا ڑنے ہی ہوتے تو پھر میں اور میرے کارکن سا تھی ساری رات لگا نے کی زحمت کیوں کرتے ، آپ کو پتہ ہے کہ آج ہمارا جلسہ ہے میرے مہمان آ نے والے ہیں میں چلتا ہوں ہم نے مہما نوں کا استقبال کرنا ہے مجھے اپنا کام کر نا ہے آپ اپنا کام کر یں میں یہ کہتے ہو ئے تھا نے سے نکل آ یا میرے تھا نے جانے اور بخیرو عا فیت نکل آ نے کی خبر نے ما حول خا صا گرم کر دیا اس زما نے کاکوٹ سلطان ایک چھوٹا سا قصبہ تھا یہ خبر جنگل میں آ گ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی جب حیدر عثمان ایک بڑے جلوس کے ساتھ کوٹ سلطان پہنچے تو تقریبا ایک سو سے زائد سا ئیکل سوار نو جوا نوں نے شہر سے با ہر آ کر ان کا استقبال کیا ۔ مقا می سیا سی وڈیرے نہیں چا ہتے تھے کہ عام لو گوں کا یہ جلسہ عام منعقد ہو مگر جب انہیں اس میں نا کا می ہو ئی تب انہوں نے پو لیس کا سہا را لیا ۔ سارادن تھا نیدار بہادر مجھے جلسہ ملتوی کر نے اور پنڈال سے شا میا نے اکھاڑنے پر مجبور کرتے رہے مگر میں ان کے قا بو نہیں آ یا اسی لئے کھسیانی بلی کھمبا نو چے کے مصداق جلسہ کے اختتام پر پو لیس نے بلا وجہ کاروائی کرتے ہو ئے مجھے اور شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ جو اس وقت تحریک استقلال کے ضلعی صدر تھے کو گر فتار کر لیا ، ہماری گر فتاری پر جلسہ میں شریک عوام مشتعل ہو گئی جس پر پو لیس کے بہادر نو جوانوں نے نہتی عوام پر لا ٹھی چارج کر تے ہو ئے لو گوں کو منتشر کر نے کی کو شش کی رد عمل میں لو گوں نے بھی پتھر اٹھا لئے سکول کا میدان اور سڑک کا فی دیر میدان جنگ بنے رہے۔
ہمیں گرفتار کر کے تھا نے لے جا یا گیا تب مجھے ڈیو ٹی تھا نیدار کے نام کا پتہ چلا ، تو نسہ کے فیض محمد خان ابھی چند دنوں پہلے ہی تھا نے میں تعینات ہو ئے تھے انہوں نے تھانے میں ہم قید یوں کو کر سیاں پیش کر تے مسکراتے ہو ئے کہا کہ صحرائی صاحب اندازے کی غلطی ہو گئی ہے میں نے انہیں ہنستے ہو ئے جواب دیا کہ اس تعاون پر آ پ کا مشکور ہوں اگر سارا دن یہ گر ما گر می نہ ہو تی تو شا ئد اتنی بڑی خبر نہ بنتی واقعی تھا نیدار بہادر نہیں جا نتے تھے کہ میں تو اس سے پہلے بھی سیا سی جدو جہد میں کئی بار جیل یا ترا ئوں کا اعزاز حا صل کر چکا تھاہمیں تھا نے کی جوڈ یشل حوالات میں بند کر دیا گیا میں بہت تھکا ہوا تھا مجھے جلد ہی نیند نے آ گھیرا رات کے گیارہ بجے ہوں گے شیخ نذر حسین نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھا یا میں نے آ نکھیں کھو لیں تو دیکھا کہ سلا خوں کے باہر ملک غلام محمد سواگ اپنے چند دو ستوں کے ہمراہ آ ئے ہوئے ہیں ۔ دعا سلام کے بعد شیخ نذر کہنے لگے کہ ملک صاحب ہمیں لینے آ ئے ہیں کہتے ہیں ابھی چلو آپ کو ضمانت کے لئے مجسٹریٹ کے سا منے پیش کر نا ہے میں نے کہا پھر ؟ کہنے لگے میں نے انکار کیا ہے ہم کیوں رات کو ضما نت کرا ئیں ہم نے کو ئی چوری کی ہے یا ڈاکہ ڈالا ہے ۔ جو ہم رات کے اند ھیرے میں ضمانت کرائیں ۔ہم صبح عدالت میں پیش ہو ں گے جہاں ہمارے وکلا با ضا بطہ ضما نت کی در خواست دائر کریں گے میں نے کہا لیڈر آپ نے با لکل ٹھیک کہا ملک غلام محمد سواگ نے بڑا اصرار کیا کہ ہم ابھی ان کے ساتھ چلے جا ئیں مگر ہم نے انکار کر دیا۔
ملک غلام محمد کے جا نے کے بعد شیخ نذر کہنے لگے کہ یار یہاں کے مچھر تو بہت بڑے بڑے ہیں مجھے تو نیند نہیں آ ئی تم کیسے خرا ٹے لے رہے ہو میں نے کو ئی جواب نہ دیا کروٹ لی اور ایک بار پھر خواب خر گوش میں کھو گیا ۔ صبح جب پو لیس ہمیں لے کر مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچی تو کار کنوں کی ایک بڑی تعدادذو الفقار نیازی کی قیادت میں سول کورٹ میں مو جود تھی کار کنوں نے ہمیں پھو لوں کے ہا روں سے لاد دیا ، نعرہ بازی بھی ہو ئی میں نے دیکھا کہ سبھی اخبارات نے کل کے واقعہ کی زبر دست طریقہ سے کوریج کی تھی یہاں تک کہ نثار عادل کی بھیجی ہو ئی خبر جنگ نے تین کالمی صفحہ اول پر شا ئع کی ۔ اخبارات میں ایک بیان حیدر عثمان کا بھی شا ئع ہوا تھا جس میں انہوں نے کوٹ سلطان کے جلسہ عام میں شریک لو گوں پر پو لیس لا ٹھی چارج کی بھر پور مذ مت کرتے ہو ئے وزیر اعلی کو متنبہ کیا تھا کہ اگر پو لیس گردی نہ رو کی گئی تو وزیر اعلی بھی پنجاب میں کہیں جلسہ نہ کر سکیں گے۔ مجھے پریس کے ایک دوست نے بتایا کہ حیدر عثمان کے حوالے سے تحریک استقلال کے اس جلسہ پر ہو نے والی لا ٹھی چارج کی خبر بی بی سی سے بھی نشر ہو ئی تھی ۔ وللہ اعلم با لصواب ۔ کوٹ سلطان کے اس جلسہ عام میں لیہ سے شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ ، فضل قریشی ایڈ وو کیٹ ، حق نواز بھٹی ،چوک اعظم سیملک حق نواز ، امیر نیازی اور غلام رسول اصغر ، جمن شاہ سے نور محمد چا نڈیہ ، مہر اعجاز احمد میلوانہ ، مہر محمد یو سف پوسٹ مین ، مہر محمد علی اچلا نہ اور کروڑ سے ملک محمد سلیم بود لہ ایڈ وو کیٹ سمیت تحریک استقلا ل کے سا تھی بہت بڑی تعداد میں شریک ہو ئے تھے۔۔۔
تحریر : انجم صحرائی