counter easy hit

ادبی محافل کی رونق افروز شخصیت: پروفیسر محمد اکبر ساقی

Professor Akbar Saqi

Professor Akbar Saqi

تحریر : محمد اسلم مانی
ادب عربی کا لفظ ہے جس کے معنیٰ زبان دانی کا علم ۔ ادب اپنے زمانہ کی پوری تصویر اور تاریخ کا صحیح عکاس ہوتاہے آپ کسی زبان کے ایک دورکے ادب کو پڑھ کر اُس عہدکے لوگوں کے اعتقادات ، عملی سطح اور ان کے عملی فنون کا پورا پورا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ادب علوم و فنون کی روح، ہماری زندگیوںکا ماحصل ، ہمارے افکار و جذبات و احساسات کا خلاصہ ہے ۔ادب موسیقی ہے جو اپنے ساز کے ذریعے انسان کو مست و خرام اور مائل بہ عمل رکھتی ہے۔قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ادب کا فریضہ یہ ہے کہ وہ طیبات کو معاشرہ میں مقبول بنائے اور خبائث کے لئے معاشرہ کی فضا کو ناساز گار بنا دے ۔ادب کی تر ویج وفروغ میں ادیب و نقیب ، شاعرو نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈرامہ نگار نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ۔ادب کی اشاعت و فروغ اور ادبی برتری حاصل کرنے کے لیے ادبی سمینار و کانفرنس،تھیٹرو ڈرامہ اور ادبی محافل موثر ذرائع ہیں ۔یونانی ،عربی اور برصغیر کے ادباء نے انہی ذرائع کو بروئے کار لا کر اپنے اپنے ادب کی نگہبانی و فروغ کو یقینی بنانے کیلئے کاو شیں کیں۔ اس وقت پاکستان میں بھی قومی اور علاقائی ادب کو فروغ دینے کے لئے الیکٹرنک میڈیا اور پرنٹ میڈیا جیسے موثر ذرائع کے علاوہ روایتی طورپر ادباء ادبی محافل کے انقعاد کیلئے ادبی پلیٹ فارم بھی تشکیل دے چکے ہیں ۔جن کی بدولت ادبی محافل کا ہفتہ وار ، ماہانہ اور سالانہ انقعاد ہوتا رہتا ہے۔

جہاں ادیب اپنے ادبی افکار کا اظہار کرکے ادب کی ترجمانی کر تا ہے وہاں نقیب محفل ، ادیب کی ترجمانی کرتے ہوئے محفل میں رونق افروز ماحول پیداکرنے کا کردار ادا کررہا ہو تا ہے۔نقیب ِ محفل کے بغیر محفل کی رونق ماند پڑ جاتی ہے۔ایسی ہی، سرائیکی وسیب کی ادبی محافل کی رونق افروز شخصیتات میں ایک قابل ذکر نام پروفیسر محمد اکبر ساقی کا بھی ہے۔ آپ کا تعلق ضلع وہاڑی ، تحصیل میلسی ، موضع مترو سے ہے ۔ آپ ایک قدو قامت ، باریش ،پروقار اور وجیہہ شخصیت کے حامل ہیں ۔آپ منکسر المزاج، سیلم الطبع، ملنسار اور بہت ہی مہمان نواز ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ایک وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں جس میں عام و خاص، امیر و غریب اور سامعین وطلباء سب شامل ہیں۔آپ کی شخصیت میں ایک وصف بدرجہ اتم موجو د ہے آپ امراء کے لئے مجبوری ، غرباء کے لئے امید کی کرن اور سامعین و طلباء کے لئے محبوب و محسن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ شعبہ ایجوکیشن میں دو سال گورنمنٹ ڈگر ی کالج شورکوٹ جھنگ ، آٹھ سال پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ۔ دو مر تبہ ڈپٹی ڈائریکٹر کالج وہاڑی کے عہد پر بھی فائز رہے ہیں ۔ پنجاب پروفیسر ز اینڈ لیکچرارز ایوسی ایشن کے ضلعی جنرل سیکرٹیری کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں اور اب پوسٹ گریجویٹ کالج وہا ڑی میں اپنی تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔آپ نے ہمیشہ طلباء کو خود ی کادرس دیا۔راقم کیونکہ آپ کے تلامذہ میں سے ہے یاد ہے کہ خودی کے فروغ کے لئے یہ شعرآپ کی زبان پر ہمیشہ زدِ عام رہتا جو خود ی کا علامتی شعر ہے۔
تنویر سپر ا کاٹ ڈالو اپنے شانوں سے
جوہر چوکھٹ پہ جھکے وہ سراچھا نہیں لگتا

کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں آپ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ کالج کی تقریبات کے علاوہ علاقائی ادبی محافل میں نظامت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے آپ کی سخنوری کا جھنگوچی لہجہ سامعین کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔جھنگوچی لب و لہجہ آپ کی شخصی انفرادیت کا خاصہ ہے۔ آپ شعرگوئی سے فنِ نظامت میں ادبی جمالیات کا نکھار پیدا کرکے نہ صرف محفل میں جان ڈال دیتے ہیںبلکہ اہل سخن اور سامعین کے درمیان سحر انگیزانداز تکلم سے ربط پیدا کر کے ا دبی محافل میں بہار کا سماں باندھ دیتے ہیں۔ آپ ادبی محا فل کے علاوہ سیاسی جلسوں کی رونق کی بنیادی وجہ بھی ہیں ۔خصوصاً سعید احمد خان مینس کی دعوت پر دو مرتبہ آپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے جلسہ کی نظامت کے فرائض سر انجام دینے کا شرف بھی رکھتے ہیں۔نظریہ پاکستان کے فروغ و تحفظ کے لئے آپ نظریہ پاکستان ٹرسٹ فورم مترو کے کنوینیرکی خدمات سر انجام دینے پر مامور ہیں۔سرائیکی ادب و ثقافت کے اشاعت و ترویج کے لئے آپ نے لجپال ادبی سنگت مترو کی بیناد ڈالی ہے ۔اس کے علاوہ میلا النبی کمیٹی زون متروکے سرپر ست بھی ہیں۔

آپ صاحب سخن شعراء میں سے زیادہ تر مہر ریاض سیال عابد تمیمی، حیات بھٹی ،یسین بھٹی ،غلام محمد درد، کے کلام کے علاو ہ سرائیکی وسیب کے مایہ ناز شعراء کرام میں شفقت بزدار، ،مصطفی خادم ، مشتاق سبقت، ریاض عصمت، شاکر مہروی، ناشاد قابل ذکر ہیں ان کے کلام سے نہ صرف گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ادبی محافل میں سامعین کی اعلیٰ سماعتوں کے حوالے کرتے ہوئے محافل کی رنگینی و رعنائی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر خیال امروہی مرحوم اور سید شہباز نقوی مرحوم سے استفاد بھی کیا اور کئی محافل میں ان کے ساتھ منعقد ہوئیں ۔ آپ خود بھی شعروشاعری میں طبع آزمائی کر تے رہتے ہیں ۔ آپ کے کلام میں سے دو ڈوہرے قارئین کے پیش نظر کئے جاتے ہیں۔

ہک گل کرنی ہائی نال تیرے انجے جھٹ ذرا پیرا جھکائیں ہا
مینوں ٹنگ کے ہجر دی سولی تے میرے حوصلے نہ ازمائیں ہا
کدی بے وس دل دی گل من کے، من موہنی شکل وکھائیں ہا
ایویں جیندیاں جنیدیاں زندگی ہو وی، اکبر دی مونجھ لہائیں ہا

توہیں بندے دے نال اے سنگت پرانی ، توہاں کل ترکہ ایں زندگی دا
بھانویں اج کل یا ر بھلائی وطنائیں ، شہزاد ائیں اس نگری دا
من لینائیں ہر دیا ں غلط صلاحیں ، آ ملنا ئیں چن مر ضی دا
تیرے اکبر ساقی مرونجنائی ، کوئی پتہ نیئں چن زندگی دا
فنِ نقابت نہ صرف نقیب کی شہر ت سبب بنتی ہے بلکہ نقیب کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر بھی کر تی ہے۔ تعلیمی اداروں میں فنِ نقابت و خطابت کے ذریعے ادبی رجحان کو فروغ دے کر طلباء میں خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحتیں بھی پیداکی جا سکتی ہیں۔

Muhammad Aslam

Muhammad Aslam

تحریر : محمد اسلم مانی
maslamly79@yahoo.com
0331-7169343