تحریر : شاہ بانو میر
بہت کم ایسا ہوا زندگی میں کہ میں کسی خاتون سے بہت جد متاثر ہو جاؤں٬ مجھے متاثر کرنے کیلیۓ صرف سچی قابلیت کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ ہستی قابلیت کا مرقع تھیں ٬ راجہ شفیق کیانی صاحب کا ان کے کام کے حوالے سے نام سنا تھا ایک دن پھر فیس بک پر ایڈ دیکھا جو ان کے مایہ ناز شہرہ آفاق ریڈیو کے پروگرام کے حوالے سے تھا ٬ ہجرتوں کے باب ڈاکٹر ہما جمشید صاحبہ جو کچھ ایڈ میں تحریر تھا٬ اور جو شخصیت سامنے دکھائی دے رہی تھیں٬ وہ اتنی سحر انگیز تھیں کہ انہیں سننا تھا ہر حال میں ٬ یوں وہ دن تاریخ وقت ذہن میں مقید ہوگیا٬ شومئی قسمت اس دن یاد بھی رہا اور یوں میں نے ان کا پہلی بار سنا ٬ ایک گھنٹے کا انٹرویو نہیں تھا
یہ گفتگو تھی ایک دماغ سے معلومات کا علم کا محنت کا عمل کا بیش بہا خزانہ تھا٬ کب انٹرویو شروع ہوا کب اختتام پزیر ہوا؟
سمجھ ہی نہی آئی گفتگو میں توازن بات میں اعتماد لفظوں کا کھرا پن بے لاگ انداز بیاں ٬ نجانے کیا کیا تھا ان ی شخصیت کے نہاں خانوں میں ٬ قیمتی خاتون بیحد قیمتی یہی یہی تکرار ابھر رہی تھی میرے خیال میں٬ کوئی خاتون پڑہ لکھی ہیں اور اتنی متحرک ہیں؟ یہ پہلی بار مجھ ناقص الاعقل کو معلوم ہوا٬ نجانے وقت کیسے پر لگا کے اڑتا گیااور میں بھی زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر وقتی طور پے انہیں بھول سی گئی٬ پھر ایک دن فیس بک پے ان کی ایسوسی ایشن ایسکیپ ہما جمشید کی ایک نادر سی تصویری جھلک دیکھی٬ متاثر کُن منظر تھا
پاکستانی خواتین کے ہمراہ پاکستانی ثقافت کیلیۓ کوئی پروگرام کر رہی تھیں٬ پھر تو جیسے فیس بک ان کی کامیاب عملی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گئی ٬ ہر روز کوئی نہ کوئی اہم کام ٬ سپینش زبان پر عبور رکھنے والی یہ ملکہ صفات خاتون میری کسی اچھے وقت کی دعا تھیں جو میری دعوت پر پیرس تشریف لائیں ٬ یوں کچھ گھنٹے ہم نے ساتھ گزارے ٬ جو یادگار ہیں٬ میرا چھوٹا بیٹا ان کی نظروں کا خاص مرکز رہا٬ میں نوٹ کر رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ بات کرتے مصروف رہتے ہوئے بھی مسلسل اسے ہر پہلو سے جانچ رہی ہیں٬ کہ اس کا اصل مسئلہ کتنی پیچیدگی کا حامل ہے٬ جاتے جاتے مجھے کہہ گئیں کہ اس بچے کو آپ نے لاڈ پیار میں رکھا ٬ بہت آغاز میں سمجھ لیا جاتا تو شائد اتنا پریشان کُن حال نہ ہوتا٬ بات تو ان کی درست تھی لیکن اب الحمد للہ جو بھی ہے اللہ کا کروڑ ہا شکر ہے ٬
بہر حال راضی بالرضا والا معاملہ ہے اب تو ٬ ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ جو گفتگو بھی ہوئی وہ خواتین کے حوالے سے تھی ٬ فکر مند اور ہمدرد سوچ رکھنے والی ٬ ایسی خواتین کی تعداد کتنی ہوگی جو دوسروں کیلیۓ شعور کی خواہاں ہو فکر مند ہوں؟ یہاں تو ہم نے صرف گرانا سیکھا ہے کام کے ہم ازلی دشمن ہنسی مذاق میں زندگی کو یورپ کی تند و تیز جولانی میں یوں گزار رہے کہ احساس ہی گُم کر بیٹھے اپنے پیدا ہونے کا٬؟ تعمیری عمل کو تنقید کی نوکیلی نوک سے کرید کرید کر اسکی افادیت کو قدرے کم کرنے کی ناکام کوشش کرتے لیکن کچھ چیزیں اللہ اپنی حفاظت میں رکھتا ٬ آج نہ سراہنا آتا ہے نہ شکر ادا کرنا سوچ پر ایسا بد نصیبی کا قفل ہے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے اور کان رکھتے ہوئے بہرے قلب رکھتے ہوئے بے حِس ٬ اسی کا شاخسانہ ہے٬ آج پاکستان کے رویے اتنے سفاک ہوگئے کہ جلاؤ گھیراؤ یوں کیا جا رہا جیسے کتنا بڑا معرکہ نہتے بے گناہ بے بس افراد کے خلاف مار لیا ہو٬ مگر ایسے سفاک رویّوں میں ڈاکٹر صاحبہ جیسی معتدل ہستیاں بھی ہیں جو ایسی فضا میں بغض کو ختم کر کے ہم آہنگی کے انسانیت کے خوبصورت پیغامات پھیلا کر ملک سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کرتی ہیں ٬ بلکہ کئی مشکل وقت میں یہ ضرورتمندوں کےمسائل کو حل کر کے اللہ کے پیارے بندوں میں اپنا شمار کروا لیتی ہیں٬
وقت کو بہترین انداز میں استعمال کر کے زندگی کو پیہم جدو جہد کا نام دینے والی یہ خاتون کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں جانتیں٬ خود بھی متحرک ہیں اور ساتھ پاکستانی خواتین کو بھی کسی نہ کسی مثبت پروگرام میں مصروفِ عمل رکھتی ہیں٬ ایک دن کیلیۓ فرانس تشریف لائیں تو پروگرام کے بعد گھر آئیں اور میرے ہسبنڈ اور میری بچیوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ان کا٬ سپین واپس جانے سے پہلے راجہ شفیق کیانی صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا٬ راجہ صاحب ہما جمشید نے بہت کام کیا بہت زیادہ٬ لیکن گزرے کئی سالوں میں ہما جمشید ایک چیز بھلا بیٹھی تھی ٬ پاکستانیت جو مجھے شاہ بانو میر کے گھر کے ماحول سے واپس ملی ہے ٬ یہ جملہ میرے لئے مانندِ آبِ حیات تھا٬ کہ میرا عمل میرا کام انہیں اتنا اچھا مضبوط لگا تھا٬ ڈاکٹر صاحبہ جیسی سنجیدہ متحرک سوچ کی مالک خاتون کو اللہ نے ایک نئی روشنی عطا کی بصیرت نے منزل کی جانب بڑہنا چاہا تو سامنے پی ٹی آئی کا نام تھا٬ بغیر کسی حیلِ و حجت کے ڈاکٹر صاحبہ نے اس میں شمولیت اختیار کی اور یہ ڈاکٹر صاحبہ کیلیۓ میری عرصہ دراز سے خواہش تھی کہ کوئی سنجیدہ کامیاب خاتون یورپ سے اس میں شامل ہوں٬
ڈاکٹر صاحبہ کی معیت میں گزرا ہوا وقت یوں تھا گویا دریا کو کوزے میں بند کرنا ٬ چٹکی بجاتے ان کے جانے کا وقت آیا ٬ اور وہ رخصت ہو گئیں ٬ لیکن میرے گھر کے در وبام پر اپنی یادوں کے نقوش طویل عرصہ کیلیۓ چسپاں کر گئیںڈاکٹر صاحبہ آپ یورپ میں پاکستان کی وہ بیٹی ہیں جو اپنی قابلیت اپنی اہلیت اور محنت سے جگہ بنا کر نمایاں مقام پر کھڑی ہیں٬ درمکنون کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے پر ہم سب آپ کے انتہائی مشکور و ممنون ہیں٬ آپ کا طویل کام کا تجربہ اور رہنمائی یقینا ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی٬ آپ کی ہمراہی ہمارے لئے باعث عزت و افتخار ہے ٬ آپ پاکستان کی بلاشبہ مایہ ناز قابل فخر بیٹی ہیں اور ہمارا فخر ہیں آپ درمکنون کی ٹیم سے آپکی انشاءاللہ جلد بالمشافہ ملاقات ہو گی
تحریر : شاہ بانو میر