تحریر: حفیظ خٹک
مخالف سمت سے آتی ہوئی بائیک سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس سے پہلے کہ رانگ وے پر آنے والی موٹر سائیکل سوار سے کچھ کہتا اس نے بجائے شرمندہ ہونے کے الٹا مجھے ہی لتاڑتے ہوئے کہا کہ آپ کی غلطی ہے دیکھ کر گاڑی چلائیں گھسے چلے آرہے ہیں وغیرہ وغیرہ صرف اس نوجوان کا نہیں ہر بندے کا رویہ ہی کچھ عجیب و غریب ہو گیا ہے۔
رانگ وئے پر گاڑی چلانا ہو یا سگنل توڑنا ، غلط اور ٹیک کرنا ہو یا راستے میں کچرہ پھیکنا ، ہر جگہ پان کی پچکاریاں یا سودا سلف لیتے ہوئے دکاندار کی سودے کے پیسوں میں ڈنڈی مارنا ، ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر غصہ کرنا ، مزاج انگاروں پر رکھا ہوا ، کندھوں میں جکڑا ہونے کا احساس ، اگر راہ چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھنا شروع کریں تو ان کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر ایک کے چہرے پر بے چارگی ، بے بسی، بدحالی ، غربت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ کسی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نہیں۔
مدتوں پہلے ممتاز مفتی کی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے جس میں انہوں نے ایک واقعہ لکھا ،وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ بھارت گئے تو ایک صاحب نے ان سے کہا کہ کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟ جس پر ممتاز مفتی نے حیران ہوکر ان سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ جس پر ان ساحب نے کہا کہ جو چہرہ کھلا کھلا اور مسکراتا ہوا ملے سمجھ لو وہ پاکستان سے آیا ہوگا۔
شاید اس بندے کی نظر سی لگ گئی ہیاب تو پاکستان میں اگر کہیں مسکراہٹ نظر آتی ہے تو وہ صرف حبیث قسم کی مسکراہٹ ہوتی ہے جو کہ ہمارے سیاستدانوں کے چہروں پر نمایاں ہوتی ہے۔ ان کی اس مسکراہٹ کا انتقام ہماری معصوم عوام سڑک پر پچکاری مار کر ، رانگ وے میں جاکر ، چند سکوں کی بیمانی کر کے ، اوور ٹیک کر کے یا پھر ایسی ہی کوئی اور حرکت کر کے لیتی ہے۔
دراصل یہ سب کر کے عوام اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہے ان کی ایسی حرکتیں حکومت سے یہ کہتی ہیں کہ اے حکومت وقت تم ہماری عزت نفس تباہ کر رہے ہو، ہم پر سانسیں لینا دوبھر کر رہے ہو، اور ایسے ہی انداز میں ہمارے اوپر حکومت کر رہے ہو تو ہم اور کچھ تو نہیں کر سکتے لیکن یہ پان کی پچکاری جو ہم نے سڑک پر ماری ہے یہ دراصل تمہارے منہ پر ماری تھی یہ گالی جو میں نے رانگ وے پر ہونے کے باوجود دی ہے یہ تمہیں دی ہے۔ اس ملک میں ہونے والے اس چھوٹے سے غلط کام سے لیکر بھتہ نہ دین کے جرم میں لوگوں کو زندہ جلادینے تک ہر گناہ ،ہر غلط کام کا کفارہ حکومت وقت کو اداکرنا ہوگا، ایک ایک چیز کا ، ایک ایک دکھ کا ، ٹوٹی ہوئی انا کا ، کچلی ہوئی عزت نفس کا اور ری ایکشن میں ہونے والے ایک ایک عمل کا اور ایک ایک گناہ کا۔
تحریر: حفیظ خٹک