تحریر : وقارانساء
پہلے آرٹيکل پر عنوان لکھا لوٹ مار لیکن وہ کچھ جچا نہیں اس لئے لٹ مار لکھا-) خوشخبری- سیاستدانوں اور خاص طور پر اراکين پارلیمنٹ کے لئے چنیوٹ میں سونے کے خزانے دریافت ہو گئے اس کے ساتھ پیتل اور لوہے کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں- آپ کہیں گے کہ خوشخبری صرف ان کے لئے ہی کیوں ؟ تو جناب کیا آپ نے یہ خبر نہیں سنی تھی کہ اراکين پارلیمنٹ کو سونے سے بھی بہت محبت ہے؟ بہت سی خواتين نےتين تين کلو اور چار چار کلو سونا اکٹھا کر رکھا ہے –
ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ ہی ہو ؟ اتنی تو خبر ھم سب نے سنی تھی – سونا لوگ کس طرح جمع رکھتے ہیں –پنجابی میں کہتے ہيں سونے دیاں اٹاں ماڈرن لوگ کہتے ہیں گولڈ بار- کچھ کہتے ہیں سونے کے بسکٹ- اب ھم اور آپ کيا جانیں؟ کہ اٹاں کنياں وزنی نے- خير جب يہ خبر سنی تو ہم بچپن میں نظر سے گزرا ہوا يہ ٹیبل دہرانے لگے –کہ آٹھ چاول ايک رتی-آٹھ رتی ایک ماشہ-بارہ ماشے ایک تولہ بارہ تولے ايک چھٹانک ارے ابھی تو پاؤ اور کلو کا حساب نہیں ہوا –آپ حود حساب لگا ليں تولے میں !! ميرا تو حساب جواب دے گیا!
اس لئے ملکی خزانوں پر بھی حق ان لوگوں کا ہے – کیا خبر ان کا دور حکومت کتنا رہ گیا-پھر موقع ملے نہ ملے- یہ تو اچھا ہے کہ سونا خام حالت میں ہوتا ہے – اصلی حالت ميں ہوتا تو بڑی مشکل تھی بھئی-ہر ايک سونے کی کان میں ضرور ھاتھ ڈالتا- اب آپ کہیں گے کہ ھاتھ سے کیسے نکالتے ؟ تو جناب آپ نے اکثر یہ بات تو سن ہی رکھی ہو گی کہ ان لوگوں کے ھاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں!!! اللہ ہی کرم کرے ايسا نہ ہو کہ خبر آئے-اتنے بندے سونے کی کان میں دم توڑ گئے
ان سب سے گزارش ہے کہ کچھ نظر کسی غريب گھرانے پر بھی ڈال ليں جن کی بچياں جہیز نہ ہونے کے باعث ماں باپ کی دہليز پر ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں یہ مال جو سانپ اور بچھو بن کر ڈسے گا يہ سونا جسے تپا کر پیشانیوں کو داغا جائے گا اس انجام سے کیوں بے خبر ہو گئیں یہ بیبیاں؟ زکوۃ ادا کرنا اسی لئے تواسلام میں ضروری ٹھہرا کہ آپ کا مال پاک ہو-اور صاحب حيثيت کے ادا کرنے سے غریبوں کا کچھ بھلا ہو جائے- اس طرح ان کے مال کی زکوۃ سے کافی گھرانے دو وقت کی روٹی کھا سکتے ہیں
جانتے تو ھم سب ہیں کہ يہ دنيا فانی ہے سب ختم ہوجائے گا لیکن کیا کریں صاحب اس دنیا کی طمع ہی اتنی ہے کہ ان لوگوں کا دل ہی نہیں بھرتا – ذخائر تو گیس کے بھی دریافت ہوتے ہیں ليکن گیس میسر نہیں آتی غریب کا چولھا نہیں جلتا ٹھنڈا ہی رہتا ہے
ملک کے دگر گوں حالات کسی کی نظر سے پوشيدہ نہیں جہاں لوگ اپنے جگر گوشوں تک کو بیچنے پر مجبور ہیں –جہاں انسان نہیں حيوان یا درندے بستے ہیں جو اپنی بیویوں اور بچیوں کو فروخت کر ديتے ہیں يا انہیں غربت کے ھاتھوں تنگ آ کر مار ڈالتے ہیں
ہر آنے والی حکومت جو جمہوری ہونے کا نعرہ لگا کر بر سر اقتدار آتی ہے وہ پہلی حکومت سے زيادہ مشکلات عوام کے لئے لے کر آتی ہے –ان کے اپنے لئے آسانیاں ہوتی ہيیں عوام کے لئے پریشانیاں نہ پانی نہ بجلی نہ گيس نہ کھانے کوروٹی ! کيا اتنے عرصہ میں غریبوں کے لئے کوئی بہتری کا کام نہیں ہو سکتا؟
بندہ قبر ميں تو سفيد چادر میں ہی لپٹ کر جاتا ہے قبر کی مٹی ہوتی ہے سب کی ایک جيسی –پھر اتنی لالچ کيوں؟ کہ حلال حرام جائز ناجائز ظلم اور زيادتی کسی طريقے سے دولت اکٹھی کر کے اگلی نسلوں کے لئے چھوڑا جاتا ہے قبر پر اينٹیں مٹی کی ہو ں گی سونے کی نہیں ؟اور کفن ميں بھی جيب نہیں ہوتی-کہ دنیا کا مال ساتھ لے جانا ہو
نہ گور سکندر ہے نہ قبر دارا مٹے نامیوں کے نشاں کيسے کیسے اللہ نے ھمارے ملک کو معدنی خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے اور يہ زرعی ملک بھی ہے–ان سب کے ہوتے ہوئے بھی ھمارے ملک کی ضروريات پوری نہيں ہوتیں- کیونکہ ان لوگوں کی نيتوں ميں اخلاص نہیں-بے حس لوگ ہيں جن کے سينے ميں دل نہیں دھڑکتا –ورنہ ملک کی دن بدن بگڑتی حالت اور عوام کی بری حالت پر ان کا دل بھی اسی طرح روتا جس طرح ھم سب کا روتا ہے
تحریر : وقارانساء