counter easy hit

الطاف حسین اور عمران خان آمنے سامنے

Pakistan

Pakistan

تحریر: سید انور محمود

کچھ عرصہ قبل میں نے ایک مضمون “ارض پاکستان کی گندی سیاست” میں لکھا تھا “اس ارض پاکستان میں سیاست ایک ایسی دنیا ہے جہاں لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک عام بات ہے۔اس میدان کے لوگ بڑے بے رحم، بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ ہیں، اس میدان میں وہ وہ اوچھے وار کیے جاتے ہیں کہ شاید جس کا تصور بھی نہ ہو، یہاں نہ عورت کا لحاظ ہے، نہ کسی کے مرتبے کا۔” گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی سیاست میں جہاں دہشت گردی، ٹارگیٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم ، کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ ہوا ہے وہاں تہذیب کی جگہ بدتہذیبی میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی میڈیا پرایک خبرنشر کی گئی جس کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری از خود نوٹس کیس کے دوران رینجرز نےواقعے میں ملوث ایک ملزم کی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت کاواقعہ حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔ رینجرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ بھتہ کے معاملے پر باقاعدہ منصوبہ بندی سےلگائی گئی جس میں ایک سیاسی جماعت ملوث ہے ۔ سیاسی جماعت سے مراد ایم کیو ایم تھا، اس خبر کے نشر ہونے کے بعد دوسرئے سیاسی لیڈروں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیریں مزاری نےاپنے ایک بیان میں کہاکہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں کئے گئے انکشافات سے واضح ہوگیا ہے کہ ایم کیوایم ایک سیاسی قوت نہیں بلکہ مافیا ہے اور اس مافیاکے جلاوطن قائدکو پاکستان بلاکرمزدوروں کے قتل کا مقدمہ چلایاجائے۔شریں مزاری کہناتھا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں 257 افراد کا سفاکانہ قتل ایم کیو ایم کی جانب سے بھتہ خوری کےلئے کی جانے والی وارداتوں میں سب سے ہولناک ہے۔

شریں مزاری کےاس بیان کے جواب میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کےمختلف ارکان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگانے والے سفاک فرد کا خفیہ تعلق تحریک انصاف کی شیریں مزاری سے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری کے مشکوک کردار سے کون واقف نہیں ۔بات شاید ختم ہوجاتی لیکن حیدرآباد میں جشن صبح نو کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جو گندی زبان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شریں مزاری اور پی ٹی آئی کی خواتین ورکر کےلیے استمال کی ہے اُس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے، ابھی پاکستانی معاشرہ اتنی پستی میں نہیں پہنچا ہے کہ اس قسم کی گندی زبان کو قبول کرلے۔ سیاست کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس میں اپنے بدترین مخالف کےلیے اسطرح کی زبان استمال نہیں کی جاتی اورجب ایک ایسا سیاستدان جو پاکستان کے سب سے بڑے اور پڑھے لکھے شہر کا لیڈرکہلاتا ہو وہ اسقدر گری ہوئی زبان استمال کرئے گا تو اس ملک کی سیاست کا اللہ مالک ہے۔ کچھ سال قبل جب عمران خان نے الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں کیس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا تو ایم کیو ایم نے عمران خان کے خلاف ایک امریکی عورت سیتا وائٹ سے ناجائز تعلق کا الزام لگایا اورعمران خان کے بارے میں کراچی میں وہ بہودہ وال چاکنگ کروائی کہ خود ایم کیو ایم کے ہمدرد بھی پڑھتے ہوئے شرماتے تھے۔

اس سے پہلے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے طویل ترین دھرنے کے دوران نواز شریف کی حمایت میں سرگرم مولانا فضل الرحمان بھی کچھ اسطرح کی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرچکے ہیں، مولانا کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ پاکستان میں مغربی تہذیب کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، دھرنوں میں رات کو مجرے ہوتے ہیں لیکن اس کو بڑے فخریہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا کے اصل الفاظ تھے کہ” دھرنے دن میں ہوتے ہیں ، رات کو مجرئے ہوتے ہیں”۔ مولانا کے اس غیر اخلاقی جملے کو صرف چند منٹ ٹی وی اسکرین پر دکھایا گیا، اُس کے بعد اس بیان کو نہ ٹی وی اسکرین پر دیکھا گیا اور نہ ہی نیٹ پر آنے والے اخبارات میں، اس لیے کہ شاید میڈیا کو یہ احساس ہوا کہ یہ بیان گھروں میں دیکھا اور سنا جائے گا، لہذا اسکو نہ دکھایا جائے اور نہ ہی سنایا جائے۔

عمران خان کے بارئے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک بدتمیز سیاستدان ہیں، عمران خان جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو ایک میچ کےدوران سینر کھلاڑی ظہیر عباس جو اُس وقت بھی چشمہ کا استمال کرتے تھے اُن سے فیلڈنگ کرتے ہوئے ایک گیند چھوٹ گئی تو عمران خان نے بلند آواز میں ظہیر عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”اوُ اندھے تجھے باہر بھیجو کیا”۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل نواز شریف نے باقاعدہ اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ وہ عام طور پرجلسوں میں بلا اٹھاکر مجھے مارنے کی بات کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں خطاب کے دوران وہ جس طرح کی زبان استمال کررہے تھے اسکو سوائے اُنکے حامیوں کے کوئی پسند نہیں کرتا تھا، وہ کسی افسر کو دھمکی دئے رہے ہوتے یا نواز شریف سے استعفی مانگ رہے ہوتے تو”اوئے” کا استمال بہت زیادہ کرتے، مثلا وہ کہتے تھے “اوئے نواز شریف میں تیرا استعفی لیے بغیر واپس نہیں جاونگا”۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکر جو زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں عام طور پر سوشل میڈیا پر عمران خان کے مخالفین کے ساتھ سب سے زیادہ بدتمیزی کرتے ہیں۔

یقینا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی کے ارکان کے اُن بیانات کی جن میں میں پی ٹی آئی کی خواتین کے بارئے میں نازبینا الفاظ استمال کیے گے ہیں حمایت نہیں جاسکتی لیکن اس کے ساتھ ہی عمران خان کے اُن بیانات کو بھی پسند نہیں کیا جاسکتا جس میں وہ الطاف حسین کو گیدڑ، پاگل اور دہشتگرد کے خطاب سے نوازرہے ہیں۔آج عمران خان الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو یوں روُ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ انہوں نے بہودہ الفاظ کا استمال کیاہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دھرنے اور جلسوں میں پی ٹی آئی کے ورکروں کو میڈیا پرسن اور خاصکر خواتین ورکرز کے ساتھ بدتمیزی کرنے کا حق کس نے دیا تھا؟ عمران خان کی لڑائی جیو نیوز اور جنگ گروپ سے ہے، وہاں کام کرنے والے چھوٹے ورکروں اورخاصکرخواتین سے نہیں لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن نہیں جانتے کہ اخلاقیات کس چڑیا کا نام ہے؟خواتین کا احترام کیا ہوتاہے؟تمیز کس بلا کو کہتے ہیں؟ اس پورئے عرصئے میں عمران خان کو کبھی خواتین کی عزت کا خیال نہیں آیا۔عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے یہ پاکستانی سیاست ہے جو گندگی سے لتھڑی ہوئی ہے لہذا مخالف کے خلاف بولنے سے پہلے جواب کے بارئے میں سوچ لینا چاہیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاست اسی طرح نفرت کے بیج بوتی رہے گی؟ کیا ملک کے حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما بے صبری، عدم برداشت، بدتہذیبی کی پالیسی کواپنا لیں اور سیاسی اختلاف کا جواب دلیل کے بجائے گالیوں سے دیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج الطاف حسین اور عمران خان اپنی اپنی بدتہذیبی کے ساتھ آمنے سامنے ہیں۔ الطاف حسین اور عمران خان جب آپ اپنی زبانوں کونہیں سنبھال سکتے تو ملک کو کیا خاک سنبھالیں گے؟۔ ابھی یہ مضمون ختم ہی ہوا تھا کہ میڈیا پر یہ خبر آگئی کہ الطاف حسین نے نہ صرف شریں مزاری سے بلکہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں شامل تمام خواتین سے معافی مانگ لی، کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان بھی نہ صرف الطاف حسین سے اپنے کہے ہوئے الفاذ پر معذرت کرلیں اور اُن میڈیا ورکر خواتین سے معافی مانگ لیں جن کی دھرنے اور جلسوں کے دوران پی ٹی آئی کے ورکروں نےبےعزتی کی تھی۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقینا سیاسی تناوُ میں کمی آئے گی۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر : سید انور محمود