تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
سری لنکا نے 948 1 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ملک میں سنہالی اور تامل آبادی کی اکثریت تھی۔ان میں بھی سنہالی اکثریت میں تھے جبکہ تامل اقلیت میں۔سنہالوں نے حکومت بنائی تو تامل ان کے مدِ مقابل میدان میں اتر آئے۔تامل لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھ دی گئی۔دود ہائیوں تک یہ تحریک نسبتاََ پر امن رہی۔1972 میں تامل ٹائگرز کے وجود میں آنے کے بعد سری لنکا میں دو نسلی گروہوں کے درمیان باقاعدہ ایک جنگ کا آغاز ہو گیا۔تامل ٹائگرز نے ملک کی بڑی شخصیات پر حملے شروع کر دئیے۔ رہنماء قتل ہونے لگے۔
نائن الیون کی طرزپرخود کش ہوئے۔ بعض نے اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسلحہ کے ڈپو اڑا دئیے گئے۔ بسوں ، ٹرینوں، یونیوسٹیوں ، کالجوں شاپنگ سنٹروں ، عبادت گاہوں اور پارکوں میں خود کش بمب رکھے گئے۔تامل ٹائگرز نے سب علاقوں پر کنٹرول سمبھال لیا اور سنہالیوں کا قتلِ عال شروع کر دیا۔ دہائیوں تک اس شورش نے سری لنکا کو جکڑے رکھا۔ملک کا طول و عرض اسکی گرفت میں آگیا۔ سری لنکن حکومت بے بسی کی تصویر بن کر تکتی رہی۔دنیا کے تینتیس ملکوں نے تامل ٹائگرز پر پابندی لگا دی۔ مگر یہ لوگ بلیک مارکیٹوں سے اسلحے کی انبار خرید تے رہے اور بے بہا قتل وغارت گیری کرتے رہے۔ ان کا لیڈر پربھا کرن جافنا گرد و نواح کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔
اس نے دہشتگردوں کی ٹریننگ کیلئے جدید ترین کیمپ لگا ئے اور نوجوان طبقے کو یہاں ٹرینڈ کیا گیا۔ حکومت نے بار بار باغیوں سے مذکرات کی کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر قیادت نے دہشتگردوں سے آہنے ہاتھوں نمٹنے کا فیصلہ کیا اور بیرونی و سائل یکجاں کئے ۔ اور نہایت یکسوئی سے آپریشن کا آغاز کیا۔ اپریل 2009 میں جافنا کے گرد و نواح کامحاصرہ کر لیا گیا ۔تامل ٹائگرز گھیرے میں آگئے۔ آخر 18 مئی 2009 کی رات تامل ٹائگرز کو آخری لڑائی میں بھی شکست ہو گئی۔ یوں سری لنکا میں کئی دہائیوں سے جاری انتہا پسندی کا خاتمہ ہو گیا اور اسکی مفلوک الحال معیشت تیزی سے ترقی کرنے لگی اور سری لنکا جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی طرح اگر آپ لائبیریا کی مثال لے لیں۔
لائبیریا افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہیروں کی کانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہی ہیرے اسکے گلے کا طوق بن گئے اور بڑی طاقتوں نے اس پر پنجے گاڑنے شروع کر دئیے۔ داخلی امن تار تار ہوکر رہ گیا۔ ملک گروہوں میں بٹ گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ شورش بڑہنے لگی۔ لائبیرا کے رہنمائوں نے ایک حکمتِ عملی وضع کی ۔ یو این او کی مدد لی اور ملک کو اسلحے سے پاک کر دیا۔ گروہ بندیاں ختم کردیں گئیں۔ لائبیریا کے معدنی ذخائر پر حملا کرنے والی بیرونی طاقطوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور انہیںدیس نکالے دے دئیے گئے۔ اور یوں لائبیریا میں بد امنی کی جگہ امن کا بول بالا ہو گیا۔ کینیا میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال رہی۔ ایک وقت تھا کہ اس ملک کا کنٹرول مافیا کے قبضے میں رہا۔ فساد اور بد نامی نے کینیا کو لاچار کر دیا ۔ کئی جگہ دہشتگردی کی گئی ۔ آخر کار انہوں نے مخلص لیدرشپ ڈھونڈی اور ملک سے ملک دشمن مافیا کا خاتمہ کر دیا۔ اور آج کم از کم کینیا اس قسم کے مسائل سے دور ہے۔
سوڈان کی صورتِ حال بھی کچھ اسی طرح تھی۔ یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ما بین خطرناک جنگیں ہوئیں۔ ہزاروں افراد مارے گئے اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا ۔ بیرونی طاقتوں کے ایماء پر شورشیں بڑھنے لگیں۔ سوڈان جو کہ زرعی طور پر دنیا کی بڑی معیشتوں میں تھا ، اس وقت دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ لیڈروں نے یو این او کی مدد سے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے اور ہتھیار پھینک کرہل اٹھا لئے ۔ نتیجتاََ سوڈان کے حالات بہتر سے بہتر ہوتے گئے اور آج کا سوڈان آپ کے سامنے ہے۔ اسی طرح روانڈ کو دیکھ لیں جہاں تلسی اور ہوتو قبیلوں نے 994 1میں ایک دوسرے کے لاکھوں افراد قتل کر دئیے۔اس خوفناک خانہ جنگی نے اس ملک کو برباد کر دیا۔ قحط پڑا اور ہزاروں افراد اسکی نظر ہو گئے۔انہیں معاملات کے پیشِ نظر لیڈروں نے تلسی اور ہوتو کے درمیان صلح کرائی ۔ جس کے نتیجے میں اس ملک نے دو دہائیوں میں ترقی اور خوشحالی کی حیرت انگیز مثال قائم کیں۔
یہ وہ چند امثال ہیں جو مختلف سربراہانِ مملکت اور انکی لیڈر شپ نے اپنے ملک کو دہشتگردی و انتہا پسندی کی لعنت سے نکالنے کیلئے کیں۔ اور اپنے ملک کے داخلی امن کو یقینی بناکر ملک کو تراقی کی راہ پر گامزن کیا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارا وطنِ عزیز پاکستان ہے جو ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ان گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور اس کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں ۔ اب اس ساری صورتِ حال میں اور اوپر پیشِ خدمت امثال کے تناظر میںفیصلہ ہماری لیڈرشپ کو کرنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی انتہا پسندی پر ترجیحاََ قابو پانا ہے یا اس معاملے کو ہمیشہ کی طرح الطواء میں رکھنا ہے۔ کیونکہ دہشتگردی کا ختمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہماری اعلی قیادت اس مسلے سے نمتنے کئلئے یکجاں ہو کر ترجیحی بنیادوں پہ کوئی اقدامات نہ اٹھائے۔اور اس ایشو کو ذاتی اناء کا مسلہ بنانے کی بجائے قومی مسلے کی حیثیت سے لے ۔ اور دہشتگردی کی اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد