تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
ٰ آج جس دور میں اِنسان زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں اِس سے اِنکار نہیں کہ یہ 21ویں صدی کا جدیدجنگی ہتھیاروں کادور ہے اورساتھ ہی ہر لمحے سائنسی ترقی کازوروشوربھی ہے تو ایسے میں آج کا اِنسان اُوجِ ثریاپر کمندڈالنے پر بھی کمربستہ دکھائی دیتاہے ا وراتناکچھ ہونے پر دنیا کاہر اِنسان ہر قدم اور ہر موڑ پراپنی کامیابی اور ترقی و خوشحالی کے شادیانے بھی بجارہاہے جہاں یہ کچھ ہے تو وہیں آج کی جدیداور سائنسی اکیسویں صدی میں رہنے والے اِنسان کے دل و دماغ میں ایک اجبنی سا ڈراور خوف بھی سمٹابیٹھاہے جس کایہ کہیں نہ کہیں… اور… کبھی نہ کبھی …خواہ جلوت میں ہویاخلوت میں ہو …اپنی اِس کیفیت کابرملااور دبے لفظوں میں اظہار بھی کرتا ہوانہ صرف محسوس ہوتاہے بلکہ نظر بھی آتا ہے۔ اَب ایسا کیوںہے..؟؟ اِس کی وجہ بھی ہم خوب جانتے ہیںمگرآج ہم شاید ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور اپنے سامنے اور دائیں بائیں والے کو پیچھاچھوڑنے میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ ہم نے یہ سوچنابھی چھوڑدیاہے کہ ہم جس ڈراور خوف میں مبتلاہیںاِس کی وجہ بھی ہم او رہمارے رویئے ہیں۔ چلو…!!یہ بھی کچھ دیر کو مان لیںکہ اگرآج ہم اِس کی وجہ نہیں ہیں ….تویہ ہمیں ضرورمانناپڑے گاکہ یقینا اِس معاملے کو سنگین بنانے میںہمارے بڑوں اور پچھلوں سے ایسی غلطیاںاور کوتاہیاں ضرورسرزدہوئیںہیں آج جن کی وجہ سے ہم پر ڈر..ڈر..ڈر…اور خوف و ہراس کا ماحول طاری ہے اَب جس کا ازالہ نہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی لگتاہے۔
اَب ایسے میںیہ ہے ناں… !!کیسی حیرت اور تعجب کی بات….؟؟ کہ ہم جدیددورمیں رہتے ہوئے بھی کیسے عجیب لوگ ہیں …؟؟جو اپنے ہی ہاتھوں ڈھلے یا ڈھلائے گئے دہشت گردوں کی دہشت گردی اور اپنے اردگرد موجود فتنہ پرستوں کے فتوں سے ہی ڈرنے لگے ہیں ۔حالانکہ ہمیں اپنے مُلک اور معاشرے میں اِن ناسُوروں کو سراُٹھانے سے پہلے ہی اِنہیں کچل دیناچاہئے تھامگر افسوس ہے کہ… تب نہ ہمارے بڑوں نے کچھ کیا …؟؟اور آج نہ ہی ہم اِس حالت میں ہیں کہ اَب ہم ہی اِنہیں روکنے یا ختم کرنے کے لئے کچھ کرسکیں…؟؟۔ اگرچہ …!!زندگی کا نعم البدل کچھ نہیں ہے، مگر اُسی صورت زندگی کو خوشگوار اور بھرپورانداز سے گزارجاسکتاہے جب زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی آتاہواور زندگی کو وہی بھرپوراور پُرلطف اندازسے گزارتے ہیں جن کے اندار زندگی کی اہمیت اور اِسے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہو…تووہی لوگ زندگی کو بلاخوف وخطرگزارتے ہیں یوں وہ لوگ اپنی زندگی کواِس طرح گزارکر رہتی دنیاتک امر ہوجاتے ہیں۔
آج اِس میں شک نہیں کہ دنیا کی تاریخ کی کتاب کے اوراق ایسے لوگوں اور اقوام سے بھرے پڑے ہے جنہوں نے پہلے زندگی کو خود سمجھااور پھردوسروں کو اِس کی اہمیت و قدرکوسمجھا کر گزرگئے ہیں بیشک…!! ایسے ہی لوگوں کی داستانوں سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے یعنی یہ کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی حیاتی میں زندگی کو اپنی لونڈی اور وقت کو اپناغلام بناکررکھا اوروہ لوگ اِن دونوں کے ساتھ ایسے کھیلتے …. جیسے کہ زندگی اِن سے پوچھ کراوراِن کے اشاروں پر چلتی اور آگے بڑھتی ہو اور وقت کو بھی اپنی مٹھی میں ایساقیدرکھتے جیسے کہ کوئی طاقتوراپنی مٹھی یا ہتھیلی میں ریت کو دپوچ کررکھتاہے اور جب وہ چاہتاہے ریت کو اپنی مٹھی سے آہستہ آہستہ ڈھیلاکرکے گرادیتاہے اور جب چاہتاہے دوبارہ مضبوطی سے دپوچ لیتاہے یکدم اِسی طرح وہ لوگ وقت کوبھی اپنی مٹھی میںقیدرکھاکرتے تھے،تب دنیامیں اتنی ترقی و خوشحالی تو نہ تھی مگر باوجود لاو ¿لشکررکھنے والوں کے دِلوں میں اِنسانوں سے زیادہ اپنے پیداکرنے والے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کا خوف ہواکرتاتھا
اِن کا ایمان اور یقین تھاکہ کسی ناحق اور نہتے معصوم اِنسان کاقتل قہرخداکو دعوت دیتاہے و ہ طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنے کو کمزورجانتے تھے اوراِنہیں اپنے زورِبازو اور ہتھیاروں پر بھروسے سے زیادہ اللہ کی راضا اور ناراضگی کاڈرتھاجو اِنہیں فلاح اور احترامِ اِنسانیت کی جانب راغب کئے رکھتا تھا۔ مگر یہاں یہ امر جہاں قابلِ رشک ہے تو وہیں قابلِ صدافسوس بھی ہے کہ آج کی 21ویں صدی میں اِنسانوں نے جہاں جدیدسائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے لئے آسائشوں اور سُہولیات زندگی کا سامان پیداکرلیا ہے اور اپنے دُشمن سے اپنے دفاع کے لئے جدید جنگی ہتھیاربناکر اپنی ترقی اور خوشحالی کے انگنت دعوے کرلیئے ہیں تو وہیں اِس بندے کے پوترکے دل سے نہ صرف خوف خداختم ہوگیاہے بلکہ نعوذباللہ… !!اِس کااللہ پرسے بھروسہ ختم ہوگیاہے
اُلٹا اپنے ہی ہاتھوں بنائے گئے ہتھیاروں اور دیگر جنگی سازوسامان پر زیادہ بھروسہ ہوگیاہے آج یہی وجہ سے کہ اِنسان اپنے سائے اور پتے کی سرسراہٹ سے بھی ڈرنے لگاہے جب کسی کے دل سے اپنے رب کا خوف ختم ہوجائے تو پھر وہ اپنے سائے اور اپنی تیزتیزچلتی سانسوں اور پتوں کی سرسراہٹ سے بھی ڈرنے لگتاہے۔
آج کی دنیاکے مادہ پرست اور ہمیشہ زندہ رہنے کے خواہشمند اِنسانوں کے دلوں اور دماغوں میں بیٹھا مرنے اور مارے جانے کا انجاناڈر اور خوف اِنہیں بزدل سے بزدل بنارہاہے اگرآج اِن سے جنگی سازوسامان چھین لئے جائیں تو دورِ جدیدکی ترقی و خوشحالی کے دعویدار دنیا کے آدھے اِنسان تو یوں ہی مرجائیں گے یہاں کہنے دیجئے..!! کہ آج کے دورکے اِنسانوں میں ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ ڈر…ڈر…ڈرکی کیفیات نے اُنہیں پریشان کررکھاہے جو اِن کی دماغی صلاحیتوں کو چاٹ چاٹ کر بھی ختم کررہاہے اور اگر دنیامیں ایسی ہی دہشت گردی اور قتل وغارت گری کی صُورتِ حال برقراررہی تو عنقریب ساری دنیا کے لوگ ڈراور خوف کی وجہ سے خود ہی ختم ہوجائیں گے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com