تحریر : فضل خالق خان
وطن عزیز میں آئے روز حکومت مرکز کی ہو یا صوبوں کی ہر جگہ ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ملکی ترقی کے لئے شعبہ تعلیم کی ترقی ناگزیر ہے ،اس حوالے سے گاہے بہ گاہے الفاظ کے گورکھ دھندے کے ساتھ سالانہ بجٹ میں کچھ فنڈ ز بھی مختص کیے جاتے ہیں ، بعد میں پتہ نہیں چلتا کہ کس مد میں خرچ ہوئے۔ وہی ڈاک کے تین پات کے مصداق شعبہ تعلیم ہے جو روز بہ روز زبوں حالی کی جانب رواں ہے۔ ایسے میں کیا خا ک ترقی کا خواب پورا ہو گا۔سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت آج جس نہج پر ہے وہ کسی سے چھپا نہیں۔ کچھ اہل دل نے ان سرکاری اداروں کی جانب سے تعلیمی ضروریات پورا کرنے میں کمی کو محسوس کرتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی جو شروع میں تو بہت اچھے نتائج دے رہے تھے اور یقینا آج بھی کچھ ایسے ادارے ہیں جو اپنی ساکھ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی دیکھا دیکھی کچھ کاروباری سوچ رکھنے والوں نے اس شعبے کو بھی نہیں بخشا ۔ اس کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہوئے علم کے پیاسے ان والدین کو جو کمر توڑ مہنگائی کے بائوجوداپنے بچوں کی بہتر مستقبل کی خاطر اپنا پیٹ کاٹ کر ان پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرانے پر مجبور رہے۔ لیکن نتیجے کے طورپر ان کو خون نچڑ نے کے سوا کچھ نہیں ملا۔
اس حوالے سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اس کے مطابق سوات میں فی الوقت529 رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کو ملاکرچھ سو کے لگ بھگ نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں سے کچھ نامی گرامی اسکول بھی شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر نے تعلیم کی فراہمی کے نام پر جو گورکھ دھند ا شروع کیا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ارباب اختیار کو جگانے کے لئے پیش کرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ اول تو ان سکولوں کے امتحانی سلیبس کاپتہ نہیں چلتا ۔ گزشتہ سال نومبر کے مہینے سے شروع ہونے والے امتحانات تاحال جاری ہیں ۔سال کے بارہ مہینے بچوں سے مختلف امتحانی مدوں میں اضافی فیس کی وصولی نے والدین کا ناطقہ بند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول کا علیحدہ نصاب ہے جس کی وجہ سے اگر بوجوہ کوئی بچہ ایک سکول چھوڑنے پر مجبور ہواتو دوسرے اسکول میں اسے سرے سے نئی کتابیں اور اس کے ساتھ ساتھ نئے اسکول کا یونی فارم تبدیل کرنے کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑیں گے ۔کیوں کہ تقریباً ہر اسکول کا یونی فار م ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
اسی طرح بعض اسکولوں نے تویہ وطیرہ بنالیا ہے کہ کچھ عرصہ بعد یا سال میں ایک بار نصاب اور یونی فارم تبدیل کرتے ہیں جس سے والدین کی مشکلات میں بے جااضا فہ ہو تا ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت جب اقتدار میں آئی تو انہوںنے سب سے پہلے جو خوش کن نعرہ لگایا تھا وہ اسی شعبے کی ترقی کے حوالے سے تھا کہ ایک ہی نصاب تعلیم اور ایک ہی یونی فارم ہوگا ۔لیکن تاحال ہوا کچھ بھی نہیں ! دوسری جانب ان نجی اسکولوں میں ماہانہ فیس تو اپنی جگہ ہے لیکن اس کے بعد ٹیوشن فیس ، سپورٹس فنڈاوردیگر کئی قسم کے فیس جو تقریباً ہر دوسر ے ،تیسرے مہینے کے فیس چِٹ کے ساتھ بچے کو تھما کروالدین کو پریشان کیا جاتا ہے ۔16دسمبر2014 کے پشاور واقعہ کے بعد سے اب تو سیکیورٹی کے نا م پر بعض اسکولوں کا فیس بھی والدین کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان پرائیویٹ اسکول مالکان نے اپنی سکولوں میں باقاعدہ طورپر کتابیں ،کاپیاں اور یونی فارم بیچنے کے کاروبار الگ سے شروع کررکھے ہیں۔ بچوں کو وہیں سے مہنگے داموں اشیاء خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان دُکانوں میں ملنی والی اشیاء بازار سے مناسب داموں پر آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں۔
ایک سکول کے فیس چِٹ میں سکول فرنیچر مرمت کرنے اور رنگ وروغن کے حوالے سے بچوں سے فنڈ ز جمع کرنے پر جب متعلقہ اسکول مالک سے استفسار کیا گیا کہ ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ بچوں سے فیس وصول کرنے کے بعد فرنیچر کی مرمت اور رنگ وروغن کی ذمہ داری بھی کیا ان والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے آپ کے ہاں بھیجتے ہیں یا یہ آپ کی ذمہ داری ہے تو موصوف کے پاس جواب نہ رہا۔ اس کے علاوہ بعض اسکول مالکان نے بہ ظاہر بچوں کی سہولت کے نا م پرپک اینڈ ڈراپ کے لئے گاڑیاں رکھی ہیں جو دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں دُگناماہانہ کرایہ لینے کے مرتکب ہوتے ہیں اور بچوں کو انہی گاڑیوں میں آنے جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اوراس طرح کی دیگر کئی غیر قانونی اقدامات ہیں جس کا سلسلہ ان پرائیویٹ اسکول مالکان کی جانب سے جاری ہے جس پر متعلقہ ذمہ داروں نے معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
یہاں ایک اور بات کی بھی نشان دہی کرتا چلوںکہ بعض اسکولوں کی ناقص کارکردگی سے پریشان والدین اگر اپنے لخت جگر کو کسی دوسرے اسکول منتقل کرنے پر مجبورہوجائیں تو مذکورہ اسکول انتظامیہ اسکول چھوڑنے کے سرٹیفیکیٹکے لئے ان کو اتنا ذلیل کرتے ہیں اور اتنا بھاری فیس وصول کرتے ہیں کہ الاماں والحفیظ!سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ آپ کے ہاں علم کی روشنی حاصل کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے جس کی سزا ان کے والدین کو بھاری فیس وصول کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے جس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ ذمہ دارمزید خواب خرگوش میں رہنے کی بہ جائے اپنے دفاتر سے نکل کر تحقیقات کریں۔
کسی بھی قسم کی بے قاعدگی میں ملوث اسکولوں کے لائسنس منسوخ کردیں۔ اسی طرح صوبائی حکومت اگر اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم ازکم اپنے تبدیلی کے ایجنڈے کے طورپر صرف اس ایک شعبہ تعلیم کے بارے میں ہی اپنے دعووں کوعملی جامہ پہناتے ہوئے انہیں سال بھر کے لئے ایک ہی سلیبس کے تحت امتحانات کا پابند بنانے کے ساتھ ساتھ بچوں کوتعلیم سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کے تناسب سے ماہانہ فیس کا تعین بھی کردے(جو کیٹیگری اے بی سی سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے) تاکہ والدین کو ہر ماہ بھاری بھرکم فیس جمع کرنے سے نجات مل سکے۔ اس کے علاوہ تین بہن ،بھائیوں میں سے ایک کی فیس نہ لینے کے عدالتی احکامات پر بھی تاحال کہیں عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان مسائل کو حل کیا گیا تو صرف ان بچوں کے والدین کے ووٹ ہی موجودہ صوبائی حکومت کے ذمے داروں کو اگلے پانچ سال کے لئے ایک اور موقع آرام سے فراہم کرسکتا ہے ،بس ان کی تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔
تحریر : فضل خالق خان