تحریر : عقیل خان
پاکستان میں سیاست کا کھیل بھی نرالا ہے۔ کھیلنا بھی ضروری ، ملنا بھی ضرور اور پھر لڑنا بھی ضرور۔ پاکستان میں اتنے ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہونگے جتنی سیاسی پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں۔ جس کا جب دل چاہا اپنی پارٹی بنائی او ر الیکشن میں حصہ لے لیا۔ قیام پاکستان سے آج تک پاکستان میںمختلف سیاستدانوں نے حکمرانی کی مگر کسی بھی پارٹی کو آج تک عوام نے مخلص نہیں پایا۔ جو ایک بار اقتدار میں آگیااس پر عوام نے دوبارہ اعتماد نہیں کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی پارٹی نے مسلسل دوبار حکومت نہیں کی اور اگر کی ہے تو وہ ڈنڈے کے زور پر ۔ سیاست وہ کھیل ہے جوہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیروبنا دیتا ہے۔ اس کھیل میں کوئی بھی سیاستدان ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔الیکشن شفاف ہو یا نہ ہو ہارنے والی جماعتیں اس کو سو فیصد غیر شفاف بنا دیتی ہیں۔ ہارنے والی جماعت نے جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگا کر الیکشن کو مشکوک بنا دیا۔ الیکشن پر اربوں روپیہ خرچ کیا جاتاہے ۔جب دھاندلی کا رونا رویا جاتا ہے تو پھر اقتدار میں آنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارے سیاستدان بھی بادشاہ بندے ہیںان کو عزت اوربے عزت میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ان کوسیاست میں حلیف اور حریف میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ کبھی حریف حلیف بن جاتے ہیں اور کبھی حلیف حریف ۔کل تک میڈیا کے سامنے ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت کو کرپٹ اور لوٹ مارکرنے والی جماعت کہہ رہی ہوتی ہے۔اس پر ایک سو ایک الزام لگا کر اس کو عوام دشمن کہا جاتا ہے مگر اپنے مفاد کی خاطر جلد ہی وہ جماعت مومن بن جاتی ہے اور پھر اپنے مفادکی خاطر ایک ہونے کو ملکی مفاد کانام دیکر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
جیسے میںپہلے ذکر کرچکا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بھر مار ہے مگرآج تک مرکز میں زیادہ تر اقتدار کے مزے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے چکھے ہیں۔ہاں البتہ صوبائی سطح پر مختلف پارٹیاں بدل بدل کر باری لیتی رہی ہیں ۔ اقتدا ر میں آنے سے پہلے تمام سیاستدان عوام کوسنہرے خواب دکھاتے ہیں۔ بڑے بلند و بانگ دعوے کیا جاتے ہیں مگر اقتدار کا نشہ چڑھتے ہی یہ لو گ سب کچھ بھول بھال جاتے ہیں۔ انہیں اتنا خوف خدا بھی نہیں ہوتا کہ کل کو جب پھر دوبارہ عوام کے سامنے جائیں گے تو کس منہ سے جائیں گے۔
حالیہ سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کی باتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کو ممبرز خریدنے کے طعنے دیے گئے۔ مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا گیا۔ دعوتیں کھلائیں گئیں۔ صدارتی آرڈیننس جاری کئے گے۔ الیکشن کا ٹائم بڑھایا گیااور نہ جانے کیا کچھ کیا مگر ان سب سرگرمیوں کو” ملکی مفادکی خاطر” کا نام دیا گیا یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس میںکتنا ملکی مفاد ہے اورکتنا ذاتی؟ خان صاحب تو جنرل الیکشن کی طرح سینٹ الیکشن کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔خان صاحب کا حق بھی بنتا ہے کہ وہ شک کریں کیونکہ جس طرح فاٹا کے ممبرز کوسینٹ کے الیکشن سے دور کیا گیا ہے اس وجہ سے شک جائز بنتا ہے مگر خا ن صاحب کے پی کے میں جو آٹھ بجے تک پولنگ چلی اس پر دوسروں کا شک بھی جائز ہے۔
بحرحال جو کچھ بھی ہوا سینٹ الیکشن اپنے انجام کو پہنچ گیا اور اب وقت آگیاسینٹ کے بگ باس بننے کا۔ شروع شروع میں تو ہر جماعت نے ادھر اُدھر ہاتھ پیر مارے مگر پھر نہ جانے کون سی گیڈر سنگھی سامنے آئی کہ جس نے یکدم تمام جماعتوں کو ایک نام پر متفق کردیا۔ کچھ لوگوں نے اس کو زرداری کی چال کہا تو کسی نے اس کو مفاد کی سیاست کا نام دیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ہمارے سیاستدان بھی بالغ نظر ہوتے جارہے ہیں۔ ان تمام جماعتوںنے جس نام پر اتفاق کیا وہ نام رضاربانی کا ہے۔ رضاربانی بہت پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ ان کاشمار پیپلزپارٹی کے سینئر اور مخلص ترین ممبرز میں ہوتا ہے۔شاید کسی کو یاد ہو یا نہ ہو رضا ربانی وہ ہستی ہے جس نے 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کی متفقہ منظوری کے بعد اپنے ردعمل میں کہا کہ جتنے وہ آج شرمندہ ہیں اتنا پہلے کبھی نہیں ہوئے۔انھوں نے کہا مجھے اس سینیٹ میں تقریباً 10 سے 12 سال ہو چکے ہیں لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔’رندھی ہوئی آواز میں رضا ربانی بمشکل تین جملے ہی ادا کر پائے اور ان کا آخری جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ووٹ پارٹی کی امانت تھی جو میں نے ادا کر دی ، میں نے آج اپنے ضمیر کے خلاف۔۔۔’اس کے بعد رضا ربانی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور تقریر مکمل کیے بغیر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔رضا ربانی نے ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی۔ انہوں نے کبھی منافقت سے کام نہیں لیا۔ شاید یہی وجہ کہ ان کے اس کردار کی وجہ سے تمام جماعتوں نے ان کو سینٹ کا بگ باس بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ دونوں بھائیوں (نوازاور زرداری) کی اس مفاہمتی سیاست سے تانگہ پارٹیوں کی سیاست بہت پیچھے چلی گئی۔ جولوگ پیٹ بھرنے کا سوچ رہے تھے وہ بھوکے ہی رہ گئے۔ اس طرح سیاستدانوں کے مل جانے سے عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے اور ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ ہمارا ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کرے گا۔ اللہ کرے کہ جو لوگ اسوقت کی سیاست پر منفی سوچ رہیں وہ حقیقت نہ بنے اور اب ہمارے حکمران خواہ وہ کسی جماعت سے ہوں بس ملک اور اپنے عوام کے لیے کام کریں۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com