تحریر: طارق حسین بٹ
دہلی کے حا لیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی سے مجھے ١٩٤٦ کے وہ انتخا بات یاد آگئے ہیں جس میں مسلم لیگ نے پورے ملک میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور کانگریس اور ان کی حو اری جماعتوں کو شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اس طرح کی یکطرفہ فتح کے مناظر بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں مخالفین کا بالکل صفایا ہو جاتا ہے۔کسی ریاست میں ا س طرح کے نتائج ایک جماعت کی فتح ہی نہیں ہوتی بلکہ فریقِ ثانی کی مکمل بیخ کنی ہوتی ہے ۔ ان انتخا بات سے قبل یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اب بھارت کی آ ئیندہ سیا ست کا نقشہ وہ ہو گا جسے بی جے پی طے کریگی لیکن ابھی تو اس اعلان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہو پائی تھی کہ بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار ہو نا پڑا۔ بی جے پی کی حالیہ شکست میں اس کا ہندوترا کا وہ شرمناک منصوبہ بھی شامل ہے جس میں اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانے کے جتن کئے جا رہے ہیں۔ بھارت نے ساری دنیا میں ایک سیکو لر ملک ہونے کا جو ڈھونگ رچایا ہوا ہے وہ صرف نعروں کی حد تک ہے اور جس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ہندوستان کی تقسیم میں یہی بات باعث نزاع بنی تھی کہ ہندو اکثریت کا ملک ہونے کی وجہ سے جمہوری اصولوں کے مطابق ہندوئوں کو ہی اس ملک کے سیا ہ وسفید کامالک ہونا تھا اور مسلمان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ا ن کے دست ہونے تھے لہذا اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنے کی خاطر مسلمانوں نے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطا لبہ کیا تھا۔
اس مطالبے کے خلاف ہندوئوں نے جسطرح کے ردِ عمل کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو دو علیحدہ ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے لیکن تقسیم کے اس زخم نے ابھی تک دونوں ممالک میں اعتماد کی فضا کو بحال نہیں ہونے دیا ۔ا ن دونوں ممالک میں اب بھی عدمِ اعتماد کی فضا موجود ہے جسے کشمیر ،جونا گڑ ھ اور حیدر باد میں بھارت کے جبری قبضے نے مزیدگہرا کر دیاہے۔ بی جے پی اسی اکھنڈ بھارت کا خواب سجائے میدانِ سیاست میں نکلی ہوئی ہے جس کااظہار تقسیمِ ِ ہند سے قبل بھارت کی ہندو قیادت کیا کرتی تھی۔کیا یہ سچ نہیں کہ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ہندوستان گائو ماتا ہے لہذا اس مقدس گائے کے کوئی حصے بخرے نہیں کرسکتا کیونکہ یہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ پاکستان کا قیام میری لاش پر سے گزر کر ہی ممکن ہو سکتا ہے لیکن تاریخ کا کمال دیکھئے کہ پاکستان مہاتما گاندھی کی نظروں کے سامنے لباسِ مجاز میں جلوہ گر ہوا اورمہاتما گاندھی اسے بنتا دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔گائو ماتا کے ٹکرے ان کی نظروں کے سامنے ہوئے اور وہ صرف کفِ افسوس ملتے رہ گئے ۔ ان کے دل پر جو گزری مجھے اس کا مکمل ادراک ہے اور یہی تو قائدِ اعظم کی فقیدالمثال قیادت کا کمال تھا کہ ہندو قیادت ان کے سامنے بالکل بے بس ہو گئی تھی۔
کانگریس سیاسی فتح تو حاصل نہ کر کی لیکن پاکستان کے خلاف سیاسی رسہ کشی کا نیا با زار گرم کر دیا اور پاکستان کو دو لخت کرنے کی مذموم سازشیں شروع کر دیں تا کہ اکھنڈ بھارت کے خوا ب کو شرمند ہ تعبیر کیا جا سکے۔بی جے پی کی موجودہ قیادت اسی اکھنڈ بھارت کے نعروں سے میدان مارنا چاہتی ہے اور سیکو لر سوچ کی بجائے ہندوانہ سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے تا کہ مسلمانوں کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔مسلمانوں کو اس کا بر وقت ادراک ہو چکا ہے جس کا واضح اظہار وہ نتائج ہیں جس سے بی جے پی کی ہندووانہ سوچ کو سخت گزند پہنچی ہے۔مسلمانوں نے انتہائی دانشمندی سے سے دوسری اقلیتوں اور اعتدال پسند ہندو ئوں کے ساتھ مل کر بی جے پی کا تایا پا نچاکر دیاہے۔ بی جے پی نے جسطرح مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے اور انھیں دھشت گرد کاروائیوں میں پھانس کر حراساں کیا جا رہا ہے وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔مسلمانوں پر روزگار کے دروازے بھی بند ہیں اور ان پر انصاف کا حصول بھی انتہائی کٹھن ہو چکا جس سے بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔مسلم نوجوانوں کو دھشت گردی کے نام پر جس طرح جھوٹے مقدمات میں پھانسا جا رہا ہے،جیلوں میں اذیتیں دی جا رہی ہیں اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑے جا رہے ہیں وہ مسلمانوں کے اندر بغاوت کے جذبوں کو ہوا دے رہے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہا پر مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و یگا نگت کا از سرِ نو جائزہ لینا ہو گا تا کہ ہندوترا کی ساری مکروہ چالوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ کیا یہ باعثِ تعجب نہیں ہے کہ تیس کروڑ مسلمانوں کی بھارتی پارلیمنٹ میں کوئی آواز نہیں ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے ان کی پارلیمنٹ میں کم از کم ایک سو سے زیادہ نشستیں ہونی چائیں لیکن سچ یہی ہے کہ بھارتی پار لیمنٹ میں مسلمانوں کی آوا ز برائے نام ہے جو بھارت کے سیکولر چہرے سے نقاب اٹھا نے کیلئے کافی ہے۔نریندر مودی نے بی جے پی کی حالیہ کامیابیوں سے خود کو ناقابلِ شکست ہونے کا جو تاثر ابھارا تھا وہ عام آدمی پارٹی کی جیت سے پارہ پارہ ہو چکا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نئی سوچ کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا جائے تاکہ اقلیتیں خود کو محفوظ تصور کرنے لگیں ۔عام آدمی پارٹی نے جنتا کو کرپشن اور لوٹ مار کے کلچر کے خلاف جس طرح متحد کیا ہے وہ اس کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔یہ ایک نئی سیاسی بساط ہے جس پر اب عوام کا راج ہو گا اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائیگا۔
یہی وقت ہے جس میں روائیتی اندازِ سیاست ذلیل و خوار ہو گا اور حکومت میں عا م آدمی کی شنوائی ہو گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔اسی طرح کی صورتِ حال سے مسلمانوں کو بیسویں صدی کے اوائل میں بھی پالا پڑا تھا لیکن اس وقت کی مسلمان قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے جداگانہ انتخاب کا اصول منوا لیا تھا اور پھر اسی اصول کے تحت منعقدہ انتخا بات کے نتائج تھے جھنوں نے علیحدہ اسلامی مملکت کیلئے راہ ہموار کی تھی۔وہ تمام ریاستیں جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ان سب نے علیحدہ اسلامی مملکت کے حق میں بھر پور ووٹ دیا تھا حالانکہ انھیں نئی اسلامی مملکت کا حصہ بھی نہیں بننا تھا لیکن چونکہ ان کا مطمعِ نظر مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کرنا تھا لہذا انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا ۔پاکستان کیلئے ان ریاستوں کی حمائت و قربانی تاریخ کا درخشاں باب ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی بنگال کو چھوڑ کر جہاں مسلمانوں نے کھل کر پاکستان کی حمائت کی تھی باقی مسلم اکثریتی ریاستوں نے مکمل طور پر مسلم لیگ کو اپنی حمائت سے نہیں نوازا تھا۔ پنجاب سندھ اور سر حدی صوبے میں مسلم لیگ کو اس طرح کامیابی نہ مل سکی جس طرح مشرقی بنگال میں ملی تھی۔
فرض کریں کہ اس وقت جدا گانہ انتخاب کا اصول طے نہ ہوتا تو کیا نئی اسلامی مملکت کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا ؟ ہندو تو مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چا ہتا تھا اور اس کا آسان طریقہ یہی تھا کہ انھیں متحدہ ہندوستان میں رہنے پر مجبور کیا جاتا۔انھوں نے کوشش تو بہت کی لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور قومی تشخص کا ایسا نقشہ کھینچا کہ مسلمان بے خود ہو کر ان کی جانب کھینچے چلے آئے اور یوں ایک علیحدہ اسلامی مملکت وجود میں آ گئی۔ہندواپنی شکست پر بہت تلملایا لیکن اب کچھ بھی ان کے قابو میں نہیں تھا کیونکہ جداگانہ انتخا بات کی ضربوں سے ہندوانہ سوچ کا بت پاش پاش ہو چکا تھا ۔٢٠١٤ کے بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کو نظر انداز کر کئے جانے کے بعد مسلمانوں کے پاس وا حد راستہ یہی رہ گیا ہے کہ مسلمان ایک دفعہ پھر اپنے لئے جدا گانہ انتخابات کا مطالبہ پیش کریں۔یہ راہ بڑی کٹھن اور پر خار ہے لیکن اس راہ کے علاوہ کوئی صورت ایسی نہیں جس سے مسلمان خود کو محفوظ رکھ سکیں۔مجھے علم ہے کہ ہندو اس مطالبے پر بر انگیختہ ہوں گئے لیکن اگر مسلمانوں کو جبر کی زنجیروں سے رہائی حاصل کرنی ہے تو وہ صرف جدا گانہ انتخا بات سے ہی ممکن ہے۔جدا گانہ انتخابات کے معنی بھارت کے حصے بخرے کرنا نہیں ہے بلکہ بھارت میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا حصول ہے جو موجودہ انتخابی قوانین سے ممکن نہیں ہے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پا کستان میں بھی جداگانہ انتخا بات ہوتے ہیں اور اگر ان جداگانہ انتخا بات سے پاکستان کی یکجہتی پر کوئی حرف نہیں آ تا تو بھارت کی یکجہتی پر حرف کیسے آئیگا لیکن اس سے یہ ضرور ہو گا کہ مسلمانوں کی آواز سے بھارتی پارلیمنٹ کے درو دیوار گونج اٹھیں گئے اور مسلمان خود کو محفوظ سمجھنے لگیں گئے۔
تحریر: طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم