اسلام آباد (یس ڈیسک) داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر پاکستان نے اس فتنے کوملک میں پرورش پانے سے روکنے کے لیے نئی حکمت عملی بنالی ہے، دولت اسلامیہ کی ملک میں موجودگی کی حقیقت سے مسلسل انکار کے بعد بالآخر حکومت نے تسلیم کر لیا کہ کچھ ملکی جنگجوؤں کے اس سفاک تنظیم سے روابط ہیں۔
ملک کی سرکردہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو کہا گیا ہے کہ داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدام کیے جائیں۔ اتوار کو وزارت خارجہ کے ایک افسرنے بتایا کہ تمام سیکیورٹی ایجنسیز کو کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ سے روابط بڑھانے والی شدت پسند تنظیموں پر پوری طرح نظر رکھیں۔
اس ضمن میں امیگریشن حکام سے بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی داعش میں شریک ہونے کے لیے نہ جانے پائے۔ اس حوالے سے ایجنسیاں مذہبی گروپوں اورجماعتوں پرکڑی نظررکھے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک اوردیگر مالیاتی اداروں کوبھی سختی سے تاکید کردی گئی ہے کہ فنڈزٹرانسفرز پرخصوصی نگاہ رکھیں کہ وہ داعش تک نہ پہنچ پائیں۔
حال ہی میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس سلسلے میں مختلف ممالک کے سفارتی حلقوں سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ جنگجو گروپوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ کریں۔ انھوں نے داعش کی مبینہ خلافت کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انتشار پھیلے گا۔
اس سلسلے میںسابق سفیراشرف جہانگیر قاضی کاکہنا ہے کہ اگر بیڈگورننس اور ناانصافی کا سلسلہ جاری رہاتو شدت پسندوں کو سرزمین پرپاؤں جمانے کا مزید موقع ملے گا۔ پاکستان پہلے ہی القاعدہ اور طالبان سے منسلک جنگجوؤں سے برسرپیکار ہے، وہ داعش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو عوام کا معیارزندگی بلند کرنا ہو گا۔ اگر عام لوگ تعلیم یافتہ اور خوشحال ہوں گے تو کوئی جنگجو گروپ انھیں استعمال نہیں کر سکے گا۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کو داعش کے خطرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک الگ انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا جائے جو بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کے اداروں سے رابطے میں رہے۔