تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری
آج کے مسلمان لفاظی و زبان دانی کی مباحث کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ دعوت اسلامی بھی اپنی کامیابی کے لیے ان باتوں اور لفاظی کے ساتھ لازم ٹھہر چکی ہے۔ اسی وجہ سے مغرب اور بہت سے افراد نے اس اصطلاح کو کہ دینی بات یا دینی خطاب کے نام سے تعبیر کرنا شروع کردیا ہے۔ جب کے اصحاب الدعوة اس مصطلح کو مسترد کرچکے ہیں،اور یہ امر درست بھی ہے کہ اسلام لفاظی و باتوں کے گرداب میں کئی دہائیوں سے گہر چکاہے ،اس سبب سے مسلمانوں کا وقت ضائع ہوااور حقوق اللہ و حقوق العباد کا بے پناہ نقصان ہوا ہے اور اسی طریقہ نے دعوت اسلام کو اہم موقع (اخلاق، ثقافت اسلامی، علم و معرفت کے مجال میں)پر نقصانات و خساروں سے دوچار کیا ہے۔
ایک آدمی نے مجھ سے شکایت کی کہ میری بیوی میرا خیال نہیں رکھتی بلکہ میرے ساتھ اہانت کا معاملہ روا رکھتی ہے ،وہ یہ سمجھتاتھا کہ اس کی بیوی خاوند کی نافرمانی کی بناپر جہنم میں داخل کی جائیگی۔جب میں اس کے ساتھ اس بات چیت میں مصروف رہاتو مزید معلوم ہواکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ درشت روی کا معاملہ کرتاہے اور اس کو پیٹتابھی ہے ،ایسے میں وہ بیوی اس کی کیسے اطاعت کرسکتی ہے؟اس آدمی نے اسلام کی تعلیمات کے ظاہر ی حکم کو تو لیا مگر عمل و فعل سے دوری اختیار کی ،وہ اپنے حقوق کی عدم ادائیگی کی شکایت تو کررہاتھا مگر جو واجبات اس پر بیوی کے اور بحیثیت گھر کے مسئول ہونے کے ذمہ ہیں ان سے روگردانی اخیتار کرتا تھا!!۔ اسی طرح لوگ اسلام کے ظاہری احکامات کو توبیان کرتے ہیںجن کا حکم اسلام نے دیا مگر عمل کی بات نہیں کرتے۔
جب ہم معاشرے میں عداوت و اختلافات اور نافرمانی کے جاری امور کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتاہے کہ باپ بیٹوں کو پیٹتاہے ،بچیوں پر جبرا اپنا فیصلہ نافذ کرتاہے اور بیوی کے ساتھ جارحانہ و جابرانہ رویہ سے پیش آتاہے تو بات بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسائل کیوں پیداہوتے ہیں، اور ان امور کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک محبت و مودت اور رحمت کی صفات کا حامل خاندان وجود میں آئے۔ اورایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ روادار، معتدل اور متوسط معاشرہ تشکیل پاسکے۔
انسانوں کے مابین تعلقات کلام و زبان کی بنیاد پر قائم ہیں نہ کہ عمل۔ اسلام نے صلہ رحمی کے قیام کے لیے قانون بیان کیے ہیں تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں ،اگرکسی کے دل میں نرمی و رحمت کا عنصر نہیں تو یہ امر اس انسان کے عمل کے سبب ہے نہ کہ اسلام کوذمہ دار قرار دیا جائے ۔لوگوں نے اسلام کے حکم کو لیا ہے مگر عمل و فعل کو ترک کردیا۔اسلام اجتماعیت کا مطالبہ کرتاہے اور اس کا حکم بھی دیتاہے، انسانوں کے درمیان تعلقات کے وجود کو قائم کرنے کے لیے جبریت کی تعلیم نہیںدیتا بلکہ محبت اور قناعت پسندی کی دعوت دیتاہے۔یہ بات قابل قبول نہیں کہ لوگوں کی باتیں ایک طرف ہوں اور ان کا عمل دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”لوگوں کو نیکی و بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو فروگذاشت (بھول)کر بیٹھتے ہو ،کیا تم عقل نہیں رکھتے”
یہ بڑی خطرناک بات ہے۔اسلام نے تاجروں کو منع کیا ہے سامان تجارت میںملاوٹ کرنے اور دھوکہ بازی کا معاملہ روا رکھنے سے ،یہ حقیقی تعلیم ہے، جب کے دوسری جانب مسلمان تاجر ملاوٹ کرتاہے اور دھوکہ دہی کا معاملہ رکھتاہے مشتری کے ساتھ تو یہ غلطی اس کے عمل کی ہے نہ کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص و خلل ہے۔اشرعیت نے ظلم کو حرام قراردیاہے جب کہ لوگ اس کو اپنے گھروں میں ،اپنے گرد اس کا معاملہ روارکھتے ہیں لوگوں کے مال کو غصب کرکے تو یہ قصور عمل مسلم کا ہے۔۔۔
اسلام مسلمانوں کو لوگوں کے درمیان برے معاملہ سے روکتاہے اور فیصلہ کرنے میں عدل و انصاف کی تعلیم و ہدایت دیتاہے۔اللہ کا حکم ہے کہ”اگر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی نوبت آجائے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔۔۔”اور جو عمل کی دنیا میں ہوتاہے وہ اس کے برعکس ہے۔لوگوں نے اسلام کو کلام یعنی باتوں یا ظاہری احکام کی جانب منتقل ہو گیا ہے جب کہ اس کی اصل اس سے مختلف ہے جو زمین میں واقع ہورہاہے۔اسلام کے لیے خطرہ کی کوئی بات نہیں بلکہ وہ لوگ جو ظلم و ستم کا معاملہ روارکھتے ہیں نصرت اسلام کی خاطراللہ تعالیٰ ان کی جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے۔
اسلام مسلمانوں کو لوگوں کے درمیان برے معاملہ سے روکتاہے اور فیصلہ کرنے میں عدل و انصاف کی تعلیم و ہدایت دیتاہے۔اللہ کا حکم ہے کہ”اگر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی نوبت آجائے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔۔۔”اور جو عمل کی دنیا میں ہوتاہے وہ اس کے برعکس ہے۔لوگوں نے اسلام کو کلام یعنی باتوں یا ظاہری احکام کی جانب منتقل ہو گیا ہے جب کہ اس کی اصل اس سے مختلف ہے جو زمین میں واقع ہورہاہے۔اسلام کے لیے خطرہ کی کوئی بات نہیں بلکہ وہ لوگ جو ظلم و ستم کا معاملہ روارکھتے ہیں نصرت اسلام کی خاطراللہ تعالیٰ ان کی جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے۔
تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری
khlidfuaad313@gmail.com