تحریر: نگہت سہیل
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے٬ وہاں ایک نعمت اولاد بھی ہے٬ جسے دیکھ دیکھ کر والدین جیتے ہیں٬ کیونکہ یہ رشتہ ہی ایسا ہے ٬ کہ بچّے کی خواہش کے ساتھ ہی ماں باپ کے دل میں اس کیلیۓ محبت کا جزبہ پیدا ہو جاتا ہے٬ بچے اگر صحتمند ہوں تو کیا ہی کہنے ٬ ان کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ٬ کیونکہ اکثر بچّے اچھی ذہنی استعداد کے مالک ہوتے ہیں٬ کچھ تو انتہائی ذہین اور کچھ درمیانے درجے کے اور کچھ معمولی ذہین ہوتے ہی ٬ مگر زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کیلیۓ کچھ اپنی ذہنی استعداد کام لاتے ہیں اور کچھ ماں کی خصوصی توجہ ان کی سوچ میں نکھار پیدا کر کے ان کو دنیا میں رہنے لائق کرتی ہے۔
قدرت کے اس کارخانے میں جہاں منفرد نوعیت کے واقعات پیش آتے ہیں ناقابلِ یقین حقیقتیں سامنے آتی ہی ٬ وہیں پر جب قدرت کو جب کسی خاندان کا امتحان مقصود ہوتا ہے٬ تو وہاں کم ذہنی استعداد کے مالک یا ذہنی استعداد نہ ہونے کے برابر بچے کی پیدائش ہو جاتی ہے٬ مگر کچھ بچّے مکمل طور پر ذہنی اور جسمانی طور پر معذوری کا شکار ہوتے ہیں٬ ایسے بچّے ماں باپ کیلئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ٬ ان بچوں کا دنیا کی خوبصورتی یا رنگینی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ حالات میں تو یہ خاص بچّے اپنی مرضی سے کسی بھی جسمانی عضو کو حرکت دینے سے لاچار ہوتے ہیں٬ اور ان بچوں کے والدین اپنے سامنے اپنے جگر گوشوں کو بے بس اور لاچار دیکھ کر صرف صبر ہی کر سکتے ہیں٬ کچھ لوگوں کو اگر خوش قسمتی سے علاج معالجے یا کسی بھی بہتری کا موقعہ مل جائے تو کچھ لمحوں کیلئے ان کو بھی سکون میسّر آجاتا ہے۔
مگر وہ لوگ جن کے بچے مکمل طور پے معذوری کا شکار ہیں اور اس کا کوئی حل ان کو نظر نہیں آتا تو وہ اسے رضائے الہیٰ سمجھ کر اس پر صابر وشاکر ہو جاتے ہیں٬ یہ خاص بچے ہمیں حرکت کرتے تو نظر آتے ہیں مگر زندگی سے کوسوں دور بھی نظر آتے ہیں٬ کچھ عرصہ قبل ایک ایسی ہی بچی کی والدہ سے ملاقات ہوئی ٬ اس والدہ کے چہرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ زندگی کے تجربات اور دکھ نے اس کے اندر بہت متانت اور چہرے پے سنجیدگی کی دبیز تہہ نے اس کے حسین چہرے کا حسن دوبالہ کر دیا تھا۔
باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کی بچی کی عمر اب 18 سال ہو چکی ہے ٬اور ذہنی اور معذوری نے بلوغت کی اس عمر میں بچّی کو ماں کیلئے ایک کڑی آزمائش بنا دیا تھا٬ ان اک کہنا تھا کہ ان کی بچی نہ تو خود بیت الخلاء تک جا سکتی ہے اور نہ ہی کھانا کھا سکتی ہے ٬ اس لئے وہ سارا دن گھر سے باہر نہیں نکلتی ٬ جب بچی سو جاتی ہے ٬ تو قریبی سٹور سے ضروریات زندگی بھاگم بھاگ جا کر لے آتی ہیں٬ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اکیلی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے گویا ہوئیں جب یہ بچی 3 سال کی تھی تو ان کے شوہر نے ان کو چھوڑ دیا۔
لیکن میں اپنی اولاد کو کیسے چھوڑ دوں ٬ٌ اس وقت مجھے یہ خاتون کسی فرشتے سے کم نہیں لگیں ٬ جو گناہ و ثواب کے لالچ کے بغیر قدرت کا سونپا ہوا فریضہ بہ احسن طریقے سے نبھا رہی تھی ٬ تھکاوٹ کے مارے اس کی آواز سے صاف ظاہر تھا کہ اس جوان بچی کو اٹھانا اس کے لباس کی تبدیلی اور دیگر حوائج ضروریہ کیلئے وہ کس قدر مشکل کا شکار ہے٬ کیونکہ اس بچی کا وزن 80 کلو تک تھا٬ میرے اندر کی ماں جاگ اٹھی میں نے پوچھا کہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں کیا کوئی سنٹر یا تنظیم ایسی نہیں ٬ جو ایسے بچوں کی دیکھ بھال نگہداشت میں والدین کی مدد کر سکے؟ ٌ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا آپکا کیا خیال ہے میں نے کوشش نہیں کی ہوگی؟ فرانس تو کیا بلجئیم تک ہر تنظیم سے رابطے میں ہوں لیکن ایسے بچوں کیلئے کوئی جگہہ خالی نہیں ہے٬ اس وقت فرانس اور بلجئیم دونوں ممالک کو ملا کر ایسے کیسسز اور ایسے بچوں کی تعداد جن کیلیۓ کوئی علاج موجود نہیں ہے۔
تقریبا 13000 کے قریب ہی ٬ اور یہ مسئلہ سب سے زیادہ حل طلب ہے جہاں اکیلی کمزور عورت کو ایسے بچوں کو سنبھالنا پڑتا ہے ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں اسے میں قدرت کی آزمائش ہی کہوں گی کہ جہاں سائنس اتنی ترقی کر چکی ہو کہ ایک روز قبل قتل ہو اور دوسرے روز قاتل گرفتار جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں تمام دنیا کیلئے ہمدردی کے جذبے سے لیس ہوں ٬ وہاں پر ایسے بچے اور ایسی گھریلو مائیں بے یارو مددگار حقیقی زندگی سے دور صرف زندہ سانس لینے کی حد تک ہوں ٬ اس عورت نے اپنی تمام عمر ایسے ہی گزر دی دوسری شادی نہیں کی٬ اِور نہ زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکی٬ اس نے بتایا کہ اس کے رشتے دار کبھی کبھار اس کے گھر آتے ہیں یا فون پر خیریت معلوم کر لیتے ہیں ٬ مگر وہ خود کہیں آنے جانے سے قاصر ہے٬ اللہ تعالیٰ ایسے تمام والدین کی آزمائش کی ان گھڑیوں میں استقامت عطا فرمائے اور ان کے فرائض منصبی سے عہدہ براء ہونے کی ہمت عطا فرمائے آمین
تحریر: نگہت سہیل