تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
کراچی میں سیاسی جماعت کے دفاتر پر چھاپوں پر عمران خان کا موقف درست اور قابل تقلید ہے مگر الطاف حسین کی بڑی بہن کے گھر میں داخل ہونا بہر حال قابل تحسین عمل قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مائیں بہنیں سبھی کی ہی سانجھی ہوتی ہیں ، رینجرز کو بھی جب اتنے سارے دہشت گرد ، سفاک مجرم اور قاتل دفاتر اور ایم کیوا یم کے حمایتیوں کی رہائش گاہوں سے دستیاب ہو ہی گئے تھے تو پھربہن کے گھر میں نہیں جانا چاہیئے تھا ۔ عمران خان کی طرف سے ان وارداتیوں اور ان کو تحفظ دینے والوں پر بھر پور تنقید تو احسن بات ہے مگرانہین خود اپنی پارٹی میں موجود معاشی دہشت گردوں اور مزدوروں کے خون کو شرابوں میں ملا کر پی جانے والے صنعت کاروں اور موجودہ و سابقہ مقتدر پارٹیوں سے اربوں روپوں کے دھن دھونس سے لوٹ کر جو لوگ ان کی پارٹی میں سر چھپانے کے لئے آئے ہیں اور اسطرح وہ آئندہ اپنے مکروہ کاروباروں کو جاری رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیںکو بھی یکسر مسترد کرکے باہر نکال پھینکنا چاہیے تاکہ انکی ذات بھی رفتہ رفتہ سوالیہ نشان نہ بن کر رہ جائے۔ کہ’ کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز ۔ کبوتر با کبوتر باز با باز’۔ کے مصداق اور یہ کہ آدمی اپنے دوستوں اور قریبی افرادسے ہی پہچانا جاتا ہے۔
ایم کیو ایم کے پاس جب ہزاروں کارکن اور ووٹر موجود ہیں اور سرمایہ کی بھی ریل پیل ہے تو اب انہین بھتہ مافیا اور قتل و غارت گریوں میں ملوث کارکنان سے جان چھڑا ہی لینی چاہئے کہ آج کا موقع اور وقت پھر شاید واپس ہاتھ نہ آ سکے ۔کہ ایسے افراد بہرحال سیاسی پارٹیوں کے لیے کلنک کا ٹکا بن جاتے ہیں اور مسلح ونگز بالآخر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو زیروکر ڈالتے ہیں اس میں بھی کوئی شق نہیں کہ میں نے اپنی 54سالہ اپوزیشن کی سیاست اور اتار چڑھاؤ کے سبھی ادوار میں دیکھا ہے کہ یہی ”طاقت ور ” افراد پارٹیوں کی ابتدائی نشو ونما کے لیے تو ضروری ہو سکتے ہیں مگرپارٹی کی گاڑی صحیح رفتار سے چل پڑے تو پھر ایسی سواریوں کو سیاسی گاڑیوں سے اتار ڈالنا ہی مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے اور ایسے ”کن ٹُٹے افراد” کی مددکی بہر حال اب الطاف حسین کو ضرورت بھی نہ ہے صورتحال شاید یہ بنی ہوئی ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتاکہ اب جن سے ہم نے سابقہ ادوار میں وارداتیں کروا لی ہوئی ہیں وہ ہمارا پیچھا کیوںچھوڑیں گے یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والا معاملہ بن چکا ہے اور یہ کہ ایم کیو ایم کو اپنے اسی دہثت گردانہ کردار کی وجہ سے مجبوراََ ہر صورت اقتداری کنویں کا مینڈک بن کر رہنا پڑتا ہے حالانکہ اب تو پارٹی معاشی طور پر بھی مضبوط قلعہ بن چکی ہے۔
بہر حال رضا کارانہ طور پر نائن زیرو کو جانے والے راستوں سے بیرئیر ہٹانے کے عمل کو بھی سراہا جانا چاہیے مگر وہ یہ عمل پہلے ہی کر ڈالتے تو کتنا اچھا ہوتا اب تو ” نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی ” والی بات ہے۔ بہرحال ان کا یہ عمل بھی قابل تحسین ہی ہے بہ امر مجبوری ہی کیوں نہ کیا گیا ہو مگر ایم کیو ایم کی طرف سے ڈھیروں اسلحہ کے اپنے دفاتر میں انبار جمع کر ڈالنا غیر ضروری اور قابل مذمت ہے کہ It is not the gun, it is the man behind the gun. کی طرح بندوقیں آج کل زیرو اسلحہ ہیں۔ اصل میں تو اسکو چلانے والے افراد ہی اصل طاقت ہوتے ہیں جو کہ انکے پاس کثیر تعداد میں ہیں اب اسلحہ جمع کرنا فضولیات میں آتا ہے اس طرح اسلحہ کے انبار رکھناخود حفاظتی نہیں بلکہ کسی خوفزدہ فرد کا ہی طریق ہو سکتا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ” انسان کا سب سے بڑا محافظ اسکی موت ہے جو کہ وقت سے پہلے نہیں آسکتی” یعنی موت کا وقت معین ہے اور خدا کی طرف سے مقرر کردہ موت کے فرشتہ کا کام ہی خدائی حکم کے مطابق انسانی روح کو قبض کر نے کے وقت معینہ سے قبل ا س شخص کو مرنے سے تحفظ دے رکھنا ہی ہے۔تو پھر ڈر کس بات کا؟
آج بھی جو لیڈران مسلح سکوارڈ وں سے ساتھ گھومتے نظر آتے ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے زیادہ محافظ ہوں گے اتنی ہی جلدی وہ دشمنوں کی طرف سے ہلاکت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔گو کہ اب الطاف بھائی(جن کی اصل رہائش بہاولنگر شہر کی ہے) کی جماعت کی پرواز بہت اونچی بلندیوں پر ہے مگر ان کو اپنے پرانے بچپن اور گھبرو وقت کے ہمارے جیسے بہاولنگری دوست احباب کی آواز کو بھی سننا چاہیے اور میں نے تو دو دفعہ پروفیسر راشد کے ہمراہ کراچی یورنیورسٹی جا کر بھی جمیعتیوں کے ساتھ انکی مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زمانے میں اللہ واسطے کے خواہ مخواہ کے جھگڑوں کو نمٹانے کی بھر پور کوششیں کی تھیں” ہمیں یاد ہے ذراذراتمہیں یاد ہو کہ نہ یادہو” ۔ رہے نواز، زرداری اور ق لیگ والے تو لاکھ کہیں کہ ہے مگر نہیں ہے کی طرح انکی عوامی ساکھ اب ملک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی کیونکہ انہوں نے اپنے ادوارمیں چم (چمڑے) کے سکے چلا رکھے تھے صرف روپوں میں سب سے بڑھ کر ہونے کی وجہ سے چینلوں اور اخباروں پر چھائے ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اب تو ان لوگوں کی سیاست مُوت (پیشاپ) میں سے مچھلیاں تلاش کرنے کی خواہش کی طرح ہے۔
یہ لوگ کروڑ دفعہ بھی مختلف غازے ، پاؤڈر چہروں پر مل کر عوام کے سامنے آئیں تو لوگ بالکل دھوکہ نہیں کھائیں گے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا مگر پاکستانی تو کئی بار ان زہریلے بچھوؤں سے ڈسے جا چکے ہیں اسی لیے تو مسلسل ڈنگ کھائے ہوئے زخمی لوگ بالخصوص غریب اور پسے ہوئے طبقات کے افراد کسی نئی اللہ اکبر تحریک جیسی جماعت کی تلاش میں سر گرداں ہیں جو مخلص قیادت رکھتے ہوئے انکے مسائل غربت، بیروزگاری، مہنگائی ، بد امنی کے مستقل حل کے لیے کوشاں ہو اور اسمیں پرانے جغادری اور لوٹے لٹیرے و ٹھگ رہنمایان قطعاََ شامل نہ ہوں ایسی پارٹی جو تمام مسالک کو قبول ہو ، ہر فرقے اورعلاقائی، لسانی گروہ اور تمام برادریوں کو بھی سازگار ہو۔
اگر ایسا نہ ہو سکا اور اسی طرح مسلسل ٹھگ اور لوٹے لٹیرے عمرانی پارٹی میں جمع ہوتے چلے گئے تو پھر پرانے ادوار کی طرح ظالم جاگیر داروں ، لٹیرے سرمایہ داروں اور سود خور صنعت کاروں کا بدبو دار قلاوا غریب عوام جدوجہد کرکے بھی اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے میں قطعاََ کامیاب نہ ہو سکیں گے۔اور یہ ڈائینو سار قسم کے افراد حسب ضرورت غریب عوام کی گردنوں کو دبوچ کر خوفناک ڈائنوں کی طرح انکا خون چوستے رہیں گے تاکہ انکی لوٹ کھسوٹ کے مال سے بھری تیز رفتار گاڑیاں مسلسل چلتی رہیں ، انکے بدبو دار پیٹ مزید موٹے ہو جائیں اور اندرون اور بیرون ممالک انکے بینک بیلنس ترقی پذیر رہیں اور انکی ملیں بھی مسلسل مزید ناجائز بچے جنتی رہیں بھلا سوچو تو سہی کہ مکاریوں اور بد عنوانیوں کے نئے نئے طریقوں کے موجدین ، انگریزوں کی جوتیاں چاٹ کر اور انہیں گھر جوائی رکھ کر حاصل کی گئی جاگیروں کے مالک اور انکی اولادیں بھلا عوام کا کیا بھلا کریں گی۔اور انکا احتساب کیسے ہو گا؟
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری