تحریر: الیاس محمد حسین
ہر حکومت عوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرتی رہتی ہے لیکن عوام کی شمولیت کے بغیر ان منصوبوں کی کامیابی ممکن ہی نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے درمیان بڑھتاہوا فرق بھی حکومت کیلئے ایک مسئلہ بناہوا ہے آج تھانے خوف کی علامت ہیں اسی لئے عام آدمی پولیس اسٹیشن جانے سے کنی کتراتاہے اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ لوگوںکی شنوائی بھی نہیں ہوتی اس لئے عوام کو ریلیف دینے کیلئے حکومت کو فی الفور 2 کام ترجیحی بنیادوںپر کرنا ہونگے ایک تو محلہ وار مصالحتی کمیٹیوں کی تشکیل اور انہیں موثٔر بنانا دوسرا عوام کو دہشت گردی، منشیات، بیروزگاری اور سٹریٹ کرائم سے بچانے کے لئے عوامی سطح پر رضا کار طرزکی نئی سیکورٹی فورس کا قیام ضروری ہے
جس کیلئے ہر یونین کونسل میں کم از کم50 نیک نام ،پڑھے لکھے بیروز گار نوجوانوں کاانتخاب کیا جائے، پاکستان کے موجودہ مسائل دہشت گردی، منشیات،بیروزگاری اور سٹریٹ کرائم کے خاتمہ کیلئے قابل عمل پلان اس لئے بھی ترسیب دینا ضروری ہوگیا ہے کہ آج ہمارے پیارے وطن کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے ،بیروزگاری کے باعث نوجوان انتہا پسندوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں،سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے ،کسی کی جان ہمال محفوظ نہیں اس ماحول میں سرکاری افسروں اور معروف شخصیات کی سکیورٹی کے لئے حکومت نے بے پناہ اقدامات کئے ہیں۔
ان کی حفاظت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ،خصوصی سکوارڈ، اور دیگر حفاظتی انتظامات کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن عوام جو حکومت کو اربوں کھربوں روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں انکی حفاظت کے لئے کئے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں اس لئے عوام کو دہشت گردی،منشیات کی لعنت،بیروزگاری اغواء برائے تاوان اور سٹریٹ کرائم سے بچانے کے لئے حکومت ہر یونین کونسل کی سطح پرنئی سیکورٹی فورس قائم کرے۔ ہو سکتا ہے ارباب اختیار کے پاس یہ جواز ہو کہ اس منصوبے کیلئے حکومت کے پاس وسائل مو جود نہیں ہیں اس لئے نئی سیکورٹی فورس قائم نہیں کی جا سکتی یہ جواز اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے
لیکن جناب اس عظیم الشان منصوبے کیلئے فنڈز خود عوام مہیا کرسکتے ہیں جس کے لئے ہر گھرانے پر 200-100 فنڈ لگایا جا سکتا ہے جو یوٹیلٹی بلز میں شامل کیا جا ئے تا کہ کولیکشن میں آسانی ہوعوام الناس اور تاجر تو پہلے سے ہی اپنی حفاظت کے لئے چوکیداروں اور سیکورٹی اہلکاروں کو ماہانہ دے رہے ہیں اور زیادہ ترچوکیداروں اور سیکورٹی اہلکاروں کا باقاعدہ ریکارڈ بھی نہیں ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اگر عوام کو یقینی تحفظ کا یقین ہو جائے تو وہ اس سے زیادہ تعاون بھی کر سکتے ہیں۔۔۔پلان یہ ہے کہ سیکورٹی فورس کے ارکان ہر محلے میںاپنی ڈیوٹیاں انجام دیں گے ان کو جدید وائرلیس سسٹم سے آراستہ کیاجائے تاکہ رابطے میں آسانی ہوسکے۔
علاقہ میں کسی واردات کی صروت میں سیکورٹی فورس کے ارکان فی الفور ایکشن لیں گیں۔۔۔چوروں ڈاکوئوں، دہشتگردوں، منشیات فروشوں، ناجائز اسلحہ رکھنے والوںاور سٹریٹ کرائم کا سدباب ہو سکے گا ۔۔۔سیکورٹی فورس کے ارکان کا قریبی تھانے اور کونسلروں سے مکمل رابطہ ہو گا وہ روزانہ کارکردگی کی رپورٹ قریبی تھانے اوریونین کونسل جمع کروانے کے پابند ہوں گے اس کا باقاعدہ اندراج اور ریکارڈ کمپیوٹر میں کیا جائے گا۔ اسی طرح 1122کی طرز پر ہریونین کونسل میں 1144 کا مرکز بنایا جائے۔ہرUCمیںکم از کم 2 گاڑیاں ہونی چاہییں اس مرکز کے عملہ میں تربیت یافتہ بم ڈسپوزل سکوارڈ،پولیس کمانڈو،شہری دفاع کے رضاکار اور سماجی کا رکن شامل کئے جائیں اس سے بہترین کوارڈینیشن کے ساتھ کام ہو سکے گا
لوگوں کے مسائل اچھے انداز سے حل ہوں گے اور پولیس اہم معاملات کو مناسب انداز سے ہینڈل کر سکے گی ۔ہریونین کونسل میں 1144 کے ارکان کسی بھی ہنگامی صورت حال،ناخوشگوار واقعہ،ڈاکہ منشیات فروشی،بنک ڈکیٹی،دہشت گردی، محلہ میں لڑائی جھگڑے اور اس نوعیت کے دیگر معاملات میں فوری ایکشن لے کر عوام کے جان ومال اور عزت آبرو کی حفاظت کی جا سکتی ہے ۔ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے گذارش ہے کہ اس منصوبے مزید بہتر بنانے کیلئے ماہرین کی خدمات سے استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے جس کی روشنی میں ایک بہتر ،جامع اور مربوط حکمت ِ عملی تیار کی جا سکتی ہے اس منصوبے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے
اس سے بیروز گاری ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی صرف لاہور میں ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے پر حکومت کو کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں صرف اس کی سرپرستی میں ،ڈاکہ منشیات فروشی،بنک ڈکیٹی،دہشت گردی، اور اس نوعیت کے جرائم ختم ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حکومت عوام کے ساتھ مل کر پاکستان سے جرائم ختم کر سکتی ہے منشیات فروشی،بنک ڈکیٹی،دہشت گردی، اور اس نوعیت کے جرائم ختم ہونے میں مدد مل سکتی ہے ابتدانی معاملات کیلئے مصالحتی کمیٹیوں کو کچھ اختیارات دئیے جائیں تاکہ چھوٹے موٹے تنازعات محلہ کی سطح پر ہی حل ہو جائیں اس لئے نہ صرف فوری اور سستے انصاف کی طرف پیش رفت ہو سکے گی بلکہ پولیس پر بھی غیر ضروری دبائو اور مسائل میں کمی آئے گی سماجی معالات، چھوٹے موٹے تنازعات اورخانگی مسائل مصالحتی کمیٹیاں حل کرنے میں ناکام ہو جائیں تو معاملہ پولیس تک جانے کی نوبت جانی چاہیے۔
تحریر: الیاس محمد حسین