تحریر: نجیم شاہ
تاریخ 7 فروری ، سال 2015ء اور دن ہفتہ کا تھا۔ ایک بڑی تعداد میں سیاسی جماعت کے کارکنان الیکشن ٹربیونل آفس کے سامنے جمع ہو کر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ اسی دوران ایک پُرجوش خاتون نے مجمع میں موجود کارکنان پر نظر دوڑائی اور سب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کیا وہ اپنے لیڈر کیساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے تیار ہیں؟ کارکنان نے جیسے ہی باآواز ”تیار ہیں” کا نعرۂ بلند کیا تو مذکورہ خاتون نے جوش بھرے انداز میں ”گو نواز گو” کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ یہ نہ ہی تحریک انصاف اور نہ حکومت مخالف کسی دیگر سیاسی جماعت کے کارکنان تھے بلکہ انکا تعلق حکمران مسلم لیگ (ن) سے تھا جو الیکشن ٹربیونل لاہور میں انتخابی حلقہ 122 میں ہونے والی مبینہ دھاندلی بارے بیان قلمبند کروانے کیلئے آنیوالے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا دفاع کرنے اور انہیں سپورٹ کرنے آئے تھے۔
متوالی اتنی پرجوش تھیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا نعرۂ لگا رہی ہیں۔ ابھی صرف دو ہی نعرے لگائے تھے کہ اسکے ساتھیوں کو غلطی کا احساس ہو گیا، ایک نے آگے بڑھ کر خاتون کو خاموش کرایا، جس کے بعد مذکورہ خاتون کارکن غلطی کا احساس ہونے پر سوری بولتی رہیں اور بتایا کہ وہ دراصل ”رو عمران رو” کا نعرۂ لگانا چاہتی تھی لیکن زبان پھسلنے کے باعث ”گو نواز گو” کا نعرۂ لگ گیا۔ سلپ آف ٹنگ یا زبان کا پھسل جانا ایک قابل نظرانداز غلطی سمجھی جاتی ہے لیکن جب یہ غلطی سیاست دان اور حکومتی یا پارٹی سربراہان کی جانب سے ہو تو وہ پریشان حال افراد کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں ایسی چیزیں بہت عام ہیں۔ سیاست دان تو کیمرے کے سامنے پتا نہیں کیا کچھ اول فول بک جاتے ہیں
یہاں تو صرف زبان پھسلی ہے۔ اس پر شرمندہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، کیونکہ اس سے عوام کو تفریح اور مسکراہٹ کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔ جوشِ خطابت کے دوران زبان پھسلنے کے معاملے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تاحال سرفہرست ہیں۔ سیاسی ٹوٹے کہے جانے والے ماضی کے چند واقعات میں ہمارے سیاستدان جوشِ خطاب میں کہنا تو کچھ اور چاہتے تھے مگر کہہ کچھ اور گئے۔ 2013ء میں انتخابی مہم کے دوران شریف برادران بجلی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہے۔ شہباز شریف نے علی پور چٹھہ میں جلسہ عام کے دوران جہاں پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا وہاں جوش میں انہوں نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ ”اگر ہمیں موقع ملا تو ہم دو سال میں بجلی ختم کر دینگے”۔ ساتھ اسٹیج پر کھڑے لوگ بھی سوچے سمجھے بغیر اِن شاء اللہ، اِن شاء اللہ کہتے رہے۔
انہوں نے چار مختلف تقریروں میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے الگ الگ دعوے کئے۔ پہلے چھ ماہ، پھر ڈیڑھ سال، پھر دو سال اور پھر تین سال۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ ایک اور انتخابی جلسے کے دوران شہباز شریف کا کہنا تھا ”اب وقت آگیا ہے کہ شیر، بلے اور تیر کو توڑ دیا جائے”۔ حکومت میں آنے کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی ایک تقریب میں طلبہ سے خطاب کے دوران بھی وزیراعلیٰ پنجاب کی زبان اچانک پھسل گئی اور جوشِ خطابت میں کہا کہ ”اگر لیپ ٹاپ میں ایک روپے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو آپ کا گریبان اور میرا ہاتھ ہوگا”۔ جس پر طلباء بھی بلاسوچے سمجھے تالیاں بجاتے رہے۔
شہباز شریف کا جوشِ خطاب دیکھ کر نواز شریف کیسے خاموش رہ سکتے تھے اور انتخابی مہم کے دوران میانوالی کے جلسے میں وہ بھی بول پڑے کہ ”بجلی نے آپ کی کمر توڑی ہے، ہم دو سال میں اس کی کمر توڑ دینگے”۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زبان بھی ایسی پھسلی کہ جوشِ خطابت میں مسلم لیگ (ن) کیلئے ووٹ مانگتے رہے۔ اٹک میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ”گیارہ مئی کو مہربانی کریں اور پولنگ اسٹیشن جا کر شیر کے اوپر مہر لگائیں” تاہم ساتھ کھڑے شخص نے انہیں کہا کہ بَلے پر مہر لگانی ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ ”ہاں بالکل بَلے پر مہر لگائیں ، شیر کا تو میں شکاری ہوں۔
اصل میں کبھی کبھی سچی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے خان صاحب نے اپنا ذاتی ووٹ شیر کو ہی ڈالا ہو۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں سرکاری ٹی وی نے صدر زرداری کی تقریر ایک بار چلنے کے بعد سنسر کر دی تھی۔ اس تقریر میں آصف علی زرداری نے جوشِ خطابت میں قائداعظم کو نان گریجویٹ کہہ دیا تھا جس کے بعد ساری ایوان صدر کی فوج زرداری صاحب کے دفاع کو نکل آئی کہ صدر کی تقریر تحریر نہیں تھی اور پھر سرکاری ٹی وی سے ان کی تقریر ایڈٹ کرنے کے بعد نشر ہوئی۔ اکتوبر 2014ء میں ایک طویل تقریر کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی زبان کئی بار پھسلی، ایک بار تو وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو وزیراعظم پنجاب بھی کہہ گئے۔
پیپلز سیکرٹریٹ میں ہونیوالی پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک کی زبان بھی ایسی پھسلی کہ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر کو بدستور ”صدر آصف علی زرداری” کہہ کر پکارتے رہے۔ خورشید شاہ نے بھی زبان پھسلن کے باعث بھارت کے قومی پرچم ”ترنگا” کو اپنا جھنڈا قرار دیدیا تھا۔ اسی طرح منظور وسان نے بھی ایک دفعہ زرداری کو پارٹی کا ”کو چیئرمین” کہنے کے بجائے ”چور چیئرمین” کہہ دیا۔ صوبہ پنجاب کے سابق وزیر قانون اور مسلم لیگی رہنمائ رانا ثناء اللہ بھی ماضی میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ”مسلم لیگ (ن) نہ ہی ایک سیاسی جماعت ہے، نہ ہم نے اس کو سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے۔ یہ ابن الوقت لوگوں کا گروہ ہے
یہ ایک مفاد پرست لوگوں کا گروہ ہے”۔ رانا ثناء اللہ دراصل (ق) لیگ کو نشانہ بنا رہے تھے مگر زبان پھسلنے کی وجہ سے اپنی ہی پارٹی کو رگڑ ڈالا۔ بلاول ہائوس میں پی پی پی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقدہ ایک جلسے میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زبان بھی ایک بار پھسل پڑی جب وہ بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ جب سڑکوں پر نکلیں گے تو عوام کا ہجوم اسی طرح آپ کے پیچھے ہوگا جیسے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پیچھے ہوتا تھا۔ قائم علی شاہ نے ذوالفقار بھٹو کی 1971 ء کی مثال دی کہ انہوں نے کراچی کے 15حلقوں میں سے 8 پر کامیابی حاصل کی اور جب ایئرپورٹ پر اترے تو عوام کے ہجوم کی وجہ سے انہیں ”نائن زیرو” پہنچتے چار گھنٹے لگ گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ دراصل ”سیون زیرو” کلفٹن کی مثال دینا چاہتے تھے
لیکن ز بان کے پھسلنے سے ”نائن زیرو” کا لفظ ان کی زبان پر آگیا اور اسٹیج کے برابر میں موجود صحافی ہنس کر تبصرے کرتے رہے کہ ”1971ء میں نائن زیرو کا کہاں وجود تھا؟” عمران خان کے لاہور دھرنے میں ایک بار شیخ رشید احمد کی زبان بھی پھسل گئی اور کہہ ڈالا کہ ”ہم وزیراعظم نواز شریف کے حکم پر جاتی امراء کا گھیرائو کرینگے”۔ قومی اسمبلی میں بحث کے دوران ایک بار مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کی زبان بھی پھسل گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ”آئیں بلوچستان و سندھ کے زخموں پر نمک رکھیں”، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ ”ان کے نمک کو مرہم پڑھا جائے۔
میاں عبدالمنان کی بات پر ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے تبصرہ کیا کہ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ آصف حسنین کے تبصرے پر ایوان میں قہقہے گونجنے لگے۔جن دنوں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے دھرنے اپنے عروج پر تھے تو پشاور میں مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام استحکام پاکستان کنونشن میں جوشِ خطابت میں پارٹی کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ نے ”گو نواز گو” کے نعرے لگا دیئے تھے۔ بعد میں اپنی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”گو نواز گو” کے نعرے دراصل نادانستہ طور پر ان کی زبان سے پھسل گئے تھے۔ دھرنے تو ختم ہو گئے مگر عوام کی تفریح ختم نہ ہو سکی، جس کی ایک مثال الیکشن ٹربیونل لاہور کے سامنے مسلم لیگ (ن) کی متوالی کا ”گو نواز گو” کا تازہ نعرۂ ہے۔ ”گو نواز گو” ایک متنازعہ سیاسی نعرہ ہے
جو وزیراعظم نواز شریف کی استعفیٰ کی مہم کے دوران تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے پاکستان میں استعمال کیا گیا۔ پچھلے چند مہینوں میں ”گو نواز گو” انتہائی مقبول ہوا اور بہت سے مواقع پر استعمال کیا گیا،جس کے ردعمل میں ”رو عمران رو” کا نعرہ سامنے آیا، جسے نواز شریف کے حامی عمران خان کے خلاف لگاتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف ”گو زرداری گو” اور بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ”گو بلاول گو” کے نعرے لگائے گئے۔ ایک نعرۂ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک کے خلاف ”گو خٹک گو” بھی منظرعام پر آیا جو پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن نے متعارف کرایا۔ ”گو نواز گو”نعرۂ ایک مختصر عرصہ میں بہت مقبول ہوا اور اکثر و بیشتر احتجاجوں اور مظاہروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک موقع پر گلو بٹ جو کہ مسلم لیگ (ن) کا حامی سمجھا جاتا ہے نے بھی ”گو نواز گو” کے نعرے لگائے اور اب (ن) لیگ کی متوالی نے بھی پیر صابر شاہ اور گلو بٹ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر اور وزیراعظم کے خلاف نعرۂ بلند کر دیا ہے۔ کہتے ہیں جو دل میں ہوتا ہے آخر زبان پر آہی جاتا ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے باہر متوالی کے منہ سے گو نواز گو نکل جانے کے بعد تحریک انصاف کی رہنماء شیریں مزاری نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن خود نواز شریف کو جانے کا کہہ رہے ہیں، لہٰذا وزیراعظم کو چلے جانا چاہئے۔ بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے ”گو نواز گو” کے نعرے کو عوام کے ذہنوں کے ہر ایک گوشے میں پہنچا دیا ہے۔
یہ نعرۂ چونکہ نواز شریف کے جمہوری پارٹنر اور سابق صدر آصف زرداری کو بھی اچھا لگتا ہے ، اس لیے بہتر ہو گا کہ میاں صاحب خود بھی اس نعرے کو اپنا لیں اور جس طرح اولمپکس ریس میں عوام اپنے پسندیدہ کھلاڑی کیلئے ”گو کارلوس گو” جیسے نعرے لگاتے ہیں، میاں صاحب بھی ”گو نواز گو” کو اپنے حق میں سمجھتے ہوئے خود بھی ”گو نواز گو” کہنا شروع کر دیں، ورنہ بقول اعتزاز احسن ”گو نواز گو” نہ جانے کب تک میاں صاحب کا پیچھا کرتا رہے گا۔
تحریر : نجیم شاہ