تحریر: ملک ارشد جعفری
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے اسی لیے تمام کائنات کو حضور پاک نے یہ فرمان سنا دیا تھا کہ جس نے بھی دین حق کی پہچان کرنی ہوں اور میرے پاس آنا ہو تو وہ اپنے ایوان کو قائم کرنے کے لیے علی ابن علی طالب کی تعلیمات پر عمل کریں اسی لیے تمام مخلوقات کے لیے یہ ضروری ہے کسی گھر میں داخل ہونے کے لیے سب سے پہلے اس کے دروازے کا استعمال کیا جاتا ہے دیورایں پھلانگ کر آنے جانے والے غلط نام سے پہنچانے جاتے ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مستند حدیث ہے کہ میں اپنے پاس وہ وزنی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور اپنی اہل بیت دونوں کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا اور یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس لائیں گے جوان کو چھوڑ دے گا یا نظر انداز کرے گاوہ دین اور دنیا دونوں میں گمراہ ہوجائے گا اسی لیے۔
جناب علی فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ئولا شریک ہے اور اول اس طرح کہ اس کے پہلے کوئی چیز نہیں ہے اور آخر یوں کہ اس کی کوئی انتہا ء نہیں اس کی کسی صفت وہم و گماں با خبر نہیں ہوسکتے اور نہ اس کی کسی کیفیت پر دلوں کا عقیدہ جم سکتا ہے نہ اس کے اجزاء ہیں کہ اس کا تجزیہ کیا جاسکے نہ قلب و چشم اس کا احاطہ کر سکتے ہیں ۔امام المطقین فرماتے ہیں خدا کے بندوں مفید عبرتوں سے نصیحت کھلی ہوئی نصیحت سے عبرت حاصل کرو خوف دیہانیوں سے اثر لو مواعظ ازکار سے فائدہ اٹھائو کیونکہ یہ سمجھنا چاہئیے کہ موت کے پنجے تم گڑ چکے ہیں اور تمہاری امیدوں و آرزوں کے تمام بندن ایک دم ٹوٹ چکے ہیں سختیاں تم پر ٹوٹ چکی ہے اور موت کے چشمے پر کہ جہاں اتارا جاتا ہے تمہیں کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے اور ہر نفس کے ساتھ ہنکانے والا ہوتا ہے اور ایک شہادت دینے والا ہنکانے والا اسے امید ان حشر تک ہنکا کر لے جائے گا اور گواہ اسکے عملوں کی شہادت دے گا اسی خطبے کی یہ جز ء جنت کے متعلق، اس میں ایک دوسرے سے بڑھے بڑھے ہوئے درجے ہیں اور مختلف معیار کی منزلیں نہ اس میں ٹھہرنے والوں کو وہاں سے کوچ کرنا ہے ۔ اور نہ اس میں ہمیشہ کے رہنے والوں کو بوڑھا ہونا اور نہ اس میں بسنے والوں کو فقر و ناداری سے سابقہ پڑنا ہے ۔ ہیں نہ اس کی نعمتوں کا سلسلہ ٹوٹے گا۔
“وہ دل کی نیتوں اور اندر کے بھیدوں کو جانتا پہنچانتا ہے ۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہرشے ہر چھایا ہو اہے۔ اور ہر چیز پر اس کا زور چلتا ہے تم میں سے جسے کچھ کرنا ہو، اسے موت کے حائل ہونے سے پہلے کے دنوں میں مصروفیت اور قبل فرصت کے لمحوں میں اور گلا گھٹنے سے پہلے سانس چلنے کے زمانے میں کر لینا چاہئیے۔ واپنے لیے اور اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے سامان کا تہیہ کر لے، اور اس گذر گاہ سے منزل اقامت کے لیے زاد راہ فراہم کرتا جائے ۔ اسے لوگو! اللہ نے اپنی کتاب میں جن چیزوں کی حفاظت تم سے چاہی ہے اور جو حقوق تمہارے ذمے کیے ہیں ان سے ڈرتے رہو ۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ نے تمہیں بے کار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قیدو بند جہالت و گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا جائے اس نے تمہارے کرنے اور کرنے کے اچھے برے کام تجویز کر دیے اور (پیغمبر کے ذریعے ) سکھا دئیے ہیں اس نے تمہاری عمریں لکھ دی ہیں ۔ اورتمہاری طرف ایسی کتابیں بھیجی ہیں کتاب بھیجی ہے جس میں ہر چیز کا کھلم کھلا بیان ہے اور اپنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندگی دے کر مدتوں میں رکھا ، دیہاں تک کہ اس نے اپنی اتاری ہوئی کتاب میں اپنے بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور تمہارے لیے جو اسے پسند ہے کامل کر دیا۔ اور ان کی زبان سے اپنے پسندیدہ اور ناپسند یدہ افعال کی تفصیل اور اپنے اور امرو نواہی تم تک پہنچائے۔
اس نے اپنے دلائل تمہارے سامنے رکھ دیے اور تم پسر اپنی حجت قائم کر دی اور پہلے سے ڈرا دھمکا دیا اور (آنے والے) سخت عذاب سے خبردار کر دیا تو اب اپنی زندگی کے بقیہ دنوں میں (پہلی کو تاہیوں کی ) تلافی کرو اور اپنے نفیسوں کو ان دنوں ( کی کلفتوں ) کا متحمل بنائو ، اس لیے کہ یہ دن تو ان دنوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جو تمہارے غفلتوں میں بیت گئے اور وعظ و پند سے بے رخی میں کٹ گئے ۔ اپنے نفسوں کے لیے جائز چیزوں میں بھی ڈھیل نہ دو۔ ورنہ یہ ڈھیل تمہیں ظالموں کی راہ پر ڈال دے گی اور (مکرویات میں بھی ) سہل انگاری سے کام نہ لو ، ورنہ یہ نرم روی اور بے پرواہی تمہیں مصیبت کی طرف دھکیل دے گی اللہ کے بندوں ! لوگوں میں وہی سب سے زیادہ اپنے نفس کا خیر خواہ جو اپنے اللہ کا سب سے زیادہ نفس کو فریب دینے والا ہے جو اپنے اللہ کا سب سے زیادہ گناہ گار ہے اصلی فریب خوردہ وہ ہے جس نے اپنے نفس کو فریب دے کر نقصان پہنچایا۔
قابل رشک وغبط وہ ہے جس کادین محفوظ رہا اور وہ نیک بخت ہے جس نے دوسروں سے پند و نصائح کو حاصل کیا اور بد بخت وہ ہے جو ہوا و ہوس کے چکر میں پڑ گیا ۔ اور یاد رکھو! تھوڑا سا یا بھی شریک ہے اور ہوس پر ستوں کی مصاحبت ایمان فراموشی کی منزل اور شیطان کی آمد کا مقام ہے جھوٹ سے بچوں ، اس لیے کہ وہ ایمان فراموشی سے الگ چیز ہے راست گفتار نجات اور بزرگی کی بلندیوں پر ہے اور دروغ گوپستی و ذلت کے کنارے پر ہے باہم حسد نہ کرو اس لیے کہ حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو اور کینہ بعض نہ رکھو اس لیے کہ یہ (نیکیوں ) کو چھیل ڈالتا ہے ۔اور سمجھ لو کہ آرزوئیں تھلوں پ رسہوکا اور یاد الہٰی یہ لسیان کا پردہ ڈال دیتی ہے۔ امید وں کو جھٹلائو ، اس لیے کہ یہ دھوکا ہیں اور امیدیں باندھنے والا فریب خوردہ ہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ میری اہلبیت سفینہ نجات ہے جو جو اس میں سوار ہوجائے گا اس کی بخشش ہو جائے گی اس کشتی میں دل و جان سے اس کی دنیا و آخرت دنوں سنور جائیں گی جو شخص بھی لوگوں کے ساتھ اپنے عائد کو پوری وفاداری سے نبھاتا ہے وہ دنیا میں برگزیدہ ہونے کے لائق اور مستحق ہو جاتا ہے شرط صرف ہے کہ انسان ایماند دار اور ایمان پختہ ہو امیر المومنین فرماتے ہیں تعجب ہے اس شخص پر جو خود لوگوں کی اصلاح کا بیڑہ تو اٹھاتا ہے اور خود ہی اس کی حالت خراب کرنے پر اپنی اصلا ح کا دل میں خیال تک نہیں کرتا۔
تحریر: ملک ارشد جعفری