تحریر : وصی رحمنٰ
اس نے گھر سے باہر جاتے جاتے کہا!’’بہنا! آج تم نے چاول بہت اچھے پکائے ہیں‘ میں 2 گھنٹے کیلئے ذرا کام سے جا رہا ہوں، مگر میرے لئے چاول بچا کر رکھنا، میں آکر کھالوں گا‘‘ مگر قصور سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد نعیم کے خام وخیال میں بھی نہیں تھا کہ فرشتہ اجل اسے اس بے رحم دنیا کی قید سے آزاد کروانے کیلئے اپنے کام کا آغاز کرچکا تھا۔ تئیس سالہ حافظ محمد نعیم فیروز پور روڈ پر ایلومینیم کی کھڑکیوں اوردروازوں کی فٹنگ کا کام کرتا تھا‘15مارچ 2015ء اتوارکے روز وہ کسی کام کی غرض سے یوحنا آباد کی طرف گیا ہواتھا کہ صبح 11بج کر 12منٹ پر لاہور کا علاقہ یوحنا آباد یکے بعد دیگرے دوہولناک دھماکوں سے گونج اٹھا‘ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس نے پورے علاقہ کی ناکہ بندی کی اورجائے وقوعہ کے قرب وجوارمیں مشکوک نظر آنے موجودافرادکو دھڑا دھڑ پکڑنا شروع کردیا‘ محمد نعیم بھی باریش ہونے کی وجہ سے دھرلیا گیا‘ محمد نعیم نے اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے اپنی شناخت کروا کرپولیس سے اپنی جان چھڑانا چاہی مگر پولیس نے اسے شک کی بناء پر روکے رکھا‘حافظ محمدنعیم نے لاکھ دہائی دی کہ وہ یوحناآبادمیں صرف اپنے کام کی غرض سے آیاتھااوردھماکہ ہونے پر بوکھلا کراپنی جان بچانے کیلئے بھاگ کھڑاہوا‘مگرپولیس نے اسے حراست میں لے کر گاڑی کے اندربٹھائے رکھا‘ دھماکوں کے بعد عیسائی برادری کے مشتعل افراد مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے‘مشتعل ہجوم نے اپنے سامنے آنے والی ہر موٹرسائیکل، کار، گاڑی اورلوگوں کی املاک کو جلانا شروع کردیا‘
حافظ محمد نعیم کو پولیس کی حراست میں دیکھ کر مشتعل ہجوم نے اسے بھی دہشت گردوں کا ساتھی جانا اور اسے پولیس کی حراست سے زبردستی چھڑالے گئے‘ عیسائی مظاہرین نے حافظ محمدنعیم اور ایک دوسرے نامعلوم باریش آدمی کو افراتفری اوراشتعال کا فائدہ اٹھا کرمارنا شروع کردیا‘آہستہ آہستہ مشتعل مظاہرین کی تعدادبڑھتی گئی اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے‘ عیسائی مظاہرین نے اشتعال کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے دونوں باریش آدمیوں کو ڈنڈوں ، جوتوں ، لاٹھیوں ، لاتوں اورگھونسوں سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا‘ اوربربریت کی انتہاء کرتے ہوئے دونوں آدمیوں کو ننگاکردیا‘ پولیس کی طرف سے ہلکی سی مزاحمت کے بعد دونوں بے گناہ افراد ان عیسائی مظاہرین کے رحم وکرم پر تھے‘ مظاہرین کے بے پناہ تشدد کی وجہ سے دونوں آدمی اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہوگئے مگرمشتعل مظاہرین نے اسی پر اکتفا نہ کیا‘ہجوم میں سے کسی نے آواز دی’’ ان دہشت گردوں کو جلا کر راکھ کردو‘انہیں عبرت کا نشان بنا دو‘‘زندہ جلائے جانے کے ہولناک خیال پر دونوں بے گناہوں کے نیم مردہ جسموں میں ہلکی سے کسک ہوئی مگراپنے پیروں پر اٹھ کرمشتعل اوربے رحم ہجوم کے سامنے اپنی بے گناہی کی فریاد کرنے کی طاقت ان کے جسموں سے پرواز کرچکی تھی‘نیم مردہ جسموں کی روحوں نے آخری فریاد کرتے ہوئے جسم سے کہا ’’اٹھویہ تمہیں زندہ جلانے لگے ہیں‘‘ مگر زخموں سے چور چور جسم نے ہار مان لی‘ روح اپنی بے گناہی پر زورلگاتی رہی اور جسم اٹھنے سے انکارکرتا رہا‘ پھر کہیں سے مٹی کا تیل بھی آگیا، ہاتھوں میں ماچس اور لائیٹر بھی نظرآنے لگے‘ہجوم کے چہر ے پر وحشت اوردیوانگی نے اپنا رقص شروع کردیااور پھر انسانیت نے سسکیاں بھرتے ہوئے اپنا منہ چھپا لیا‘فرشتوں نے اسے مشیت ایزدی سمجھ کر ایک دوسرے سے منہ پھیرلیااورشیطان نے خوشی سے رقص کرنا شروع کردیا ‘ لاہور سے چند میل کے فاصلے پر قصور شہر کے ایک غریب سے محلہ کے ایک پسماندہ گھر میں بیٹھی ہوئی حافظ محمدنعیم کی ماں کا کلیجہ نہ جانے کیوں منہ کو آنے لگا‘کچھ انجان اندیشے آج اس کے گھر کی دہلیز پر چلتے پھرتے اسے محسوس ہورہے تھے‘ ماں کی ممتا اپنے جگر کے ٹکڑے کو کس حال میں دیکھنے والی تھی‘ کون جانے؟
گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان چند لمحوں میں کوئلہ ہوئے تو عیسائی برادری کے مشتعل لوگوں کاکلیجہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہوا‘ کوئلہ ہوئے انسانوں کے گلے میں رسی ڈال کر سڑکوں پر گھمایا جانے لگا‘ یوٹیوب اور فیس بک موبائل مافیا اپنے اپنے موبائلوں سے درندگی کی تصویریں اپنے موبائلوں میں ریکارڈکرنے لگا‘ ہرکوئی اچھے سے اچھازاویہ بنانے کیلئے بے چین ہورہاتھا۔ یوٹیوب اور فیس بک پر پذیرائی اور Likesکا نشہ انسانیت اورمردہ جسموں کے احترام پر حاوی ہورہاتھا‘یہ بھی پاکستانی قوم کی بے حسی اور مردہ دلی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جو مردہ جسموں کو کوئلہ بنتے دیکھ کرویڈیوبنانے سے محظوظ ہوتی ہے۔ قانون کاپہلوان مشتعل اور طاقتور ہجوم کے ہاتھوں بے بس ہوکراس کی کنیز بن کررہ گیا۔ ایک مشتعل ہجوم کے سامنے سی پی او، ایس ایس پی، ایس پی اوروردی میں ملبوس سینکڑوں پولیس والے بھی بے بس ہوگئے‘ 2بے گناہ انسان سب کی آنکھوں کے سامنے وحشیانہ تشدد کے بعد نیم مردہ حالت میں زندہ جلادئیے گئے اور قانون اپنی بے بسی کا مذاق بنتے دیکھتا رہ گیا‘ خادم اعلی پنجاب سے کوئی تو سوال کرے آخر کہاں گئی آپ کی تدبیریں ؟ آپ کے بیانات؟ آپ کے دعوے؟بچپن سے جوانی تک ساتھ نبھانے والے حافظ محمدنعیم کے بھائی نے کوئلہ بنی لاش کو شناخت کیا تواس کی ٹانگیں جواب دے گئیں‘ جوان بھائی کی کوئلہ بنی سوختہ لاش کوگھرکیسے لے جاؤں گا؟ کیسے قبرمیں اتاروں گا؟
عیسائیوں کی مذہبی عبادت گاہ پر حملہ بلاشبہ عیسائی برادری کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے، ہم اس کی ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں مگر دنیا کا کون سا قانون آپ کوکسی کے لباس ، چہرے ، رنگ اور نسل کی بناء پراسے دہشت گردوں کا ساتھی سمجھ کر زندہ جلانے کا حق دیتا ہے؟ کیاحافظ محمد نعیم کا قصور صرف یہ تھا کہ اپنے حلیہ سے وہ کسی مدرسے کا طالب علم یا کسی مذہبی جماعت کا کارکن لگتا تھا‘ لیکن کیا یہ چیز اسے دہشت گرد وں کا ساتھی ثابت کرنے کیلئے کافی تھی؟کیا میں یہ سمجھوں کہ عیسائی برادری کا اشتعال میں بے قابو ہوکر 2بے گناہ انسانوں کو زندہ جلانا آتش انتقام تھا؟جب کچھ عرصہ قبل عیسائی بستی کو اسی طرح ایک مشتعل ہجوم نے جلا دیا تھا‘مگر ہمیں پھر بھی پاکستان میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب بھائی چارہ کو فروغ دینے کی کوشش کرنی ہوگی‘ میں ذاتی طورپر مذہب سے پہلے انسانیت کو قائم رکھنے کا قائل ہوں‘ میں پوری پاکستانی قوم اور حکمرانوں سے یہ سوال کرتاہوں کہ کوئی تو بتائے کہ آخر یہ حق ہمیں کون دیتاہے کہ ہم کسی بھی جیتے جاگتے انسان پر کوئی بھی الزام لگا کر اس کا بھیجا اڑا دیں یا اسے زندہ جلادیں‘ آخر ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس ملک میں چاہے لولا لنگڑا سہی پورا ایک قانونی سسٹم ہے‘ قانون کے نفاذ کیلئے پولیس، ججزاورعدلیہ مامور ہے مگرقانون کی سنتاکون ہے؟ اس مظلوم دھرتی کے حکمرانوں سے لے کر ریڑھی والے تک سب کے سب تو قانون کی دھجیاں اڑانے میں دن رات ایک کررہے ہیں‘اﷲسبحان وتعالی نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور اسی طرح ایک انسان کی جان بچانے والا گویا پوری انسانیت کی جان بچا نے والا ہے‘ مگراس ملک خداداد میں ایک انسان کا قتل جیسے ایک مچھر کا قتل سمجھا جانے لگا‘صبر، اخلاقیات، رواداری، صلہ رحمی اور بھائی چارہ تو اب کتابوں کی بھولی بسری کہانیاں بن کر رہ گیا‘
نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر مصیبت پر صبر کرنے کاحکم دیا اور اس کے عوض آخرت میں بڑے انعام کا حقدار بنایا‘ مگر ان سب تعلیمات پر روزی روٹی اور بھوک غالب آگئی‘چندایک کو چھوڑ کر پوری کی پوری پاکستانی قوم کا مذہب و ایمان صرف اور صرف پیسے کا حصول ٹھہرگیا ‘ اور اس کے لئے ہر سطح کی بے ایمانی ، قتل وغارت اور جائزناجائز ہتھکنڈے عام ہوئے‘ عزتوں کے مرتبے نیلام ہوئے، حکمران اختیارات اورمفادات کے غلام ہوئے‘ان حکمرانوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مفاداتوں اور مفاہمتوں کی سیاست ختم ہونے کا وقت آچکاہے‘اگر بھوک ننگ کے ستائے ہوئے ان لوگوں کوان کے حقوق نہ دئیے گئے تو جان لیجئے کہ یہ 20کروڑ لوگ اب ایک ابلتا ہوا آتش فشاں بن چکے ہیں‘ پانی ، بجلی ، گیس، بے روزگاری، لاقانونیت اور ناانصافی کے خونی اژدھے اب ان کے گھروں میں داخل ہوکران کو اوران کی اولادوں کوچاٹ رہے ہیں اور ان سے ان کا جینے کا آخری حق بھی چین چکے ہیں‘
جناب خادم اعلی پنجاب، جناب وزیراعظم صاحب اس آگ کی لپٹیں اب پاکستان کے طول وعرض میں صاف اورواضح دیکھی جاسکتی ہیں‘ مگر آپ نہ جانے کیوں اس کی تپش محسوس نہیں کرپارہے‘جناب عالی آپ 7096095مربع کلومیٹر کے اس جنگل پاکستان میں لگی ہوئی آگ کو چلوبھرپانی سے بجھانا چاہ رہے ہیں‘فرقہ واریت ، طالبانیت، ناانصافی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ذلیل ورسواء ان پاکستانیوں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ سب کافی نہیں‘ ذراان وحشت میں ڈوبے چہروں پر لکھی ہوئی تحریریں پڑھ لیں‘یہ مشتعل لوگ اب اپنے راستے میں آنے والے ہر مشتبہ اورملزم کو خود ہی پولیس ،جج اور عدالت بن کر اسے موت کاحقدارٹھہرارہے ہیں‘ یہ نیم وحشی اور نیم پاگل عوام اب دیوانہ وار گلیوں ، سڑکوں اور بازاروں میں اپنے شکار تلاش کرکے چاہے کوئی بے گناہ ہو یا کوئی گناہ گار، انہیں فوری انصاف دینے پر تل چکی ہے‘ آپ کو ڈرنا ہوگا اس دن سے جب ڈنڈے ، لاٹھیاں ، بندوقیں تھامے اوربھوکے ننگے افلاس زدہ یہ لوگ آپ کے محلات کارستہ دیکھ لیں‘ پھر کوئی جاتی امراء اور کوئی بلاول ہاؤس محفوظ نہیں رہ سکے گا‘اس بے رحم ہجوم کو فیروزپورروڈ سے جاتی عمرہ پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی‘ ورنہ یہ توآپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ42سال تک لیبیاء پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے کرنل قذافی کے بارعب محلات ، پرتعیش طیارے،بے پناہ دولت بھی اسے عوام اورقدرت کے دست انتقام سے نہیں بچاسکے
تحریر : وصی رحمنٰ