تحریر : ایم سرور صدیقی
آپ نے گھپ ٹوپ اندھیری رات میں جگنوئوں کو چمکتے تو دیکھا ہوگا روشنی کی کرنیں جگنوکے جسم سے پھوٹتی ہیں تو ایک عجب بے نام سا احساس ہوتاہے اور قدرت کے اس کمال پر حیرت بھی۔۔۔کالی رات میں جگنوکو دیکھ کر یہ بھی گمان ہوتاہے جیسے کسی نے مشعل اٹھارکھی ہو ۔کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔۔۔ایک بزنس مین نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ کامیابی کیلئے زندگی میں دو کام انتہائی ضروری ہیںپہلا جب تم کسی سے کوئی وعدہ کروتواسے پورا کرنے کے لئے نفع نقصان کی پروا ہ مت کرنا۔۔۔اور دوسرا لڑکے نے استفسار کیا
بزنس مین نے سنجیدگی سے کہا دوسرا یہ کہ ۔۔تم کوشش کرنا کسی سے وعدہ ہی نہ کرو۔ کیونکہ۔ وعدہ کریڈبیلٹی ہوتا ہے مذہب میں بھی وعدے کی بڑی اہمیت ہے یہ الگ بات کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے اس کا سیدھا سادامطلب یہ ہے کہ جان چھڑانے کیلئے وعدہ کرلو پورا کرو نہ کرو کوئی بات نہیں بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر قومی رہنمائوں کا یہی مسلک ہے وہ اسی دروگوئی کو سیاست کا نام دیتے ہیں شاید اسی صورت ِ حال پر غالب نے کہا تھا
تیرے وعدہ پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
ہم خوشی سے مر نہ جاتے ،گر اعتبار ہوتا
جھوٹے وعدے کرنے والے دوسروںکو الو بنانے کافن جانتے ہیں اور بے چارے مسائل کے مارے لوگوںکے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ماضی میں تو سناکرتے تھے وعدہ خلافی عاشق ِ نامدار سے ان کے محبوب کیا کرتے ہیں اسی لئے ہجرو وصال کے دوراہے پر عاشق ٹھنڈی آہیں بھرکر وقت گذارا کرتے کئی اسی کش مکش میں شاعر بن جاتے ویسے ہجرو فراق میں صندل کی طرح سلگتے رہنے کا اپنا مزاہے لیکن اب اب کچھ قدریں، محاورے اور حالات بدل گئے ہیں دل جو کبھی جلتا بھی نہیں بجھتا بھی نہیں کی تفسیر بنارہتاتھا اب بجلی کی آنکھ مچولی سے سلگتارہتاہے مگر جب بجلی کا بل آتاہے ایک دل نہیں پورے کے پورے خاندان کے دل کسی عاشق ِ رو سیاہ کی مانند جل اٹھتے ہیں اس لئے اب ڈاکٹر مشورہ دینے لگے ہیں
کمزور دل کے لوگ بجلی کے بل دیکھنے سے گریز کریں ہمارے ایک حکمران نے احتجاجی کیمپ میں ہاتھ والا پنکھا اداکارہ انجمن کے اندازمیں جھلتے ہوئے علی الاعلان دعویٰ کیا تھاہم نے اقتدارمیں آکر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا انہیں حکومت میں آئے ڈیڑھ سال ہو چلاہے لیکن۔۔۔وہ دن اور آج کا دن عوام انہیں وعدہ یاددلاتے ہیں اور وہ آئیں بائیں شائیں کرتے وقت گذاررہے ہیں ”عوام ”نے تو انہیں اپنا محبوب جان کر اتنے ووٹوں دے دئیے تھے اب تلک ووٹر،مسلم لیگ ن اور اپوزیشن والے اس قدر حیران پریشان ہیں کہ انہیں یقین ہی نہیں آرہا جبکہ لوڈ انہوں نے لوڈشیڈنگ مکانے کا وعدہ کیا تھا پانچویں دن کا شاید کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
ایک بقراط کا خیال ہے کہ وعدے ایفا کرنے کیلئے نہیں کئے جاتے ایویں وعدے پورے کرکے عوام کا دماغ خراب کرنے والی بات ہے۔۔۔وعدے پورے اور مسائل مک گئے تو کل کون پاگل ان سیاستدانوں کو ووٹ دے گا بھٹو نے اس قوم کو روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ دیا۔۔۔ضیاء الحق نے اسلامی نظام کا وعدہ کیا۔۔۔بے نظیر بھٹو نے اپنے والدکا منشور اپنایا۔۔۔ میاں نواز شریف اپنے آپ کو Made in Pakistan کہتے رہے۔۔۔جنرل پرویز مشرف سب سے پہلے پاکستان کی گردان کاورد کرتے رہے ان میں سے کوئی دعوےٰ سچ ہوا۔۔۔ کوئی وعدہ پورا کیا گیا اب عمران خان نیا پاکستان بنانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری انقلاب لانے کی نوید سنارہے ہیں ان دعوئوں۔۔۔
ان وعدوں کا کیا حشر ہوگا کوئی نہیں جانتا؟ مگر کہتے ہیں
امیدپر دنیا قائم ہے۔۔۔ اسی لئے تو کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔ دنیا میں ہر شخص خواب دیکھتاہے اپنی ترقی، خوشحالی اورسنہرے دنوں کے خواب یا پھراولاد کے تابناک مستقبل کے سپنے۔۔۔ کوئی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا رہ جاتاہے اس دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوتے ہیں غالباً دس فی صد بھی نہیں۔۔۔ اقوام ِ عالم میں اکثر کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں پاکستان میں ایسے افرادکی تعدادففٹی سے بھی تجاوزکر چکی ہے جن کی زندگی کا مقصد صرف پیٹ کا دوزخ بھرناہے ان میں لاکھوں ایسے بھی ہیں جن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک ہوتاہے ان کے بچوں سے بیگارلی جاتی ہیں گھرکی خواتین بھی کھیتوں اور بااثر افرادکے گھروںمیں کام کرتی ہیں جہاں عزت محفوظ ہے نہ عصمت۔۔۔کام کے عوض اجرت دینے کا وعدہ ۔۔۔اس کے باوجود بہتر مستقبل کاخواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی عائدنہیں کی جا سکتی۔۔۔
امید توبندھ جاتی، تسکین توہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ،وعدہ تو کیا ہوتا
حالات کے مارے لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب امید دم توڑ دیتی ہے۔۔۔برصغیر کے کروڑوں افراد خط ِ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں یہاں کی حکومتوں نے عوام کو ان کے حال پر چھوڑرکھاہے عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے ہر حکومت ،ہر سیاستدان وعدے تو بہت کرتاہے لیکن عملاً عوامی فلاح و بہبود کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے ملکی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکزہ وکر رہ گئے ہیں جمہوریت ،آئین اور قانون ان کے گھر کی لونڈی بن کررہ گیاہے کئی افریقی ممالک میں تو اس سے بھی براحال ہے وہاں وسائل اتنے کم ہیںکہ لوگوں کو کئی کئی ماہ گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا اب یہ تو معلوم نہیں وہاں کے لوگوں کوبہتر زندگی گذارنے کی کوئی امید بھی ہوتی ہے یا نہیں۔۔۔وہ رنگین خواب بھی دیکھتے ہیں یا نہیں؟
یہ الگ بات کہ وسائل پرقابض رنگین خواب بھی دیکھتے ہیںا ورسنگین خواب بھی۔۔۔ان خوابوںکی تعبیر بھی ہوتی ہے بلکہ خواب پہلو سے لگ کراٹھکیلیاں بھی کرتے ہیںبس امیر اور عریب کے خوابوںمیںیہی ایک فرق ہے۔۔۔اسے کہا جا سکتاہے فرق صاف ظاہر ہے۔ ۔ وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔کل میرے ایک دوست نے کہا ہمارے حکمرانوںنے ہم سے خواب بھی چھین لئے ہیںہر طرف مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی کے بلوںکی حال دہائی مچی ہوئی ہے اس ماحول میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے کچھ نئے خواب دکھاکر امید دلائی ہے یہی وجہ ہے کہ جب جب یہ دونوں تقاریر کرتے ہیں
میری آنکھوں میں جگنو سے لرزنے لگتے ہیںاللہ نہ کرے یہ بھی ماضی کی طرح سراب ہو ایسا ہواتو ہم امیدوںکے صحرا میں بھٹکتے پھریں گے اور راستہ بھی نہیں ملے گا۔۔۔دوست کی باتیں اپنی جگہ پر ۔۔اس وقت وی آئی پی کلچرکے خلاف جو بیداری کی لہر آرہی ہے ا س نے پورے ماحول کو متاثر کرکے رکھ دیاہے تبھی تو کل دل کی بات ایک حکمران کے ہونٹوںپر آہی گئی حالانکہ یہ راز تو ان جیسے لوگ کئی دہائیوں سے چھیائے پھر تے ہیں ان کا خدشہ تھا انقلاب آیا تو غریب ۔۔۔ امیروںکا نام ونشان تک مٹا ڈالیں گے۔۔۔یہ خدشہ بے بنیاد نہیں ایک حقیقت ہے اور وہ وقت آن پہنچاہے جب سب کو لازماً اس کا سامنا کرنا پڑے گا جب حکمران حال مست۔۔۔مال مست ہو جائیں۔۔۔ اقتدارکی بندر بانٹ اوروسائل پر مک مکاکو جمہوریت کا نام دیدیا جائے۔۔۔جب عام آدمی روٹی کے لقمے لقمے کو ترس جائے۔۔۔
حکمران وعدے کرکے عوام کا حال تک نہ پوچھیں ان کے پاس دولت کے پہاڑ جمع ہو جائیں۔۔لوگوںکی امید دم توڑنے لگے۔۔۔ خواب ڈارونے خواب بن جائیں تو پھر وہ انقلاب آکررہتاہے جس سے حکمران ابھی سے خوفزدہ ہیں۔۔آپ نے گھپ ٹوپ اندھیری رات میں جگنوئوںکو چمکتے تو دیکھاہوگاروشنی کی کرنیں جگنوکے جسم سے پھوٹتی ہیں تو ایک عجب بے نام سااحساس ہوتاہے اور قدرت کے اس کمال پر حیرت بھی۔۔۔کالی رات میں جگنوکو دیکھ کر یہ بھی گمان ہوتاہے جیسے کسی نے مشعل اٹھارکھی ہو ۔کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیں جومایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے کاش کوئی حکمرانوںکو یہ بتانے کی جسارت کرے کہ جب آنکھیں امید کے لرزتے جگنوئوںکا مدفن بن جائیں تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں پھر میں میں نہیں تو تو نہیں رہے گا یہ ماحول۔۔یہ سماج ۔۔۔یہ نظام نہیںرہے گاشاید قیامت سے پہلے قیامت کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے اس وقت ہر شخص کا نام ہوگا انقلابی پھرجوحالات جنم لیں گے ان کے سامنے انقلاب ِ فرانس یا انقلابِ لیبیا بھی بے وقعت ہو جائے گا ایسے وقت سے ہم سب کو ڈرنا چاہیے۔
تحریر : ایم سرور صدیقی