تحریر: علیشبہ احمد
آج کل ہمارے معاشرے میں موجود دوسری برائیوں کی طرح جہیز بھی ایک بہت بڑی برائی ہے۔ جہیز بہت زیادہ نمودو نمائش کے سا تھ لیا اور دیا جاتا ہے جیسے یہ گناہ نہ ہو بہت ثواب کا کام ہو۔ انسانوں نے حوا کی بیٹی کی قیمت لگانا شروع کر دی ہے کیابنت حوا اس قدر بے مول ہے کے جہیز سے اس کی قیمت لگائی جائے۔
اگر یہی سب چلتا رہا تو بنت حوا کی وفا اور محبت اتنی ہوتی جائے گی جتنا اسکو بے مول کیا جائے گا پھر لوگوں کو اس بات پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کے حوا کی بیٹی کی وفا اور محبت کم ہوتی جارہی ہے۔
کیا بنت حوا کی وفا اور محبت کی قیمت کوء جہیز ہوسکتا ہے؟ جیسے آج کل ک والدین اپنے بیٹے کو پڑھاتے لکھاتے ہیں پھر اسکی شادی کرتے ہیں اور شادی میں جہیز مانگتے ہیں، کیا ہی نیا رواج چل نکلا ہے۔
جسے دیکھیں جہیز مانگتا پھر رہاہے اور جہیز میں قیمتی ترین اشیاء کو بھی فرض سمجھ کی مانگا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کے جہیز مانگتے بھی وہی لوگ ہیں جن کے بیٹے انجینئر، ڈاکٹر یا ہائی کوالیفائیڈ ہوں۔ تو کیا تعلیم سے لوگ یہ سیکھ رہے ہی کے جہیز مانگنا ہے۔
جہیز میں فریزر، کار، یا سونا قیمتی سامان ضروری ہے اگر یہی سب کرناہے تو اچھا نہ ہو کہ لوگ اپنے بیٹوں کو پڑھائے ہی نا جب انہوں نے پڑھ کر یہ سب کرنا ہے یہ جاہلوں والا کام ہی کرنا ہے تو اس ادارے کا نام کیوں خراب کرنا جس میں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
جہیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی کو دیا تھا لیکن صرف چند ایک ضرورت کی اشیا ایک لوٹا ، جائے نماز، اور چٹائی … مانا آج کل کا زمانہ اور ہے آج کل ضرورت کی اشیا بدل گئی ہیں پر کیا ضرورت کی اشیا کے علاوہ کیا اور کچھ جہیز میں لینا چاہئے؟ وہ بھی اگر والدین بخوشی اور با آسانی سے دے سکیں۔ لیکن خود مانگنا نہیں چاہئے نہ لڑکے کو نہ لڑکے کے والدین کو۔
ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہی سب چلتا رہا تو غریب گھر کی بیٹیاں گھر ہی بیٹھی رہ جائیں گی۔
یہ مسئلہ ہم سب کا ہے کہ کیونکہ بیٹیاں تو ہر گھر میں ہوتی ہیں بہن کی روپ میں اور بیٹی کے روپ میں… ظاہر ہے یہ مسئلہ ہر کسی کے گھر کا ہے پاکستان کا ہے تو آپ کا بھی ہے۔
ہمیں اس ملک میں تبدیلی چاہئے تو شروعات خود سے کرنی پڑے گی کیونکہ تبدیلی کبھی تم سے نہیں آتی یہ ہمیشہ میں سے آیا کرتی ہے اگر آپ چاہتے ہیں کوئی آپ کے گھر کی بیٹی کی قیمت نہ لگائے تو آپ بھی کسی کے گھر کی بیٹی کو بے مول مت کریں اور اگر ہم ٹھان لیں کہ اس برائی کو اپنے پاک وطن سے نکال پھینکنا ہے تو یہ زیادہ مشکل نہیں ہوگا بس ایک بار ہمت کرکے کوشش ضرور کریں۔
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کونسا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
تحریر: علیشبہ احمد