تحریر: فردوس احمد بٹ
فکشن اور تاریخ’ دونوں کا تعلق واقعات کے بیان سے ہے۔اس لیے ان دونوں کی نوعیت بیانیہ کی ہے۔تاریخ کے بارے میں عمومی مفروضہ یہ ہے کہ یہ ماضی کے حقیقی واقعات سے سروکار رکھتی ہے جب کہ فکشن کے لیے حقائق کی نوعیت مختلف ہے یعنی تاریخ کے برعکس فکشن تخیٔلی’ خیالی او ر تخلیقی واقعات سے تعلق رکھتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فکشن میں واقعات تخلیق ہوتے ہیں جب کہ تاریخ میں پہلے سے رونما ہوئے واقعات کابیان ہوتاہے ۔
فکشن او رتاریخ کے درمیان اس عمومی اور سطحی تصور پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ تصور ان دونوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں میںافتراق کے ساتھ ساتھ ایک قابلِ لحاظ حد تک اشتراک بھی پایا جاتا ہے ۔فکشن کے لیے ماضی میں رونما ہوئے واقعات شجر ممنوعہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ عالمی ادب کے فکشن کاسرسری مطالعہ بھی یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ فکشن میں گزرے ہوئے کل کے حقیقی واقعات کی تخلیقی بازیافت ہوتی رہی ہے اور بہت سا ذخیرہ تاریخی فکشن کاسامنے آچکا ہے ۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر تاریخیں کمزور تاریخی استناد یا طریقۂ اظہار کی بناء پر فکشن کی ذیل میں آنے کی سزا وار ہیں۔
کیا فکشن ایک مکمل تاریخ ہوسکتی ہے؟ یا اس میں اگر تاریخی عناصر موجود رہتے ہیں تو وہ کس حد تک تاریخ کے لوازمات کو پورا کر پاتے ہیں؟فکشن او رتاریخ کے درمیان رشتہ کس نوعیت کاہے اور دونوں میں افتراق کس حدتک ہے؟ یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن پر طویل بحث کی گنجائش موجود ہے ۔لہٰذا فکشن او رتاریخ کے اس رشتے کو سمجھنے کے لیے ان دونوں کے مفہوم کو جاننا لازمی ہے۔
جہاں تک فکشن کا تعلق ہے اس کے نقوش ادبیات عالم میں زمانۂ قدیم ہی سے ملتے ہیں۔ جدید دور تک آتے آتے اس میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں’ لیکن اس کی بنیادمیں وہی قصہ ہے جوآج بھی تخلیقی بیان کا طاقت ور ذریعہ تصور کیا جاتاہے۔ قصہ میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو قاری کادھیان اپنے او رکھینچنے میںکامیاب ہوتی ہیں۔ابتداء سے ہی انسان کی یہ فطرت رہی ہے کہ وہ بڑی دلچسپی سے کہانی کو سنتا ہے اوراس پر غور و خوض کرتا ہے۔ آج زمانہ چونکہ کافی ترقی یافتہ ہے اور ہر چیز بڑا ربط و ضبط او رمنظم انداز اختیار کر چکی ہے اس لیے ہر کہانی کو بھی ایک ہی کسوٹی پر پرکھا نہیں جاتا۔ان کے لیے الگ الگ پیمانے مقرر کیے گئے ہیں ۔فکشن کے لیے اردو میں ”افسانوی ادب” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن جب ہم افسانوی ادب کی بات کرتے ہیں تو داستان سے لے کر افسانے تک کی تمام قسم کی کہانیاں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں ۔کچھ لوگوں کا ذہن افسانوی ادب سن کر مختصر افسانے کی طرف جاتاہے۔لہٰذا لفظ فکشن او رافسانوی ادب میں فرق کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
فکشن لاطینی زبان کالفظ ہے جس کے لغوی معنی تخیل کے ذریعے تخلیق کر دہ ادب ہے۔اس کااردو میں افسانوی ادب ترجمہ کیاگیاہے لیکن لفظ فکشن کو بھی من و عن استعمال کیاجاتاہے۔اردو میں فکشن سے مراد ناول اور افسانہ ہے جب کہ افسانوی ادب تمام طرح کے قصوں کو کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ دونوں فرضی کرداروں ‘ فرضی واقعات او رفرضی حالات کے ذریعے کسی زندگی کو پیش کرتے ہیں لیکن دونوں لفظوں کااستعمال اردو ادب میں علیٰحدہ علیٰحدہ طور پر بھی ہوا ہے ۔ پروفیسر آل احمد سرور لفظ فکشن کو اردو میں استعمال کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”فکشن کالفظ ناول او رافسانہ دونوں کے لیے استعمال ہوتاہے۔اردو میںفکشن کے لیے افسانوی ادب کی اصطلاح بھی برتی گئی ہے ‘مگر چونکہ افسانہ ہمارے یہاں مختصر افسانے کے لیے مخصوص ہوگیا ہے اس لیے افسانوی ادب کہا جائے تو پڑھنے والے کا دھیان مختصر افسانے کے سرمائے کی طرف جائے گا……..اس لیے میرے نزدیک ناول او رافسانہ دونوں کے سرمائے کے لیے فکشن اور فکشن کاادب استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں” ١
ویبسٹرز انسائیکلو پیڈیا میں فکشن کی مندر جہ ذیل تعریف کی گئی ہے:
“The class of literature comprising works of imaginative narration, esp. in prose form, works of this class, as novels or short stories” (2)
اردو میں لفظ فکشن اب عام ہوچکاہے۔اس کے مفہوم میں کافی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔اس لیے کسی مخصوص صنف کے ساتھ اسے جوڑنا آسان نہیں ہے ۔ ادبی اصطلاح میں فکشن ایک ایسی کہانی کا نام ہے جس میں فرضی کرداروں’ فرضی واقعات’حالات او رحادثات کے ذریعے کسی زندگی کی ایسی تصویر پیش کی جائے جو نہ صرف قارئین کے شعور کو متاثر کرے بلکہ انہیں مسرت بھی عطا کرے۔فکشن کے لیے ضروری نہیں کہ اس کاہر واقعہ فرضی ہو بلکہ اس میں سچے واقعات بھی بیان ہوسکتے ہیں۔فکشن کے فرضی کردار او رفرضی واقعات بھی ہماری حقیقی زندگی کے ترجمان ہوتے ہیں لیکن یہ ہر وقت ضروری بھی نہیں ہے کیونکہ فکشن پہلے فکشن ہوتاہے اور اس کے بعدکچھ او ر۔فکشن نگار ہمیشہ تخیل کی مدد سے اپنے قصے کو دلچسپ او رمتاثر کن بنانے کے فراق میں رہتا ہے ۔اس کی یہی ذہنی اختراع ایک کہانی کو چاہیے وہ سچی ہویا جھوٹی فکشن بناتی ہے ۔بغیر اس کے ایک سچی کہانی تاریخ یا دستاویز کے سوا کچھ بھی نہیں۔لہٰذا خیال آرائی فکشن کی جان کہلانے کی مستحق ہے۔ڈاکٹر رضوان الحق فکشن کی تعریف یوں کرتے ہیں: ”ایک ایسا نثری افسانہ’کہانی’واقعہ یا قصہ جو فرضی یا خیالی ہو لیکن اس سے حقیقت کا تاثر ابھرے۔فکشن میں حقیقی یادستاویزی کہانی کو بھی بیان کرسکتے ہیں۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ بیانیہ میں اسے دستاویزی حقائق کے طور پر نہ بیان کرکے فرضی کہانی کے طور پر بیان کیا جائے۔اس طرح بیان کردہ واقعات یا قصے کہانی فکشن کے ضمن میں آتے ہیں” ٣
دورِ جدید میں نئی تکنیکوں او رنئے طریقوں کے استعمال نے فکشن کے تصورات کو بدل دیاہے۔جادوئی حقیقت نگاری او رقدیم روائتیں فکشن میں داخل ہوگئیں ہیںجن سے حقیقت کاایک نیا تصور ابھر کر سامنے آیا ہے۔نئی او رتازہ کہانیوں میں جہاں اسا طیرت انہیں قدیم داستانوں سے قریب لے جاتی ہے وہیں ا ن کامنفرد اور علامتی انداز انہیں کہانی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کردیتاہے۔قصے میں قدیم وجدید تصورات کے امتزاج کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے ہر طرح کے قصے کو فکشن ماناہے۔قصہ چاہے کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم ہر اس تحریر کو فکشن قرار دیتے ہیں جس میں کسی واقعہ یا کہانی کو بیان کیا گیا ہو۔وہ لکھتے ہیں:
”ایسی ہر تحریر جس میں کسی واقعہ’ کہانی یا افسانے کو بیان کیاجائے’فکشن کے زمرے میں آئے گی۔اسی لیے اس کادائرہ وسیع ہوجاتاہے۔اس میں حکایت بھی شامل ہے او رتمثیل بھی ۔داستان’ ناول او رافسانہ(طویل یا مختصر) بھی ‘ناولٹ بھی اور ڈرامے بھی ۔ یہاں تک کہ منظوم داستانیں بھی اور ایسی مثنویاں بھی جن میں قصہ پن کا عنصر ملتا ہے” ٤
عام طور پر فکشن سے مراد ناول او رافسانہ لیا جاتا ہے ۔ناولٹ چونکہ ناول اور افسانے کے درمیان کی کڑی ہے اس لیے یہ بھی ان میں شامل ہے ۔ناول ‘ناولٹ او ر افسانہ تخلیقی او راظہاری اعتبار سے ایک ہی صنفِ ادب ہیں۔ان تینوں اصناف میں جو چیز یں مشترک ہیں و ہ قصہ پن بیانیہ’واقعہ نگاری ‘کردار ‘ان کا خیالی ہونا لیکن حقیقت کا تاثر ابھرنا ہیں۔یہی وہ عناصر ہیں جو انہیں فکشن بناتی ہیں۔ جب ہم دوسری کہانیوں یا تحریروں پر نظر دہراتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی عنصر مفقود رہتا ہے لہٰذا انہیں ہم فکشن کا نام نہیںدے سکتے۔شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں:
”آسانی کے لیے ”افسانہ” کو Fictionکے معنی میں رکھیئے’کیونکہ ناول اور افسانہ تخلیقی اور اظہاری اعتبار سے ایک ہی صنف ہیں او راگر فکشن کی تعریف یا حدبندی ہوسکے تو ہم اسے ناول او رافسانہ دونوں کے لیے کام میں لاسکیں گے” ٥
فکشن کی اصل بنیاد قصہ ہوتاہے او راس کو بنانے میں کردار’ واقعات او رزمان ومکاں جیسے اجزاء کااہم کردار رہتاہے۔کردار اورواقعات کے درمیان ہونے والے معاملات سے ہی کہانی کی تشکیل ہوتی ہے۔ فکشن کا یہی کہانی پن قارئین کے لیے تجسس او ردلچسپی کاسامان مہیا کرتاہے۔اس کے کردار چونکہ انسان یا انسانوں جیسی سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں اس لیے یہ اصل زندگی کی تصویر نظر آتی ہے او رساتھ میں زماں ومکاں کی موجودگی سے بھی فکشن کے فرضی کردار او رواقعات حقیقی محسوس ہونے لگتے ہیں۔یہی عناصر فکشن کو انسانی جذبات’ احساسات او رفکر و اظہار کاایک طاقتور ذریعہ بناتی ہیں۔ فکشن میں تخیل کی مدد سے پلاٹ کو ایسے ترتیب دیا جاتاہے کہ شروع سے لے کر آخر تک قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے او رمسرت کے ساتھ ساتھ اسے بصیرت بھی عطا ہوتی ہے۔اس میں وہ سبھی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو انسان کے ذہن ودل کو متحرک کرکے اس کی زندگی میںایک نئی حرارت پیدا کردیتی ہیں ۔وہ نہ صرف خودمتاثر ہوتاہے بلکہ دوسروں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔
لفظ تاریخ جس کو انگریزی زبان میں ہسٹری (History)کہتے ہیں۔یونانی زبان کے لفظ ہسٹوریا(Historia)سے مآخوذ ہے جس کے معنی تحقیق یا مطالعہ ہیں۔ویسبسٹرز انسائیکلو پیڈیا میں تاریخ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
“The branch of knowledge dealing with past events. a continous, systematic narrative of past events as relating to a particular people, country, period, person, etc, usually written as a chronological account” (6)
تاریخ انسان کے ذہنی ارتقاء او رمختلف ادوار میںاس کے کارناموں کے مطالعہ او رتحقیق کانام ہے۔ فن تاریخ کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان سے ہوا او ریہاں اسے کافی ترقی ملی۔مختلف مورخین’مفکرین او ردانشور وں نے تاریخ کی تعریف اپنے اپنے انداز سے کی ہے۔ مشہور یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس(Herodotus)تاریخ کے موجد مانے جاتے ہیں ۔وہ تاریخ میں مشاہدے کو اہمیت دیتے ہیں۔انہوں نے جوتاریخیں لکھی ہیں ان میں قصے کہانیوں کاانداز اختیا ر کیاگیاہے۔تھیوسی ڈائڈس اس دور کے دوسرے معروف مورخ ہیں۔ تاریخ میںان کاانداز ناصحانہ ہے او روہ سیاست پر زور دیتے ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ تاریخ اسی وقت سبق آموز ہوسکتی ہے جب وہ صحیح شکل او رحقیقت پر مبنی ہو۔ابنِ خلدون کے نزدیک تاریخ کسی زمانہ یا نسل کے متعلق مخصوص روایات کے بیان کرنے کا نام ہے۔ جرمن نژاد ہنری رکرٹ کاماننا ہے کہ ان حقائق کی کھوج بہت ضروری ہے جو واقعی اہم ہوں ۔لیکن ابھی وہ اصول مرتب نہیںہوئے تھے کہ جن کی مدد سے حقائق کی اہمیت کو پرکھا جاتا ۔ لہٰذاانہوں نے ان معیاروں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو حقیقتوں کی اہمیت کاانداز ہ کرنے میںمعاون ثابت ہوسکیں۔ جدید فن تاریخ نگاری کے بانی جرمنی کے لیوپولڈ واں رانکے(Leo Pold Van Ranke)نے انیسویں صدی میں تاریخ نویسی کاایک نیا تصور پیش کیا۔انہوں نے تاریخ میںاہم تبدیلیاں کیں اور اسے نیا سائنسی مزاج عطا کیا۔ان کے نزدیک تاریخ لکھنے کامقصد یہ ہے کہ جو کچھ گذرا ہے اسے جوں کاتوں بیان کردیا جائے۔انہوں نے اس بات پر زور دیاکہ حقیقتوں کو پہلے معیار پرتولنا چاہیے او رپوری معروضیت کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے۔لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ کاپورے طور پر معروضی ہونا ممکن نہیںہے کیونکہ تاریخوں میںداخلیت باقی رہتی ہے۔چنانچہ اس دور میں جو تاریخیں لکھی گئیں ان میں داخلیت پر زور دیاگیا۔ لیکن جلد ہی١٩١٢ء میں جیمس ہاروے نے یہ رائے دی کہ یہ کام ہمیں مورخ پر چھوڑنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے جن حقائق کو اہم یا دلچسپ سمجھے ان کاانتخاب کرے۔ کارل ا گسٹ ملر کے مطابق تاریخ محض دلچسپ نہیں بلکہ سنجیدہ او رسائنٹفک ہونی چاہیے۔مشہور مفکر او ردانشور آرنلڈ جوزف ٹوئین بی نے تاریخ کو انسانی زندگی کے معلوم شدہ نمایاں کارناموںکا ریکارڈ قرار دیاہے۔
ابتداء میںعظیم ہستیوں کے کارناموں کی داستانیں تاریخ سے منسوب کی جاتی تھیں۔آج بھی بعض لوگ عظیم ہستیوں کی سوانح کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں ۔لیکن تاریخ کے سائنسی مطالعے کے ذریعے ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ تاریخ چند ہستیوں کی سوانح کانام نہیں بلکہ پورے سماج کے ارتقاء کی کہانی ہے۔فرضی و اقعات تاریخ کو مسنح کردیتے ہیں او راس کے نتائج گمراہ کن او رخطرناک ہوسکتے ہیں۔تاریخ بادشاہوں کی داستان نہیںہے بلکہ یہ تہذیبی رفتار کا آئینہ ہے ۔اس میں گذرا ہوا زمانہ تمام طرح کے مسائل او رپیچیدگیوں سمیت صاف طور پر نظر آتا ہے۔
تاریخ ماضی میں انسان کی سرگرمیوں کی داستان ہے جس کو مورخ زمانے کے اعتبار سے ترتیب دے کر ا س میں مفہوم پیدا کرتا ہے ۔کسی بھی تاریخ کامطالعہ کرتے وقت یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس کو لکھنے والا کون ہے۔ اس کی تاریخی فکر کیا ہے۔اس نے جس طرح ماضی کو پیش کیاہے آیا وہ ٹھیک اسی طرز پر تھایا اس کی اپنی تعبیر ہے۔تاریخ میں حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ مورخ ذہنی و شعوری طور پر خودکو اس ماحول او رحالات میں جذب کردے۔ تاریخ کادارومدار ثبوت او رشہادت پر ہوتاہے نہ کہ ذاتی خواہشات پر۔مورخ گذرے ہوئے زمانے کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتاہے۔ایک اچھے مورخ کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ذہن ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو۔ کسی گروہ سے محبت یا نفرت کی بنیاد پر اپنی تاریخ کو کسی بھی صورت میں مسنح نہ ہونے دے۔اس کامزاج تنقیدی ہونا چاہیے۔ گزرے ہوئے زمانے کو جانچنے او رپرکھنے کے بعد ہی کامیاب تاریخ لکھی جاسکتی ہے ۔حقیقت کو جوں کا توں بیان کرنا مورخ کا اولین فرض ہے۔غیر جانبداری اور سائنٹفک انداز تاریخ نویسی کی اہم خصوصیات ہیں۔ مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانبداری سے احتراز کرے ‘ راویوں کی ہر روایت کی تحقیق کرے جس کے لیے جرح و تعدیل کے طریقہ کو اختیار کیاجائے او رتمدن کے حالات کی حقیقت سے واقفیت حاصل کرے۔جو مورخ ان کوائف کااحساس صحیح طور پر رکھتا ہے وہی ایک ایسی تاریخ کی ترتیب دے پاتا ہے جو ہر لحاظ سے کامیاب او رمکمل ہوتی ہے۔ مورخ’تاریخ او راس کی تفہیم و تعبیر سے متعلق ڈاکٹر سید جمال الدین اپنے تاثرات کااظہار یوں کرتے ہیں:
”حقائق کوکوئی نہیں بدل سکتا لیکن حقائق کی تفہیم او رتعبیر ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مورخین میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ ہر مورخ ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے ماضی کو دیکھتا ہے ۔دورِ حاضر کی طرف بھی اس کااپنا خاص رویہ ہوتاہے۔ مورخ کی فکر کے یہ دونوں رخ مل کر اسے ایک نظریۂ حیات دیتے ہیں’ اور یہی نظریۂ حیات دانشورانہ سطح پر اسے ایک ایسا خاکہ یا حوالہ عطا کرتا ہے جس کے مطابق وہ ماضی کی جستجو میںمصروف ہوجاتا ہے ”۔ ٧
تاریخ نویسی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ مورخ اپنی صلاحیت ‘ زو ر قلم او رقوتِ مشاہدہ سے واقعات کو ترتیب دے کر حال کو ماضی کا آئینہ دکھاتاہے۔وہ حقائق کی تلاش او رواقعات کے انتخاب میں سائنسی طریقہ اپنا تاہے ۔تاریخ تحقیق او رفن تحریر کے امتزاج کانام ہے۔مورخ کابنیادی مقصد فن کا مظاہرہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی تمام تر توجہ حقائق پرمرکوز رکھتا ہے ۔ وہ حقائق کی توضیح و تشریح تنقیدی انداز سے کرکے واقعات کو صحیح صورت میں سامنے لانے کی کوشش میں رہتا ہے ۔اس کے اظہارِ بیان میں اگر ادبی چاشنی بھی شامل ہوجائے تو وہ تاریخ خوبصورت او ردلکش بن جاتی ہے۔ صحیح واقعات کو بہترین انداز میں ترتیب دینا تاریخ نویسی کی ایک اہم خوبی ہے او رایسی ہی تاریخ مورخ کو زندہ جاوید بناتی ہے ۔تاریخ زندوں کی دنیا ہے۔ حقائق کی عدم موجودگی میں تاریخ نویسی ممکن نہیں ۔لہٰذا حقائق کاانتخاب کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں ماضی کو پورے طور سے سمجھنا ہے او رحال سے اس کاتعلق قائم کرناہے ۔ای۔ایچ ۔کار تاریخ کے بارے میں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“It is a continous process of interaction between the historian and his facts, an unending dialogue between the present and the past”. (8)
تاریخ انسانی تجربوں کی کہانی ہے ۔مختلف ادوار میں مختلف مقامات پر رہنے والے انسانوں کی اجتماعی زندگی جن حالات وحادثات سے گزری ہے یہ اس کی سرگزشت ہے ۔تاریخ انسانی زندگی کے علم کو منظم کرنے کاایک ذریعہ بھی ہے۔یہ ایک خبر کی طرح کام کر تی ہے جودنیا میں رونما ہوئے حالات وواقعات کاپتہ دیتی ہے ۔ تاریخ زندگی سے زندگی کارشتہ جوڑتی ہے۔ماضی کے دلچسپ او ریاد گار واقعات اس کاموضوع بنتے ہیں۔یہ وہ علم ہے جو وسیع و عریض موضوع کو سمیٹ کر تمام علوم کی حقیقتوں کو بیان کرتاہے۔مذہبی او ردیگر عقائد تاریخ میں کمزوریاں پیدا کرتے ہیں ۔لہذا ایک صحیح تاریخ وہی ہوسکتی ہے جو ان عقائد سے الگ سائنسی انداز میں لکھی گئی ہو۔ تاریخ تحقیق بننے سے پہلے داستان تھی۔ اس کے بیشتر کردار افسانوی اور واقعات فرضی ہوتے تھے۔حقیقت او رفسانہ میں فرق کرنا نہایت ہی دشوار تھا۔ یونان کے ہیرو ڈوٹس وہ پہلے مورخ ہیں جنہوں نے تاریخ کو تحقیق کے معنی میںاستعمال کیااور انسان او راس کے ماضی کو موضوع بناکر تاریخ لکھی اور واضح کردیا کہ فکشن او رتاریخ میں بنیادی فرق ہے ۔ایک بہترین او رکامیاب مورخ وہی ہوتاہے جو اپنے قوت مشاہدہ سے واقعات کو ترتیب دے کر زندگی کی مکمل او رجیتی جاگتی تصویر پیش کرکے تاریخ اور داستان کے درمیان کے فرق کو واضح کرے۔بعض اوقات دشواریوں کے سبب تاریخ میں قیاس سے بھی کام لینا پڑتاہے۔لیکن یہاں مورخ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اجتہاد او رقیاس کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کردے کہ دونوں کو الگ نہ کیا جاسکے۔ جستجو و تحقیق اور قیاس و تخیل کے امتزاج سے تاریخ وجود میں آتی ہے۔
فکشن اور تاریخ ایک دوسرے کوبے حد متاثر کرتے ہیں۔فکشن انسانی زندگی کے تجربے اور تخیل کی جیتی جاگتی تصویر ہے او رتاریخ زمین پر انسانیت او رفطرت کی سلسلے وار کہانی۔فکشن اور تاریخ دونوں اپنی تکنیک او رطریقۂ کار کے اعتبار سے دو الگ الگ شعبے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں میںگہرا رشتہ بھی ہے ۔فکشن کوبعض مفکرین نے تاریخ سے زیادہ اہم قرا ر دیا ہے’کیونکہ اس کی بنیاد سماج کے گہرے مطالعہ پر ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف تاریخ لکھی ہوئی چیزوں او رایسے تاثرات پرمبنی ہوتی ہے جو دوسروں کے توسط سے حاصل ہوتے ہیں۔ فکشن نگار مورخ سے بہتر طور پر واقعات کو پیش کرتاہے ۔وہ تخیل کی مدد سے اپنی تخلیق کے ذریعے تاریخ نویسی کے ان تقاضوں کو پورا کرتاہے کہ جنہیں مورخ نہیں کرپاتا ۔لیکن کبھی فکشن تاریخ کے خلاف بھی جاتا ہے ۔ یہ تب ممکن ہے کہ جب کوئی فکشن نگار تخیل کی گہرائیوں میںاس قدر کھو جائے کہ تاریخی شعور اس کے ذہن سے محو ہوجائے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فکشن تاریخ کے خلاف بھی جاتاہے او رتاریخ کو راہ بھی دکھاتا ہے۔
فکشن پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیاجاسکتا۔تاریخی فکشن مصنف کے اپنے خیالات کانتیجہ بھی ہوتاہے۔اس لیے اس میں تاریخ مسنح شدہ ہوسکتی ہے۔لہٰذا تاریخ نویسی میں فکشن کے استعمال سے قبل اس کی تصدیق بے حد ضروری ہے ورنہ نتائج گمراہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔تاریخ کے لیے حقائق کی تصدیق بڑی اہمیت رکھتی ہے۔کیونکہ بعض تاریخوں میںایسے حقائق کی کمی نہیں ہوتی جن کی تصدیق کی ہی نہیں جاسکتی۔ایسی تاریخوں میںمورخ نے فرضی واقعات او راساطیر کو تاریخ کے سرمنڈھ دیا ہوتاہے۔دونوں ہی صورتیں تاریخ کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قدیم متنوں او ردستاویزوں پرایمان نہیں لایا جاسکتا۔ان میں مذہبی او ردیگر تعصبات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اس لیے تاریخ او راساطیر میں فرق کرنا لازمی ہے جس کے لیے متن کاتجزیہ بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر تاریخ نویسی کے ساتھ انصاف نہیں کیاجاسکتا۔ ہمارے قدیم قصے کہانیاں او رادبی دستاویزیں اگرچہ ہمارے سامنے ہندوستانی معاشرت کی بھرپور تصویر پیش کرتے ہیںلیکن یہ تاریخی اعتبار سے ناکافی ہیں۔ان میں بیشتر حالات و حادثات خیالی او راساطیری ہوتے ہیں جن کاحقیقی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ہم انہیں تاریخ کانام نہیںدے سکتے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بغیر ایک کامیاب تاریخ لکھنا ممکن بھی نہیں کیونکہ یہ تمام دستاویز یں تاریخ کے لیے خام مواد کاکام دیتی ہیں ۔یہاں پر فکشن تاریخ کے لیے ایک اہم آلہ کار کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔تاریخ کو سنوارنے میںاس کا کردار قابلِ تعریف ہے ۔خورشید انور اس بارے میں اپنے خیالات کااظہار یوں کرتے ہیں:
”تاریخ نویسی میں متون او ردستاویزات کی شکل میں دستیاب مواد کے علاوہ دیگر مآخذوں کااستعمال بھی بہت ضروری ہے۔ محض حقائق تاریخ کو افسانوی شکل ہی دے سکتے ہیں’ تاریخ کی شکل نہیں” ٩
ابتداء میں تاریخ پر داستانوں کے گہرے اثرات تھے ۔اس کے کچھ کردار حقیقی تو کچھ افسانوی تھے۔ دیوی’ دیوتاؤں او ران دیکھی فوق الفطری طاقتوں کے کارنامے تاریخ میں بیان ہوتے تھے ۔یہ وہ دور تھا جب فکشن او رتاریخ کے درمیان فرق کرنا مشکل تھا۔لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ تاریخ نے سائنسی او رمعروضی انداز اختیار کیا او ر اس میں صرف ایسے واقعات پیش کیے جانے لگے جن کی ہر زمانے میں تصدیق ہوتی رہی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آج بھی ایسے خیالی واقعات او رقصے تاریخ کی زینت بنتے ہیں جن کے حقیقی ہونے کاکوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ ایسے موقع پر تاریخ فکشن کے بہت قریب آجاتی ہے ۔ تاریخ میں فکشن کے عناصر شامل رہتے ہیں اور فکشن میںتاریخ کے ۔ایک اچھا فکشن نگار ان تمام نکات کو پیش کرتاہے جن میں اس کے قارئین دلچسپی لیتے ہیں او راس کاکمال یہ ہوتاہے کہ وہ ان نکات کو تاریخ سے وابستہ کردیتا ہے ۔اسی طرح مورخ بھی اپنی تاریخ کو دلچسپ بنانے کے لیے فکشن کاسہارا لیتاہے۔ لیکن تاریخ کو فکشن بنانے یا تاریخ میں فکشن کے عناصر شامل کرنے سے کچھ خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔کیونکہ فکشن کا بنیادی مقصد مسرت و تجسس پیدا کرنا ہوتاہے۔ اس میں تاریخی حقائق کو ذیلی حیثیت دی جاتی ہے۔بعض مورخین اپنی تاریخ کو رنگین بنانے کے لیے فکشن کااستعمال اس طرح کرتے ہیں کہ دونوں کے اجزاء ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔ایسی صور ت میں حقیقت او رفسانے میں فرق کرنا دشوار ہوجاتا ہے او ر یہاں پر بھی تاریخ فکشن کے ذیل میں چلی جاتی ہے کیونکہ تاریخ کامقصد گذرے ہوئے زمانے کی حقیقت کو جوں کاتوں بیان کرنا ہوتاہے۔ فکشن کئی اعتبار سے تاریخ کے برابر ہے ۔اس میں بھی تاریخ کی طرح حقائق اورواقعات کابیان ہوتاہے۔ایک مشہور قول ہے کہ تاریخ میں سنہ کے علاوہ سب کچھ غلط ہوتاہے او رقصہ میں سنہ کے علاوہ سب کچھ صحیح ہوتاہے۔جس طرح واقعات کی نیرنگیاں تاریخ میں دلچسپی پیدا کرتی ہیں اسی طرح فکشن بھی واقعات کے بیان کی وجہ سے دلچسپ ہوتاہے ۔اس میں انسانی زندگی کو تمام اتار چڑھاؤ کے ساتھ پیش کیاجاتا ہے ۔یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں پورے معاشرے کے عکس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر احمد خان اس حوالے سے لکھتے ہیں:”فکشن ‘ادب کاایک ایسا آئینہ ہے جس میں پورا معاشرہ اپنی تمام نیرنگیوں کے ساتھ منعکس ہوتاہے ۔علاوہ ازیں فکشن’ زندگی کی حرارت او راس کے نشیب و فراز کو محسوس کرنے کا ایک ایسا آلہ ہے جہاں تمام افراد اپنے مختلف رنگ و روپ او رخدوخال میں نمایاں نظر آتے ہیں” ١٠
فکشن او رتاریخ میں اشتراک و افتراق کی نمایاں صورتیں نظر آتی ہیں۔فکشن فسانہ ہے او ر تاریخ تحقیق۔فسانہ میںمصنف کی اولین کوشش تاثیر پیدا کرنا ہوتاہے تاکہ قارئین کو مسرت و انبساط کی د ولت عطا ہو۔ تحقیق طریقۂ فکر ہے اور محقق لطف و تاثیر کی پرواہ کیے بغیر یہ بتا تاہے کہ اصل میں کیا ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد واقعات کو صحیح تسلسل کے ساتھ پیش کرنا ہوتاہے ۔اس کے اظہار بیان سے قارئین متاثر ہوتے ہیں یا نہیں یہ بات اس کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ فکشن کی طرح تاریخ بھی بدلتے ہوئے تقاضوں’اقدار اور فکرکے تحت لکھی جاتی ہے او رہر مرتبہ نئے انداز سے دیکھی او رسمجھی جاتی ہے لیکن اس کادائرہ محدود ہوتاہے۔اس میں واقعات کوزمانے کے اعتبار سے ترتیب دینا پڑتا ہے او راس بات کاخاص خیال رکھنا پڑتاہے کہ کہیں حقیقت کادامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔جب کہ فکشن میں من مانے طریقے سے واقعات کا انتخاب کرکے دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تاریخ کاموضوع فرد اور اس کی سماجی زندگی ہوتاہے۔فکشن میں بھی اسی طرح کسی زندگی کوپیش کیاجاتاہے لیکن دونوںمیں بنیادی فرق ہے۔حقیقت کے اعتبار سے تاریخ کاپلڑا بھاری رہتا ہے لیکن اگر انسانی خیالات’ جذبات’ احساسات او راس کی زندگی کو متاثر کرنے والے دیگر محرکات کی بات کی جائے توفکشن ان کے بیان او رپیش کش میں تاریخ سے سبقت لے جاتاہے۔فکشن میں اگرچہ انسانی زندگی کی بہتر ین تصویرپیش کی جاتی ہے تاہم اس میں بہت ساری باتیں حقیقت سے مبرا ہوتی ہیں۔ اس میں ایسے خاکے کھینچے جاتے ہیں جو قطعی غیر تاریخی ہوتے ہیں۔لیکن ان کے پیش کرنے کے انداز سے ان پر حقیقت کاگمان ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ جدید فن تاریخ نگاری کے بانی رانکے نے تاریخ کو فکشن سے بڑھ کر قرار دیا ہے ۔ان کے مطابق حقیقت کی بناء پر تاریخ زیادہ دلکش او ردلچسپ ہوتی ہے ‘ جب کہ فکشن میں فسانہ سازی او ردروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔رانکے کے اس نظریے پر ڈاکٹر سید جمال الدین تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”رانکے کا ذہن اور طریقۂ فکر اپنی جھلکیاں دکھا رہا ہے ۔اس کے ذہن کی ہر جھلک ظاہر کرتی ہے کہ وہ حقائق کاکتنا احترام کرتا تھا او رصحت کا کتنا خواہشمند تھا ۔اسے یقین تھا کہ بہ نسبت فسانہ کے حقیقی تاریخ زیادہ دلکش اور دلچسپ ہے” ١١ ہندوستان کے مشہور مورخ بھیشم نے اپنی تاریخ لکھنے کامقصد محض انسان کے ذہنی تجسس کی تسکین قرار دیا ہے ۔وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ماضی کامطالعہ افادیت رکھتا ہے او راس سے مستقبل کی رہنمائی بھی ہوتی ہے او رنہ ہی وہ اس نظریے کے حامی ہیںکہ مورخ عہد ماضی کے افکار او رزندگی سے براہِ راست وابستگی حاصل کرلیتا ہے ۔ان کے مطابق مورخ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ اپنے تخیل کو منظم طریقے سے استعمال کرکے تصورات او رخیالات کاایسا ڈھانچہ تیار کردے جو اس کے خیال میں اس کے زیر مطالعہ عہد سے قریبی مماثلت رکھتا ہو۔ان کے خیال میں اشوک اور کالیداس کے افکار تک ہماری رسائی ممکن نہیں۔تخیل فکشن کی بنیادی خوبی ہے۔بھیشم نے تاریخ میں تخیل کی اہمیت کو اجاگر کرکے اسے فکشن سے قریب ترکردیا ہے۔
فکشن کی طرح تاریخ میں بھی داخلیت سے کام لیا جاتا ہے۔لیکن اگر یہاں داخلیت حقائق کو توڑ مروڑ کر انہیں ذاتی نظریات’ تعصبات’ پسند یا نا پسند یدگی کے تابع کرتی ہے تووہ تاریخ کے لیے مہلک ہے۔بیسویں صدی کے معروف انگریزی مورخ ای۔ایچ۔ڈانس کے نزدیک تاریخ انسان کوحقیقت سے دور لے جاتی ہے کیونکہ تعصب ‘وطن پرستی او رنسلی امتیازات کے احساسات تاریخ کو مسنح کرتے ہیں۔اس لیے تاریخ کے ذریعہ حقیقت کی تلاش ایک نا ممکن امر ہے۔
فکشن تاریخ سے بلند مقام رکھتاہے۔اس میں واقعات کے ساتھ انسانی فطرت کابھی مطالعہ کیاجاتا ہے جب کہ تاریخ میں صرف واقعات کا بیان ہوتاہے۔فکشن میں واقعات کو جب عین فطرت کے مطابق فنکارانہ انداز سے پیش کیاجاتا ہے تو اس کے حسن و تاریخی صحت میں اضافہ ہوتا ہے ۔فکشن خصوصاً ناول میں تاریخی شعورکافی حد تک ملتاہے۔ناول نگاروں اور مورخین نے ہمیشہ ایک دوسرے پر شدید اثرات ڈالے ہیں۔بعض لوگوں نے ناول کو تاریخ سے بڑھ کر قرار دیا ہے اور کچھ نے تاریخ کوفکشن کے معنی میںاستعمال کیاہے۔ مشہور ناول نگار ہنری جیمز کے مطابق وہی ناول حقیقتاً ناول ہے جو تاریخ کے زیر اثر ترتیب دیاگیا ہو ۔اردو کے مایہ ناز ناول نگار مرزا ہادی رسوا نے تاریخ سے زیادہ ناول کو اہمیت دی ہے۔ برجرنے ناول کے ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی فکشن قرار دیا ہے۔تاریخ و تاریخی شعور عام ناول کے برعکس تاریخی ناول میں زیادہ نمایاں ہوتاہے۔ تاریخی ناول اور تاریخ دونوںمیں افسانوی اور تاریخی عناصر کی آمیزش رہتی ہے۔کبھی تاریخ کمزور تاریخ استناد کی وجہ سے فکشن کے دائرے میں آتی ہے او رناول مضبوط او رصحت مند تاریخی شعور کی بدولت تاریخ سے بہتر سمجھا جاتاہے۔اس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فکشن او رتاریخ کے درمیان اشتراک کے ساتھ ساتھ افتراق بھی ہے۔دونوں نے ابتداء سے ہی ایک دوسرے پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
١۔ پروفیسر آل احمد سرور ”فکشن کیا ‘کیوں اور کیسے” (اردو فکشن) ص ٢
٢۔ Webster’s Encyclopedic Unabridged of the English Language, RHR Press, 2001, P -713
٣۔ ڈاکٹر رضوان الحق’ ”اردو فکشن اور سینما” (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس’دہلی’٢٠٠٨ئ) ص ٤
٤۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم’ ”اردو فکشن کی تنقید” ( تخلیق کار پبلشرز’دہلی’١٩٩٦ئ) ص ٢١
٥۔ شمس الرحمن فاروقی ‘ ”افسانے میں کہانی پن کامسئلہ ” افسانے کی حمایت میں
(مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ‘نئی دہلی’١٩٨٢ئ) ص ٩٩
٦۔ Webster’s Encyclopedic Unabridged of the English Language, RHR Press, 2001, P -907
٧۔ ڈاکٹر سید جمال الدین’ ”تاریخ نگاری۔قدیم و جدید رجحانات” (نئی آواز’ جامعہ نگر’نئی دہلی١٩٩٤ئ) ص ١٠
٨۔ E. H. Carr, “What is History?” Edt. by R.W.Davies, Penguin Books, 2008, P-30
٩۔ خورشید انور’ ”قرة العین حیدر کے ناولوں میں تاریخی شعور” (انجمن ترقی اردو ‘نئی دہلی’١٩٩٣ئ) ص ٣٤
١٠۔ ڈاکٹر احمد خان’ ”قاضی عبدالستار۔فکر’فن او رفنکار” (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس’دہلی٢٠٠٥ئ) ص ٩
١١۔ ڈاکٹر سید جمال الدین’ ” تاریخ نگاری۔قدیم و جدید رجحانات” (نئی آواز’ جامعہ نگر ‘نئی دہلی’١٩٩٤ء ) ص ٤٩
تحریر: فردوس احمد بٹ
پی’ ایچ’ ڈی اسکالر
شعبۂ اردو’کشمیر یونیورسٹی، کشمیر(انڈیا)
موبائل:9797964917