تحریر:الیاس حامد
عورت کو صنف نازک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، یہ وصف اس کے جسمانی طور پر مرد کے مقابلے میں نازک ہونے کی بنا پر اور جذباتی طور پر جلد ٹوٹ جانے اور بکھر جانے کے باعث بھی ہے۔ شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عورت کیلئے اسی معنی و مفہوم میں ایک لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ آپۖ نے انجشہ صحابی کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (رویدک یا انجشة لاتکسرالقواریر) ”یعنی ٹھہر جائو اے انجشہ، آبگینے مت توڑ دینا”۔ بخاری کی اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ نبی کریمۖ کے ایک صحابی انجشہ راستے کے گائیڈ تھے۔ انجشہ پرسوز آواز کے مالک تھے جب شعر پڑھتے تو اس کو سن کر اونٹ بھی ریگستانوں اور نخلستانوں میں دوڑ پڑتے اور رفتار بہت تیز ہو جاتی۔ ایک دفعہ شعر پڑھنے لگے جونہی آواز بلند ہوئی تو قافلے میں موجود اونٹ بھی تیز ہونے لگے۔ آپۖ نے یہ کہہ کر روک دیا مبادا اونٹ اتنے تیز دوڑنا شروع ہو جائیں کہ ان پر سوار خواتین گر پڑیں اور آبگینے یعنی صنف نازک ٹوٹ جائیں۔
بنت حوا کی نازکی اور کمزوری کو ہر معاشرے میں تحفظ دینے کی تعلیمات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنت حوا آج ہر جگہ موضوعِ بحث ہے۔ کہیں اس کو حقوق دینے اور معاشرے میں مضبوط مقام دلانے کی باتیں ہوتی ہیں اور کہیں مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے۔ عورت کو حقوق دلانے کیلئے ہزاروں این جی اوز ہیں جو اربوں ڈالر بجٹ رکھتی ہیں۔ صرف صنف نازک کے حقوق کی پاسداری اور حمایت کی حد تک ان یورپین فنڈڈ این جی اوز کی چیخ پکار ہو تو بات قابل فہم ہے۔ مگر ان خوبصورت اور دلنشین نعروں کے پیچھے جو مذموم مقاصد اور ایجنڈے ہیں اسے دیکھ کر ایک صاحب بصیرت کو ضرور تشویش ناک ہونا چاہئے۔ چار و ناچار یہ بات تو اغیار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورت کو جو امن، تحفظ اور سکیورٹی اسلام کے اندر ہے دیگر کسی مذہب میں نہیں ہے، یورپ کے یہ معاشرے عورت کو اس مقام تک کھینچ لائے ہیں کہ عورت انتہائی بے بس، مجبور اور لاچار ہو چکی ہے۔ تمام تر آزادی اور خود مختاری کے اقدامات کے بعد عورت کی ایسی حالت ہے کہ حرص و ہوس کے مارے ہوئے مغربی ذہن نے عورت کو بازار کااشتہار بنا دیاہے۔ یہ بے چاری عورت آج مارکیٹنگ ٹول بن کر رہ گئی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر ہر بڑی چیز کے لئے جب تک بن سنور اور نیم عریاں لباس پہن کر عورت سکرین پر نہیں آتی اس وقت تک وہ چیز بکتی نہیں ہے۔ مارکیٹنگ اور شوبز کے نام پر بنت حوا کی عصمت کی نیلامی شب و روز ہوتی ہے اور سرعام ہوتی ہے۔ عورت کے معاشی استحکام اور معاشرے میں مضبوط کردار دینے کے نام پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
میڈیا کی یلغار نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا تصور بھی محال تھا ہر گھر میں بآسانی رسائی ہونے کے بعد لڑکی ماڈل، ہیروئن، اینکر یا نیوز کاسٹر بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ یوں آغاز سے ہی بنت حوا کے لٹنے کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ عبیرہ قتل کیس اس طویل سلسلے کی ایک حالیہ کڑی ہے۔ روشن مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے بنت حوا جب گھر سے نکلتی ہے ساتھ ہی بے آبرو ہونے کا طویل سفر شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی عبیرہ تو جلد موت کے منہ میں چلی جاتی ہے اور دیگر عفت و عصمت کی نیلامی کر کے ہر روز مرتی ہیں اور حیاء و پاکدامی کے جنازے اٹھتے ہیں۔ افسوس کہ آج ہم اس سازش کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا شکار مسلمان بیٹیاں ہو رہی ہیں۔
8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتاہے۔ یہ ایک دن کی کسی کے لئے تخصیص بھی اہل مغرب کا عجیب چلن ہے جس سے وہ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ایک روز کو منا لینے سے مقاصد پورے ہو گئے۔ اس دن اس بات کا عزم کیا جاتا ہے کہ عورت کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پر مردوں کے ہم پلہ ہونا چاہئے۔ عورت ہر لحاظ سے مضبوط ہونی چاہئے کسی مرد کے رحم و کرم پر نہ رہے۔ اپنے فیصلے خود کرنے کی اہل ہو سکے۔ چاہے اپنے جیون ساتھی کو آسانی سے مسترد کر دے تو اسے کسی قسم کا تامل نہ ہو۔ یہ سوچ مغرب میں پروان چڑھی، عورت معاشرے میں نکلی، چادر اور چار دیواری سے نکل کر بازاروں اور مارکیٹوں کا رخ کیا۔ جو پہلے ہی صنف نازک تھی اس کے ناتواں کندھوں پر فکر معاش کا بھاری بوجھ لاد دیا گیا۔ داستان صرف یہاں تک نہیں پھر معاشرے میں عورت پر جنسی حوالے سے جو نشتر چلے، حملے ہونے لگے، بھوکی نظروں سے دیکھا جانے لگا، آوازے کسے جانے لگے، یوں عورت اس قدر غیر محفوظ ہو گئی کہ معاملہ ہی الٹ ہو گیا، پھر ہوا یوں کہ معاشرے سے بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی عورت کے تحفظ کے لئے ویمن پروٹیکشن ایکٹ بنائے جانے لگے۔ عورتوں کی آبرو ریزی کے واقعات سے تنگ آ کر کئی قانون بنائے جانے لگے، مگر معاملہ پھربھی نہ سدھرا۔ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کا مصداق یہ سلسلہ جاری ہے۔ مرض کی وجہ ختم نہیں کرتے صرف پین کلر لے کر علاج کیا جاتا ہے۔
مسلم ممالک اور اسلامی معاشرے اس مسئلہ سے محفوظ تھے مگر کافروں کو یہ چیز کہاں بھاتی تھی۔ انہوں نے عورتوں کی آزادی اور خود مختاری جیسے دلفریب نعروں اور نظریوں سے اسلامی معاشروں میں نقب لگائی۔ آہستہ آہستہ ہماری عورت کو گھر سے نکالا، بازار میں لائے، دفتر کی زینت بنایا، چوک اور چوراہے میں لا کھڑا کیا شوبز کے نام پر باقاعدہ پلیٹ فارم مہیا کیا اور وہ وقت بھی آن پہنچا کہ اب ہمارے قومی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار چھپتے ہیں کہ جس کسی عورت کو اپنے کام، دفتر یا دیگر جگہ پر جنسی بلیک میلنگ کا سامنا ہو، موجودہ ہیلپ لائن پر رجوع کرے، باقاعدہ سیل بنا دیا گیا ہے۔
جب فطرت سے جنگ کریں گے تو ردعمل بلاشبہ ہو گا۔ عورت کو اسلام نے گھر کی زینت قرار دیا، امور خانہ داری اور بچوں کی تعلیم و تربیت جیسے عظیم فریضہ کو ادا کرنے کا ذمہ سونپا گیا۔ مسلمانوں نے مغرب کی نقالی یا فریب میں اسلام کے فطری قاعدے کو توڑا تو حالات ہمارے سامنے ہیں۔ عورت بے چاری جو طبعاً کمزور اور ناتواں ہے، گھر چلائے، بچوں کا خیال کرے، معاشی بوجھ اٹھائے اور اوپر سے غیر مردوں کے غیر اخلاقی حملوں کو بھی برداشت کرے، یہ سب کچھ کیا عورت کے تحفظ کیلئے ہے؟ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ عورت کی آزادی، خود مختاری، خوشحالی اور تحفظ اسلامی اقدار کے اندر رہ کر ہے یا مغرب کے دلفریب جھوٹے نظریہ آزادی نسواں میں؟
تحریر:الیاس حامد