تحریر : اختر سردار چودھری
دریا پہاڑوں سے نکل کر خشکی پر بہتے پانی کو کہتے ہیں ،ان کی بھی انسانوں کی طرح کئی نسلیں ہوتی ہیں ،مزاج ہوتے ہیں مثلاََمستقل دریا،معاون دریا،جو دریا کسی اور دریا میں جا ملے اسے معاون دریا کہتے ہیں ۔انسانوں کی طرح ایک چہرے پر کئی چہروں کی طرح ایک ایک دریا کے کئی نام ہوتے ہیں آپ ” دریائے شکسگام ” کو دیکھ لیں اس کے کلیچنار، میوزتگہ بھی نام ہیں ۔یہ دریا چین اور پاکستان کی سرحد بھی بناتا ہے ۔اس دریاکی ” دریائے یار کمد “سے یاری ہے اس میں جا ملتا ہے یعنی یارکمد کا معاون دریا ہے ۔اسی طرح ” دریائے ٹوچی” ہے اسے دریائے گمیلا،اور بنوں میں دریائے گریڑاکہتے ہیں ،پھر یہ دریا ” دریائے کرم” پر کرم کرتا ہے اس سے مل جاتا ہے ۔معاون دریائوں کی بات کریں تو دریائے شگر، دریائے سندھ کا معاون دریا ہے ،دریائے شیوک لداخ سے نکلتا ہے دریائے سندھ میں جا ملتا ہے “دریائے نیلم” ،دریائے جہلم کا معاون ہے اسے بھارت میں “کشن گنگا “کہتے ہیں ،جب یہ جہلم سے مل جاتا ہے تو اسے دریائے جہلم کہا جاتا ہے جس پر منگلا ڈیم بنایا گیا ہے ،انسانوں کی طرح کچھ دریا کڑوے ہوتے ہیں ،کچھ میٹھے ،کچھ نمکین ہوتے ہیں ،
بعض دریا بڑے دریا دل ہوتے ہیں جیسا کہ ” دریائے سندھ “ہے دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا سب سے اہم دریا ہے ،تبت سے شروع ہونے والا دریا،بھارت ،پاکستان ،کشمیر، سرحد، پنجاب، سندھ سے ہوتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے ۔اسے اباسین بھی کہا جاتا ہے یعنی دریائوں کا باپ۔ پاکستان کے دیگر دریائوں میں سے چند کا مختصر تعارف ،دریائے پونچھ،دریائے ڈوری اسے پاکستان میں دریائے لورا ،افغانسان میں کدھنائی کہا جاتا ہے۔”دریائے ژوب” یہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا دریا ہے ژوب کا مطلب ہے بہتا دریا ،یہ بہتا بہتا دریائوں کے باپ (دریائے سندھ )سے جا ملتا ہے ۔دریائے بیاس پاکستان کا دریا نہیں ہے پاکستان میں شامل ہونے سے پہلے ہی دریائے ستلج میں جا گرتا ہے ۔ لیکن ستلج کا معاون ہے ۔حب کا لفظ آئے تو ہم محبت سمجھتے ہیں ہمارے ہاں حب کے تعویذ لکھنے کا رواج ہے۔ ایک دریا کا نام بھی” دریائے حب “ہے جو صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کو الگ الگ کرتا ہے ،اس دریا پر حب ڈیم بنایا گیا ہے ،جو اپنی محبت(پانی)کراچی کو فراہم کرتا ہے ۔مشہور دریاوں میں ایک دریا “دریائے استوار “ہے جو اپنا رابطہ دریائے سندھ سے استوار کر کے اس کا حصہ بن جاتا ہے۔
یعنی معاون بن جاتا ہے ،دریائے استوار سے ایک اور دریا اپنا رابطہ استوار کرتا ہے اسے ” دریائے روپل “کہتے ہیں جو روپل نامی گلیشرسے شروع ہوتا ہے ،یہ ندی نما دریا،دریائے استوار سے مل جاتا ہے جو آگے جا کر دریائے سندھ سے،جس میں پاکستان میں بہنے والے اکثر دریا مل جاتے ہیں اور یہ خود بحیرہ عرب میں ۔دریائے استوار دیگر بہت سے دریائوں کی طرح دریائے سندھ کا معاون دریا ہے ۔بھارت میں” دریائے توی” کو مقدس سمجھا جاتا ہے پاکستان میں آ کر یہ دریا چناب میں مل جاتا ہے ۔اس کی لمبائی 89 میل سے کچھ کم ہے ۔”دریائے جندی “مالاکنڈ ،چار سدہ،اور خیبر پختونخوا کو سیراب کرتا ہے ۔ایک شفاف پانی کا دریا ،”دریائے شنگھو”ہے جو کارگل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بہتا ہے ۔دریائے پنجند ضلع بہاولپور میں ہے اس مقام پر اس میں دریائے جہلم،دریائے چناب،دریائے راوی،دریائے ستلج، مل جاتے ہیںیہ مشترکہ دریا45 میل کے بعد دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں ۔پنجند کو دریا نہیں کہنا چاہیے پانچ ندیوں کا دریا کہنا چاہیے اب یہ دریا دریا کہاں رہے ویسے بھی پنجند کا مطلب دریا نہیں پانچ ندیاں ہی بنتا ہے۔
دریائے جہلم کوہ ہمالیہ کے چشمہ ویری ناگ سے نکلتا ہے ۔سری نگر سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے ،تریموں پہنچ کر دریائے چناب سے مل جاتا ہے ،جو پنجند پہنچ کر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں ۔سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی اسی دریاکے کنارے لڑی گئی ۔ایک بات بڑی دلچسپ ہے کہ صوبہ پنجاب میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا بہتے ہیں ،جہلم ،چناب ،ستلج اور راوی ،دریائے راوی کے کنارے لاہور واقع ہے ،یہ دریا ساڑھے چار سو میل لمبا ہے ۔دریائے چناب ،چن اور آب سے مل کر بنا ہے چن کا مطلب چاند اور آب کا پانی ہے ،یہ بھارت کی ریاست ہماچل سے آنے والا ایک اہم دریا ہے ۔یہ جموں کشمیر سے بہتا ہوا پنجاب سے گزرتا ہے اور تریموں کے مقام پر جہلم سے مل جاتا ہے ،پھر راوی کو ملاتا ہے اور اوچ شریف کے مقام پر ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے ۔جو مٹھن کوٹ میں جا کر دریائے سندھ میں جا ملتا ہے ۔اس دریا کی لمبائی 960 کلومیٹر ہے ۔ہیر رانجھا ،سوہنی ماہی وال کی محبت کی داستانیں انہی دریائوں کے اردگر گھومتی ہیں ،پنجابی تہذیب انہی دریائوں کے درمیان ہے۔
سندھ کا شمارقدیم تہذیوں میں ہوتا ہے ۔اور دریائے سندھ دریائوں کا باپ کہلاتا ہے ۔مجھے اپنی تہذیب ،اپنی ثقافت سے ،اپنی زبان سے ،رسم ورواجوں سے محبت ہے ،دریائوں ،پہاڑوں ،صحرائوں،وادیوں،میدانوں سے محبت ہے ، لیکن تب دل خون کے آنسو روتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ ہماری کسی بھی حکومت نے دریائوں کے بارے میں نہیں سوچا ،اس وقت ہمارے دریائوں پر بھارت نے بے شمار ڈیم بنا لیے ہیں ،بھارت جب چاہتا ہے ان میں پانی چھوڑ دیتا ہے ،جس کے سیلاب سے سینکڑوں دیہات بہہ جاتے ہیں ،بھارت مسلسل معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کررہا ہے ۔جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لیے ہر دن ہی دریائوں کی اہمیت کا ،آگاہی کادن بن چکا ہے۔
لیکن حکومت (جو بھی رہی ہیںیا ہیں)ان کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے حالانکہ بھارت نے گذشتہ کئی دہائیوں سے آبی جارحیت شروع کر رکھی ہے ۔اصل میںپاکستانی لیڈروں کے لیے پاکستان کے مستقبل کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور بھارت کے لیڈروں کو اس کا احساس ہے کہ مستقبل میں پانی کتنی اہمیت اختیار کر جائے گا ۔اس لیے اس نے ان دریائوں پر بھی ڈیم بنا لیے ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے ۔اور علاوہ ازیں بھارت بذریعہ پائپ پاکستان کے دریائوں سے پانی چوری کر رہا ہے ۔اللہ پاکستان کو ایسے لیڈر عطا فرمائے جو اپنے ملک کے خیر خواہ ہوں۔
تحریر : اختر سردار چودھری